حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

خاندان وحی علیھم السلام کی محبت

محبت اور دوستی میں موجود ایسے حیات بخش آثار کی وجہ سے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی محبت کو صحیح سمت دے اور بہترین مقصد کی طرف اس کی رہنمائی کرے ۔اسی وجہ سے پیغمبر اکرمۖ نے انسان کی دوستی و محبت کو اہلبیت علیھم السلام کی طرف متوجہ کیا ہے تاکہ اس ذریعے سے افراد کی آلودگیوں کو پاک کیا جا سکے اور ان میں اچھی عادتیں اور خوبیاں پیدا ہو سکیں  جو انہیں خدا کا مقرّب بنائے۔

کیونکہ پیغمبر اکرمۖ اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت خدا کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے بہت مؤثر ہے۔روایات میں اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی محبت کو خدا کے تقرب کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:

''لِکُلِّ أَمْرٍ سَیِّد وَحُبِّْ وَ حُبُّ عَلِی  علیہ السلام سَیِّدُ مٰا تَقَرَّبَ بِہِ الْمُتَقَرِّبُوْنَ مِنْ طٰاعَةِ رَبِّھِمْ''([1])

ہر چیز کا ایک سردار ہے ،اور میری اور علی علیہ السلام کی محبت ان چیزوں کی سردار ہے کہ جن کے ذریعے تقرب حاصل کرنے والے مقرب ہوتے ہیں جو کہ پروردگار کی اطاعت ہے۔

یہ روایت اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ خاندان  نبوت علیھم السلام کی محبت  خدا کے احکام کی اطاعت اوراس کے تقرب کا ذریعہ ہے ۔

پیغمبر اکرم ۖ ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''حُبُّ عَلِّیِ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ یُحْرِقُ الذُّنُوْبَ کَمٰا تُحْرِقُ النّٰارُ اَلْحَطَبَ''([2])

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی محبت کناہوں کو اس طرح راکھکر دیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے۔

اس بناء پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی محبت گناہوں کے وجود کو جلا دیتی ہے اور آپ کی دوستی گناہوں کے پہاڑ کو ایک ڈرّے میں  بدل دیتی ہے  اور اسے انسان کے وجود سے نکال کر نیست و نابود کر دیتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی محبت نہ صرف گذشتہ گناہوں  کے آثار ختم کر دیتی ہے بلکہ یہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح انسان کو گناہ انجام دینے سے روکتی ہے۔محمد و آل محمد علیھم السلام سے محبت کے ذریعے آپ خود کو گناہوں سے بچا سکتے ہیں۔

رسول اکرمۖ فرماتے ہیں:

''أَلاٰ وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِیًّا لاٰ یَخْرُجُ مِنَ الدُّنْیٰا حَتّٰی یَشْرِبَ مِنَ الْکَوْثَرِ وَ یَأْکُلَ مِنْ طُوْبٰی وَ یَرٰی مَکٰانَہُ فِی الْجَنَّةِ''([3])

جان لو! جو علی علیہ السلام سے محبت کرے وہ دنیا سے نہیں جائے گا مگریہ کہ وہ آب کوثر پی لے اور طوبی سے کھالے ا و ر جنت میں  اپنی جگہ دیکھ لے۔

ہمیں خدا سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کے آخری لمحہ تک محبت اہلبیت علیھم السلام ہمارے دلوں میں باقی رہیتا کہ ہم آخری لمحوں میں اس لطف و کرم کے بھی شاہد بنیں جن کا انہوں نے وعدہ فرمایا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں آیا ہے:

''أَللّٰھُمَّ ثَبِّتْنِْ مَحَبَّةِ أَوْلِیٰائِکَ''([4])

جب محبت اہلبیت علیھم السلام کا دم بھرتے ہوئے ہماری جان نکلے گی  تو موت کا پہلالمحہ ہی وہ لمحہ ہو گا کہ جب ہم ان کی محبت و عظمت اور جلال کے آثار (جو ایمان و تقوی ٰ کی علامت ہے)کو بخوبی دیکھیں گے۔  انشاء اللہ۔

چند روایات میں اہلبیت نبوت علیھم السلام سے محبت کو ایمان کی جڑ اور بنیادقرار دیا گیا ہے،جس طرح ان سے دشمنی اور بغض کو کفر و نفاق قرار دیا گیا ہے۔

پیغمبر اکرمۖ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''یٰا عَلِّیُ حُبُّکَ تَقْویٰ وَ اِیْمٰانوَ بُغْضُکَ کُفْر وَ نِفٰاق''([5])

اے علی! آپ  کی محبت تقویٰ و ایمان ہے اور آپ کی دشمنی کفر و نفاق ہے۔

جو کوئی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کرے وہ ہمارے مکتب کی نظر میں کافر اور خدا کے منکروں کے زمرے میں آتا ہے۔

آن راکہ دوستی علی نیست،کافر است

گو  زاھد زمانہ  و گو  شیخ  راہ  باشد

اسی طرح جن کے وجود میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی محبت رچ بس چکی ہو ،وہ تقویٰ و ایمان سے سرشار ہوتے ہیں۔

جی ہاں!حبّ و بغض کے ایسے ہی بنیادی اثرات ہوتے ہیں:

خواھی کہ زدوزخ برھانی دل و تن               اثنی عشری شو و گزین مذھب من

ایشان سہ محمدندو چھار ست علی          با موسی جعفر و حسین  و دو حسن

ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے اور وہ رسول اکرمۖ سے روایت   کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''حُبُّنٰا أَھْلُ الْبَیْتِ یُکَفِّرُ الذُّنُوْبَ وَ یُضٰاعِفُ الْحَسَنٰاتَ''([6])

ہم اہلبیت علیھم السلام کی محبت گناہوں کا کفارہ ہے اور نیکیوں کو کئی گنا زیادہ کر دیتی ہے۔

کیونکہ محبت اکسیر ہے جس میں توڑ دینے اور نابود کر دینے کی طاقت پائی جاتی ہے اور گناہوں کے آثار کوختم کر دیتی ہے  ور انہیں نیکیوں میں تدبیل کر دیتی ہے ،  جس طرح شنجرف([7]) تانبے کو سونے میں تبدیل کر دیتی ہے اسی وجہ سے محبت کو ''اکسیر روح ''کہا گیا ہے کیونکہ آلودہ روح  جو گناہوں کی وجہ سے خدا سے دور ہوگئی ہے ،وہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت جو دلوں کو جلا دینی والی اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی ہے  ،اپنے تقرب کو واپس پا لیتی ہے اور گناہوں کو ترک کرکے خدا کی مقرّب بن جاتی ہے۔

کیونکہ جو دل امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام  اور خاندان نبوت علیھم السلام کی محبت سے سرشار ہو اس میں گناہ کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی بلکہ اگر اس میں محبت کا اضافہ ہو جائے تو وہ ہر اس گناہ کو نیست و نابود کر سکتے ہے جسے محب نے ماضی میںانجام دیا ہو اور وہ اسے مستقبل میں گناہ انجام دینے سے روکتی ہے ۔کیونکہ گناہوں کو انجام نہ دینا ان کے آثار و اثرات کو برطرف کرنے کی بنسبت زیادہ آسان ہے۔

اس کا سرّ و راز یہ ہے کہ جو مکمل طور پر اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کا محب اور پیروکار ہو ،وہ خدا کا محبوب اور مقرب ہے اور جب انسان خدا کا محبوب اور مقرب بن جائے تو وہ خدا کی پناہ میں آجاتاہے یعنی خدا اس کے اور گناہ کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتاہے  اور اسی طرح خداوند اس سے جس کام کی انجام دہی چاہتا ہے ،اسے وہ کام انجام دینے کی قدرت و طاقت عطا کرتاہے اور اسے وہ عمل انجام دینے میں کامیاب فرماتاہے۔''لاحول ولا قوّة الا باللّٰہ''کے یہی معنی ہیں ۔اسی لئے بعض خاندان نبوت علیھم  السلام سے محبت و دوستی کو سیر و سلوک کی مؤثر ترین راہ قرار دیتے ہیں۔

اسی لئے ایک مفصل روایت جس کو مرحوم علامہ مجلسی  نے بحار الانوار کی جلد ٧٠ صفحہ ٢٥ میںحضرت امام صادق علیہ السلام سے ذکر کیاہے ،کی بناء پر محب (اگر محبت کے عالی درجوں تک پہنچ جائے)نے اگرچہ علماء کی راہ،حکماء کی سیرت اور صدیقین کا طریقہ طے نہیں کیا ہوتا  اور اس کی روش ان کی روش سے مختلف ہو لیکن پھر بھی جو نتائج علمائ،حکماء اور صدیقین کو حاصل ہوتے ہیں وہ اسے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

ایسے آثار اسی صورت میں ہو سکتے ہیں کہ جب محبت بہت شدیدہو نہ کہ وہ اہلبیت علیھم السلام کے عام محبوں جیسی  محبت  ہو۔یہ محبت ایسی اہمیت کی حامل ہے کہ اس روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ ایسی محبت نہ صرف سیر و سلوک کا بہترین طریقہ ہے بلکہ یہ وہ واحد راستہ ہے کہ جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے حلانکہ اس روایت کی رو سے حکماء ،علماء اور صدیقین کی روش ایسی نہیں ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ الْحُکْمٰاء وَرَثُوا الْحِکْمَةَ بِالصُّمْتِ،وَ اِنَّ الْعُلْمٰاءَ وَرَثُوا الْعِلْمَ بِالطَّلَبِ وَ اِنَّ الصِّدِّیْقینَ وَرَثُوا الصِّدْقَ بِالْخُشُوْعِ وَ طُوْلِ الْعِبٰادَةِ فَمَنْ أَخَذَہُ بِھٰذِہِ الْمَسِیْرَةِ اِمّٰا اَنْ یَسْفَلَ وَ اِمّٰا اَنْ یَرْفَعَ وَ أَکْثَرَھُمُ الَّذِْ یَسْفَلُ وَلاٰ یَرْفَعُ ،اِذٰا لَمْ یَرْعَ حَقَّ اللّٰہِ وَ لَمْ یَعْمَلْ بِمٰا أَمَرَ بِہِ ،فَھٰذِہِ صِفَةُ مَنْ لَمْ یَعْرِفِ اللّٰہُ حَقَّ مَعْرِفَتِہِ وَ لَمْ یُحِبُّہُ حَقَّ مَحَبَّتِہِ،فَلاٰ یَغُرَّنَّکَ صَلاٰتُھُمْ وَ صِیٰامُھُمْ وَ رَوٰایٰاتُھُمْ وَ عُلُوْمُھُمْ ،فَاِنَّھُمْ حُمُر مُسْتَنْفِرَة''([8])

حکماء نے حکمت خاموشی کے ذریعے ،علماء نے علم طلب کے ذریعے اور صدیقین نے صداقت خشوع  اور طولانی عبادات کے ذریعے حاصل کی ۔پس جو بھی اس راستہ کو طے کرے یا وہ تنزلی کی طرف جائے گا یا پھر  ترقی کرے گا  اور ان میں سے اکثر اگر خدا کے حق کی رعایت نہ کریں  اور جس کا   حکم دیاگیا ہے اس پر عمل نہ کریں تو وہ تنزلی کی طرف جائیں گے اور یہ ان کی خصلت ہے جنہوں نے حقیقت میں خدا کو نہیں پہچانا اور اس سے اس طرح محبت نہیں کی جس طرح محبت کرنے کا حق تھا ۔پس ان کی نماز، روزے اور روایات و علوم تمہیں دھوکا نہ دے دیں ،وہ حماران وحشی ہیں!

جیسا کہ اس روایت میں بھی تصریح ہوئی ہے کہ علماء و حکماء اور صدیقین کو مورد انتقاد قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے حقیقت میں خدا کو نہیں پہچانا اور انہوں نے حقیقت میں خدا کی محبت کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔

اگر محب مقام محبت میں عالی مراحل تک پہنچ جائے  اور اپنے دل (جو حرم اللہ ہے)کو خدا اور اہلبیت علیھم السلام کی محبت سے بھر لے  تو جب تک اس کے دل میں ان کی محبت کی شدت باقی رہے گی تب تک تنزلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

  محبین (محبت کرنے والے)کی تنزلی صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ خود محبت کو ہاتھ سے دے بیٹھیں ورنہ جب تک محب کے دل میں محبت موجود ہو  وہ ترقی و تکامل کی راہ پر گامزن ہو گا نہ کہ ترقی و سقوط کی جانب۔

اس نکتے کا راز یہ ہے ،جیسا کہ ہم نے کہا: محبت اور شدید شوق مقناطیس کی طرح ہے اور جب تک محبت موجود ہو وہ محب کو محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور جب وہ محبوب کی طرف مائل ہو جائے تو اس میں سنخیت پیدا ہو جاتی ہے اور  محب میںمحبوب کی صفات و آثار پیدا ہو جاتی ہیں۔اسی لئے اس روایت میں خدا اور اولیائے خدا کی محبت کوسیر و سلوک  میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے سب سے بہترین اور محفوظ راستہ  بتایاہے۔

بعض دوسری روایات میں بھی محبین دوسرے تمام افراد پر مقدم ہیں۔جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے اخبار میں آیا ہے کہ خدا نے فرمایاہے:

''مٰا أَحَبَّنِْ أَحَد أَعْلَمُ ذٰلِکَ یَقِیْنًا مِنْ قَلْبِہِ اِلاّٰ قَبِلْتُہُ لِنَفْسِْ وَ أَحْبَبْتُہُ حَبًّا لا یَتَقَدَّمُہُ أَحَد مِنْ خَلْقِْ ،مَنْ طَلَبَنِْ بِالْحَقِّ وَجَدَنِْ وَمَنْ طَلَبَ غَیْرِیْ لَمْ یَجِدْنِیْ...''([9])

مجھے کوئی دوست نہیں رکھتا کے جس کے بارے میں میں یہ جانو کہ واقعاً یہ محبت اس ے دل  سے پھوٹ رہی ہے مگر یہ کہ اسے میں اپنے لئے قبول کر لوں اور اسے دوست رکھوں گا۔اس طرح سے کہ میری مخلوق میں سے کوئی بھی اس پر مقدم نہیںہو گا۔جو مجھے حقیقت میں طلب کرے وہ مجھے پا لیتا ہے اور جو میریغیر کو طلب کرے  میں اسے نہیں ملتا۔

اس حدیث قدسی سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جنہیں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف (جو خدا کے نمائندہ ہیں)اپنی خدمت کے لئے قبول فرما لیں اور انہیں لوگوں میں سے اپنی مصاحبت کی نعمت سے مشرّف فرمائیں اور دوسروں پر مقدم کریں ،وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو راہ محبت میں سب لوگوں پر مقدم ہوں اور محبت کے عالی ترین درجوں پر فائز ہوں۔

 


[1] ۔ بحار الانوارج:٢٧ص١٢٩

[2]۔ بحار الانوار:ج٣٩ص٢٦٦

[3]۔ سفینة البحار،مادۂ حبب

[4]۔ بحار الانوار:ج١٠١ص٢٣٢ اور ٣٥٧،مصباح الزائر:١١٦

[5] ۔ ۔حار الانوار:ج٣٩ص٢٦٣

[6]۔ بحار الانوار:ج٦۸ص۱۰۰،امالی شیخ طوسی:ج۱ص۱٦٦

[7]۔ ایک سرخ معدنی چیز

[8]۔ بحار الانوارج۷۰ص۲۵

[9]۔ بحار الانوارج۷۰ص۲٦

 

 

    ملاحظہ کریں : 2165
    آج کے وزٹر : 58890
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131782065
    تمام وزٹر کی تعداد : 91395416