حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم

خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم

مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے اعتقادکی بناء پر ہر دور کے انبیاء ،اس دور کے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ علم ودانش کے مالک ہوتے ہیں۔کوئی دانشور اور عالم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔بحث و مناظرہ  میں  انبیاء انہیں مغلوب کردیتے ہیں۔

اسی طرح آئمہ اطہار علیہم السلام  کا علم بھی ہر دور کے علماء سے زیادہ ہوتا ہے۔کسی بھی بڑے عالم کا علم ، ان کے علم سے قابل مقائسہ نہیں ہے۔

دوسرے لوگوں پر انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے علم کی برتری کہ یہ وجہ  ہے کہ ان کاعلم اکتسابی نہیں  ہے۔انہیں علم تحصیل کے ذریعہ حاصل نہیں ہوا۔بلکہ ان کا علم لدنّی ہے ۔ جو انہیں خدا وند مہربان کی طرف سے عطاہو اہے۔

اس بناء پر وہ بزرگ ہستیاں علم مخزوں اور عالم غیب کے عالِم ہیں، اسی وجہ سے ان کا علم ، دوسروں کے علم سے برتر ہے۔

اگر چہ آئمہ اطہا رکے علم اور اس کی حدود کے بارے میں روایات مختلف ہیں ۔ جن کے بارے میں بحث اور تجزیہ و تحلیل بہت طولانی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں: آئمہ علیھم السلام کے مخاطبین ان کی سطح علمی و ظرفیت اور اسے قبول کرنے کی طاقت میں اختلاف کی وجہ سے اس بارے میں روایات بھی مختلف ہیں۔

ہم کہتے ہیں: حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا علم دنیاکے تمام لوگوں کے علم سے برترہے۔ آنحضرت  تمام علوم کے مالک گے۔ آنحضرت کی زیارت میں وارد ہوا ہے:

'' انک حائز کلّ علم ''([1])

آپ ہر علم کے مالک ہیں۔

زیارت ندبہ میں پڑھتے ہیں:

'' قد أتاکم اللّہ یا آل یاسین خلافتہ، وعلم مجاری أمرہ فیما قضاہ،و دبّرہ ورتّبہ و ارادہ فی ملکوتہ ''([2])

اے آل یٰسین!خدا وند نے اپنی جانشینی کا مقام آپ کو دیا ہے۔عالم ملکوت میں اپنے حکم اور اس کے جاری ہونے کی جگہ اور تدبیر و تنظیم کا علم آپ کو دے دیا ہے۔

اس زیارت شریف میں آنے والے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت علیھم السلام کے علممیںنہ صرف عالم ملک بلکہ عالم ملکوت بھی شامل ہیں۔عصرِ ظہور کی برکتوں کے بارے میںوارد ہونے والی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) عالم ملکوت کی بھی تکمیل فرمائیں گے۔

اس بناء پر آنحضرت  کے قیام کا صرف ملکی و مادی پہلو نہیں ہے۔بلکہ وہ عالم ظاہر کے علاوہ باطن و نامرئی عالم کی تکمیل فرمائیںگے۔جس میں غیر مرئی عالم کی موجودات بھی آپ  کے پرچم تلے آجائیں گے۔

علمِ امام کا مسئلہ معارفِ اہلبیت علیہم السلام کے باب میں بہت اہم مسئلہ ہے۔اس کی حدود و کیفیت کے بارے میں بہت سے ابحاث مطرح ہوئے ہیں کہ جن کا تجزیہ و تحلیل اس کتاب کے موضوع سے خارج ہے ۔ اس بناء پر ہر دور کا اما م  اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے اعلم ہوتا ہے۔اس زمانے کے تمام دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ علوم وصنایع کے ہر شعبے میں اپنی مشکلات ائمہ اطہار علیھم السلام کے توسط سے برطرف کریں۔کیونکہ مقامِ امامت اور رہبری الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ہر علم میں سب لوگوں سے زیادہ اعلم ہوں۔یہ خود امام  علیہ السلام کے فضائل میں سے ایک ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس مفضول کو فاضل پر مقدم کرنا لازم آتا ہے۔

اس بیان سے واضح  ہوجاتا ہے کہ ظہور سے پہلے تک جتنی بھی علمی ترقی و پیشرفت ہوجائے،پھر بھی امام  کا علم اس سے زیادہ ہوگا۔اب ہم جو روایت ذکر کررہے  ہیں۔اس میں یہ مطلب صراحت سے بیان ہوا ہے۔

حضرت امام رضا  علیہ السلام فرماتے ہیں: 

'' انّ الانبیاء والائمّة علیھم السلام یوفّقھم اللّٰہ و یؤتیھم من مخزون علمہ و حکمتہ مالایؤتیہ غیرھم، فیکون علمھم فوق علم اھل زمانھم فی قولہ عزّوجلّ:

''أَفَمَن یَہْدِیْ ِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّنْ لاَّ یَہِدِّیْ ِلاّٰ أَنْ یُہْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ''([3])

یقینا خدا وند انبیاء و آئمہ کوتوفیق عنایت کرتا ہے اور اپنے علم و حکمت کے خزانے سے انہیں علم عطا کرتا ہے کہ جو اس نے ان کے علاو ہ کسی کو عنایت نہیں کیا۔اسی وجہ سے ان کا علم ہر دور کے لوگوں کے علم سے زیادہ ہوگا۔

 

یہ آیت اس حقیقت پردلالت کرتی ہے:

کیا جو شخص لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ ہدایت کا

زیادہ حقدار ہے یا وہ جو سیدھے راستے پر نہیں آتا ہے ،مگر یہ کہ کوئی اس کی راہنمائی کرے؟

اس بناء پرکسی بھی شعبے میں علوم جتنی بھی ترقی کرلیں،وہ سب امام کے وسیع علم کے دامن میں شامل ہوں گے۔جس طرح دریابارش کے قطروں کو اپنے اندر جگہ سمو لیتا ہے اور خود قطرے کا وجود مٹ جاتا ہے۔اسی طرح تمام علوم و فنون بھی امام کے بحر علم میں فناہوجائیں  گے۔

جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ ظہور کے پُر نور زمانے میں پوری دنیا میں برہان و استدلال عام ہوگا۔پوری کائنات میں سب انسان منطق و استدلال سے صحیح علم و دانش سے سرشار ہوں گے ۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے یاور اپنے بیان و گفتار سے اپنے مخالفین کو راہ راست پر لائیں گے اور حقیقت کی طرف ان کی راہنمائی کریں گے۔

آنحضرت  بھی اپنی گفتار سے لوگوں کی مکتب اہلبیت  علیہم السلام کی طرف ہدایت فرماکردنیا کو جدید علم ودانش سے سرشار فرمائیں گے۔یوں وہ حق کو ظاہر اور باطل کونابود کریں گے اور انسانوں کے دلوں کو ہر قسم کے شک  و شبہ سے پاک کریں گے۔یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کی امام نے تصریح فرمائی  ہے اور اسے اپنی توقیعات میں بیان فرمایا ہے:

حضرت بقیة اللہ الاعظم  (عج) نے اپنی ولادت کے پہلے گھنٹے میں فرمایا:

''زعمت الظلمة انّ حجّة اللّہ داحضة ولو اُذن لنا فی الکلام لزال الشکّ ''([4])

ظالم گمان کرتے ہیں کہ حجت خدا باطل ہوگئی ہے۔اگر ہمیں بولنے کی اجازت دی جائے تو شکوک  برطرف ہوجائیں گے۔

یہ واضح ہے کہ شک کے برطرف ہونے سے دل ایمان و یقین سے سرشار ہوجائے گا۔قلب کے یقین سے سرشار ہونے سے اہم حیاتی اکسیر تمام لوگوں کے اختیار میں ہوگی، جو انسان کی شخصیت کو تکامل بخشے گی۔

 


[1]۔ مصباح الزائر:٤٣٧، صحیفہ مہدیہ:٦٣٠

[2]۔ بحارالانوار: ج۹۴ص۳۷، صحیفہ مہدیہ: ٥٧١

[3]۔ سورہ یونس آیت:٣٥، کمال الدین ٦٨٩، اصول کافی:ج۱ص۲۰۲

[4]۔ الغیبة شیخ طوسی:١٤٧

 

    ملاحظہ کریں : 7511
    آج کے وزٹر : 59235
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129266888
    تمام وزٹر کی تعداد : 89783053