حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امر عظیم کیا ہے؟

امر عظیم کیا ہے؟

اب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس روایت میں بیان ہونے والے امرِجدید  سے مراد وہی امر عظیم ہے کہ جس کی گزشتہ روایت میں تصریح ہوئی ہے؟

اگردونوں (امر جدید اور امر عظیم) سے ایک ہی چیز مراد ہو تو پھر وہ امر

جدید اور امر عظیم کیا ہے کہ جس کی خاطر حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) قیام فرمائیں گے؟

اسرار سے آگاہ ہی ا س سوال کے جواب سے آگاہ ہیں۔ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی روایات میں اس  بارے میں چند اشارات اور کچھ سرسری نکات ملتے ہیں۔ان کے معنی و تفسیر سے فقط چند خواص ہی آگاہ ہیں  کہ جواہلبیت عصمت وطہارت علیہم السلام کے کلمات کے اسرار ورموز سے واقف ہیں اور جو ان کے فرمودات میں موجود کنایات و اشارات سے عظیم علمی مطالب اخذ کرتے ہیں۔

حضرت امام صادق  علیہ السلام  ایک  روایت میں فرماتے ہیں:

'' حدیث تدریہ خیر من الف ترویہ، ولا یکون الرجل منکم فقیھاََ حتّی یعرف  معاریض کلامنا، وانّ الکلمة من کلامنا لتصرف علی سبعین وجھاََلنا من جمیعھا المخرج ''([1])

ایک رویات کے معنی کوسمجھنا ہزار روایتیں نقل کرنے سے بہتر ہے۔تم میں سے کوئی شخص بھی فقیہ نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ ہمارے فرمودات میں اشارہ نہ سمجھ لے۔یقیناََ ہمارے کلام کے ہر ایک کلمہ سے ستّر معنی نکلتے ہیں کہ ہمارے لئے ان سب کے تکمیل معنی کے لئے راہ موجود ہے۔

مکتب اہلبیت علیہم السلام میں ایسے افراد کو فقیہ کہا جاتا ہے کہ جو ان کلمات کودرک کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔پس فقیہ وہ ہے کہ جو فرمودات آئمہ علیہم السلام کے معنی اور ان میں موجود اشارات سمجھ سکے۔امر عظیم کی وضاحت اور اس

کا اجمالی جواب ذکر کرنے سے پہلے اس روح افزاء نکتہ پر غور کریں۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جو خانہ کعبہ میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی ملکوتی آواز سن کر لبیک کہیں گے اور اس مہربان امام کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام کریں گے۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جن کو ظہور کا بابرکت زمانہ نصیب ہوگا ۔ جو دین میں ہر قسم کی خرافات سے دستبردار ہوجائیں گے اور حضرت مہدی  علیہ السلام کی زیر سرپرستی ان کی عادلانہ حکومت کے شاہد ہوں گے۔    اس زمانے کے لوگ حضرت صاحب العصر والزمان (عج) کی حکومت کے سائے میں حیاتِ قلب ، تکامل عقل  اوراعلی معارف کی طرف پرواز کریں گے اور پھر وہ امر عظیم کی خلقت کے سرّ و راز سے آگاہ ہوجائیں گے ۔

اس زمانے کے لوگ سمجھ جائیں گے کہ جس خدا نے انسان کی خلقت سے خود کواحسن الخالقین کا خطاب دیا ہے اس نے انسان کے وجود میں کوئی قدرت و توانائی پوشیدہ کی ہے۔لیکن غیبت کے تاریک زمانے میں زندگی گزارنے والوں کے دلوں پرخاندان وحی  علیھم السلام کے تابناک انوار کی کرنیں پڑ رہیں تھیں مگر وہ اس سے بے خبر تھے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کے شفا بخش ہاتھوں سے اس زمانے کے لوگوں کی عقل و خرد کامل ہوگی اسی طرح وہ ان کے دلوں کو معنوی حیات بخشیں گے جس کے ذریعہ وہ عالم ملکوت کا نظارہ کر سکیں گے۔

اب امر عظیم کے بارے میں  پیدا ہونے والے سوال کا جواب دیتے ہیں

کہ امر عظیم اہلبیت کی ولایت کے سلسلہ میں مہم نکتہ ہے، ظہور  کے زمانے میں امر عظیم آشکار ہو گا۔

غیبت کے زمانے کی تاریکی کی وجہ سے لوگوں میں ولایت کے رمز اور اہلبیت علیھم السلام کے رموز و اسرار کو سمجھنے  کا میزان اور انسا ن کی عقل کی حدیں محدود ہیں، جس میں ولایت کی مکمل معرفت اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے متعلق مہم امور کو مکمل طور پرپہچان نہیں ہے، جب ان کے دست مبارک سے انسان کی عقل کامل ہو جائے گی تو اس میں عظیم معنوی مسائل کو سمجھنے کی قدرت پیدا ہو جائے گی۔اس زمانے میں عقل تکامل کی منزل تک پہنچ جائے گی اور آشفتگی سے نجات حاصل کرے گی ۔ امام مہدی علیہ السلام لوگوں  کے لئے معارف کے عظیم نکات بیان فرمائیں گے اور قرآن اس کی گواہی دے گا ۔

یہی بات جناب محمد بن عمرو بن الحسن سے روایت ہوئی ہے۔

'' ان امر آل محمد علیھم السلام أمر جسیم مقنّع لا یستطاع ذکر ولو قد قام قائمنا لتکلّم بہ وَ صدقہ القرآن ''([2])

امر اہلبیت علیہم السلام  ایک ایسا عظیم امر ہے کہ پردے میں چھپا ہوا ہے جسے ذکر کرنے کا امکان نہیں ہے اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا وہ اسے بیان کرے گا اور قرآن اس کی تصدیق کرے گا۔

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ ولایت کے باعظمت امر کو غیبت کی تاریکیوں میں عام لوگوں کے لئے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب عقل  کے تکامل کی راہ میں مانع ایجاد کرنے والے ستمگر اور ظالم ختم ہو جائیں گے تو امام زمانہ  علیہ السلام کے ظہور اور ان کی عنایات سے انسانوں کی عقل و فہم کی تکمیل ہو جائے گی،اس وقت خدا وند بزرگ و برترحکم دے گا کہ امام عصرعلیہ السلام حق کو ظاہر کریں۔اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے لبوں کی جنبش سے ہی حق و حقیقت آشکار ہوجائیں گے پھر لوگوں کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔

وہ بزرگوار اپنے ایک مکتوب میں یوں بیان فرما تے ہیں :

'' اذا أذن اللّہ لنافی القول ظھرالحق واضمحل الباطل، وانحسرعنکم ''([3])

جب خدا  مجھے بولنے کا اذن دے گا تو حق ظاہر ہو جائے گا ، باطل نابود ہ ہوجائے گا اور تم لوگوں  کے لئے یہ سب آشکار ہو جائے گا۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۸۴

[2]۔ بصائر الدرجات:٢٨،بحار الانوار:ج۲ص۱۹۲

[3]۔ الغیبة شیخ طوسی: ١٧٦

 

    ملاحظہ کریں : 7479
    آج کے وزٹر : 11509
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128930186
    تمام وزٹر کی تعداد : 89555079