حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امر عظیم

امر عظیم

حضرت بقیة اللہ الاعظم  علیہ السلام دنیا والوں کے لئے جو کچھ ظاہر فرمائیں گے روایات میں کبھی اسے امر عظیم اور کبھی امر جدید کے عنوان سے مطرح کیا گیا ہے۔

ابی سعد خراسانی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کی :

'' المہدی والقائم واحد؟

فقال:نعم

فقلت:لاّ شیء سمّی  المھدی:

قال:لانّہ یھدی الیٰ کلّ امر خف و سمّی القائم لانّہ یقوم بعد ما یموت،انہ یقوم بامر عظیم ''([1])

کیا مہدی علیہ السلام اور قائم ایک ہی فردکے نام ہیں؟

امام  نے فرمایا :جی ہاں ۔

میں نے عرض کیا کہ انہیں مہدی علیہ السلام کیوں کہا جاتا ہے؟

فرمایا:کیونکہ وہ ہر مخفی امر کی طرف ہدایت کریں گے۔لہذا انہیں قائم کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نام کے مرنے کے بعد قیام کریں گے۔یقیناََ وہ امر عظیم کے ساتھ قیام کریں گے۔

آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت میں بھی تصریح ہوئی ہے کہ حضرت قائم  علیہ السلام عظیم امر اور بزرگی کے لئے قیام کریں گے۔حضرت قائم علیہ السلام جس امر کو قائم کرنے کے لئے قیام کریں گے وہ اس قدر بزرگ ہے کہ کس کی عظمت کی وجہ سے آنحضرت کو قائم علیہ السلام  کا نام دیا گیا۔

امام عصر علیہ السلام جس امر کے لئے قیام کریں گے کیا یہ وہیمنشور ہے کہ جو رسول اکرم ۖاور آئمہ اطہار  علیہم السلام کے توسط سے لوگوں کے لئے قرار یا گیااور پھر مقام خلافت کے غصب ہونے،بدعتوں کے ظہور اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموشی کے سپرد ہو گیا یا ان کے علاوہ کوئی اور عظیم آئین و منشورہے کہ جسے خاندانِ وحی علیہم السلام نے بیان نہیں فرمایا اور اب اسے امام زمانہ علیہ السلام سب لوگوں کے لئے ظاہر فرمائیں گے؟

اس سوال کے جواب سے پہلے امام صادق  علیہ السلام سے نقل شدہ اس روایت پر توجہ کریں۔

امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''اذا قام القائم جاء بأمر جدید کما دعی رسول اللّہ ف بدو الاسلام الٰی امر جدید'' ([2])

جب قائم  علیہ السلام قیام کریں گے تو وہ نیا اورجدید امر لائیں گے جس طرح ابتدائے اسلام میں رسول اکرم نے لوگوں کو جدید امر کی طرف دعوت دی۔اس روایت میں امام صادق نے امام زمانہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایسی چیز لائیں گے کہ جو صدر اسلام میں رسول اکرم  ۖلائے تھے۔اگرچہ یہ روایت اس سلسلہ میں صریح نہیں ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام پہلے بیان نہ ہونے والا کوئی جدید امر لائیں گے ۔  لیکن کم از کم یہ اس بارے میں  صراحت رکھتی ہے ۔ممکن ہے کہ بعض لوگ حضرت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہونے والی روایت میں موجود تشبیہ پر توجہ نہ کریں اور کہیں:

چونکہ اسلام کے بہت سے احکامات لوگوں تک نہیں پہنچے پس انہیں  بیان کرنا ان کے لئے جدید امر ہے۔ لہذا اسے جدید امر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

اس کے جواب میں کہتے ہیں :اگر ہم اس روایت کے ظہور یا صراحت سے دستبردار ہو جائیں تو بھی ہم ایک دوسرا نکتہ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کیا رسول اکرم ۖنے نہیں فرمایا تھا! 

''اِنّا معاشر الانبیاء نکلّم الناس علٰی قدر عقولھم ''([3])

ہم پیغمبر لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرتے ہیں۔

 

اس روایت اورظہور کے زمانے میں عقلی تکامل پر توجہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) لوگوں کے عقلی رشد کی وجہ سے ان کے لئے جدید مطالب بیان کریں گے کہ جن سے انسانی معاشرہ اس سے پہلے بالکل آگاہ نہیں تھا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ ہر جدید امر اور نیا دستور اسلام کے حیات  بخش آئین ہی میں سے ہو گا نہ کہ امام زمانہ لوگوں کے لئے ایک نیا آئین اور دین ایجاد کریں گے۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۵۱ص۳۰

[2]۔ بحار الانوار:ج۵۲ص۳۳۸

[3]۔ بحار الانوار:ج۲ص۲۴۲

 

    ملاحظہ کریں : 7331
    آج کے وزٹر : 6117
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128919404
    تمام وزٹر کی تعداد : 89549687