حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
قضاوتِ اہلبیت علیہم السلام اور حضرت دائود علیہ السلام

قضاوتِ اہلبیت علیہم السلام اور حضرت دائود علیہ السلام

ہم نے کچھ روایات بیان کیں،جن میں حضرت دائود علیہ السلام  کی حکومت کا تذکرہ کیا گیا۔جو اس  بات کی دلیل ہے کہ حضرت دائودعلیہ السلام کی قضاوت میں بعض ایسی خصوصیات تھیں کہ جن میں سے ایک گواہوں سے بے نیازی تھی۔

یہ روایات کس طرح آئمہ اطہارعلیھم السلام   کی قضاوت کو بھی بیان کرتی ہیں۔

اس روایت توجہ کریں:

'' عن الساباطی قال، قلت لابی عبداللّٰہ :بما تحکمون اذا حکمتم ؟ فقال: بحکم اللّٰہ و حکم داؤد ،فاذا ورد علینا شء لیس عندنا تلقّانا بہ روح القدس؟ '' ([1])

ساباطی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق  علیہ السلام سےعرض کی!  قضاوت کرتے وقت آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟

حضرت امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا!حکم خدا اور حکم دائود سے۔  جب بھی ہم تک کوئی ایسی چیز پہنچے کہ جس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو روح القدس اسے ہم پر القاء کرتے ہیں۔

اس روایت پر بھی غور فرمائیں: 

'' عن جعید الھمدانی (و کان جعید ممن خرج الحسین  بکربلا

قال:فقلت للحسین جعلت فداک: بای شء تحکمون؟ قال :یا جعید نحکم بحکم آل داؤد،فاذا عیینا عن شء تلقّانا بہ روح القدس؟ '' ([2])

جعید ہمدانی (جو امام حسین  علیہ السلام  کے ساتھ کربلا گیا تھا) کہتا ہے کہ میں نے امام حسین  علیہ السلام سے عرض کیا! میں آپ قربان جائوں ،آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟حضرت امام حسین  علیہ السلام نے فرمایا!اے جعید ہم آل دائود کے حکم سے حکم کرتے ہیں،اور جب بھی کسی چیز سے رہ جائیں تو روح القدس اسے ہم پر القاء کردیتے ہیں۔ 

اس روایت کو مرحوم مجلسی نے جعید اور انہوں نے امام سجادعلیہ السلام سے نقل کیا ہے۔([3])

اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا لازم ہے کہ ایسے جوابات اہل مجلس کی ذہنی ظرفیت کے مطابق ہوتے ہیںورنہ روح القدس مکتب اہلبیت کا طفل مکتب ہے۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے:

روح القدس نے ہاتھ نہ لگے ہو ئے ہمارے باغ سے علم سیکھا۔  ([4])

امام صادق علیہ السلام  سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے: 

''عن حمران بن اعین قال:قلت لابی عبداللّہ علیہ السلام انبیاء  انتم؟قال:لا،قلت فقد حدّثنی من لا اتھم انک قلت :انکم انبیائ؟قال من ہو ابو الخطاب؟قال :قلت:نعم قال:کنت اذا اھجر؟قال قلت بما تحکمون؟ قال نحکم بحکم آل داؤد؟ '' ([5])

حمران ابن اعین کہتا ہے کہ :میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا:کیا آپ انبیاء ہیں؟ انہوں نے فرمایا !نہیں۔

میں نے کہا!جس کی طرف کوئی جھوٹ کی نسبت نہیں دیتا ،اس نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ سب  انبیاء ہیں۔

امام  نے فرمایا!کون ہے،کیا وہ ابوالخطاب ہے؟

میں نے کہا ! جی ہاں۔

 

آنحضرت  نے فرمایا!اس بناء پر کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟

میں نے کہا !آپ کس چیز سے حکم کرتے ہیں؟

امام نے فرمایا!ہم حکمِ آل دائود سے فیصلہ کرتے ہیں۔

ایک روایت میں امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں: 

''انہ اتھم زوجتہ بغیرہ فنقر رأسھا و اراد ان یلا عنھا عندی،فقال لھا:بینی وبینک من یحکم بحکم داؤد و آل داؤد و یعرف منطق الطیر و لا یحتاج الی الشھود۔فاخبرتہ ان الذی ظنّ بھا لم یکن کما ظنّ،فانصرفا علی صلح'' ([6])

اس نے اپنی زوجہ پر الزام لگایا  تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ بھی ملوث ہے۔پس وہ اس پرٹوٹ پڑا،وہ اسے میرے سامنے لعان کرنا چاہتا تھا۔اس کی زوجہ نے کہا!میرے اور تمہارے درمیان وہ فیصلہ کرے کہ جو حکم دائود اور آل دائود سے فیصلہ کرتا ہو جو پرندوں کی باتوں کو سمجھتا ہو اور جو کسی شاہد و گواہ کا محتاج نہ ہو۔پس میں نے اس سے کہا!تم اپنی زوجہ کے بارے میں جیسا سوچتے ہو ویسا نہیں ہے۔لہٰذا وہ دونوں صلح کے ساتھ واپس چلے گئے۔

 

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاوت کیلئے آئمہ اطہار  علیہم السلام بھی حضرت دائودعلیہ السلام  کی طرح دلیل و گواہ  کے محتاج نہیں تھے۔اس بناء پر ان تمام روایات سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت دائود  اپنے علم کی بنیاد پر عمل کرتے اور بینہ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے۔کبھی آئمہ اطہار علیہم السلام  بھی ایسی ہی قضاوت کرتے تھے۔

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) بھی اپنے علم کی بنیاد پر قضاوت فرمائیں گے اور انہیں بھی گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

 


[1]- بحارالانوار:  ج٥٢ ص ٥٦

[2] ۔۔ بحارالانوار:  ج٥٢ ص ٥۷

[3]۔بحارالانوار : ج٢٥ ص ٥٦ 

[4]۔بحار الانوار:ج٢٦ص٢٦٥

[5]۔بحارالانوار:ج٢٥ ص٣٢٠

[6]۔بحارالانوار :ج ٤٦ص ٢٥٦

 

 

    ملاحظہ کریں : 7263
    آج کے وزٹر : 71579
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129291573
    تمام وزٹر کی تعداد : 89807741