حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امام مہدی علیہ السلام کے فیصلے

امام مہدی علیہ السلام کے فیصلے

اب ہم امام عصرعلیہ السلام کی قضاوت پر دلالت کرنے والی روایت کو نقل کریں گے کہ قضاوت کے لئے امام عصرعلیہ السلام کودلیل  و گواہوںکی ضرورت نہیں ہوگی۔جس طرح حضرت دائودعلیہ السلام بھی گواہوں  کے محتاج نہیں ہوتے تھے۔اب اس روایت پر توجہ کریں۔

حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا، جس میں اس نے امام عصرعلیہ السلام  کی  کیفیت قضاوت کے بارے میں سوال کیا اور کہتا ہے : 

'' اختلج فی صدری مسألتان و اردتُ الکتاب بھما الی ابی محمدۖ،کتبت اسألہ عن القائم بمَ یقضی؟فجاء الجواب:سألت عن القائم ،اذا قام

یقضی بین الناس بعلمہ کقضاء داؤد،ولا یسأل البیّنة '' ([1])

میرے سینے میں دو مسئلے پیدا ہوئے تو میں نے ارادہ کیا کہ دونوں مسئلے امام حسن عسکری   علیہ السلام کو لکھوں ، پس میں نے انہیں خط لکھا جس میں ان سے سوال کیا۔

قائم آل محمد  علیہ السلام کس چیز سے قضاوت کریں گے؟

 

امام  کی طرف سے جواب آیا ! تم نے قائم علیہ السلام   سے سوال کیا ۔جب وہ قیام کریں گے تو وہ لوگوں کے درمیان اپنے علم سے قضاوت کریں گے ۔ جس طرح دائود علیہ السلام   کی قضاوت کہ جو گواہ طلب نہیں کرتے تھے۔

امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں ابو عبیدہ سے فرمایا:

'' یاابا عبیدہ ؛ انہ اذا قام قائم آل محمد ، حکم بحکم داؤد و سلیمان لایسأل الناس بیّنة '' ([2])

وسائل الشیعہ میں یہ روایت امام محمد باقرعلیہ السلام  سےنقل ہوئی ہے

اے ابا عبیدہ ؛جب بھی قائم آل محمد قیام کریں گے تو وہ حکم دائود و سلیمان سے حکم کریں گے اور لوگوں سے گواہ طلب نہیں کریں گے۔ابان کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام   سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:

'' لا یذھب الدنیا حتی یخرج رجل منّی یحکم بحکومة آل داؤد لا یسأل عن بیّنة،یعطی کل نفس حکمھا '' ([3])

دنیا تب تک تمام نہیں ہوگی،جب تک ہم میں سے ایک مرد حکومت آل دائود کی مانند حکومت  نہ کر ے، وہ گواہ کا سوال نہیں کرے گا بلکہ ہر شخص پر واقعی حکم جاری ہوگا۔

یہ روایت ابان ابن تغلب سے یو ں بھی نقل ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : 

''سیأتی فی مسجد کم ثلاث مأة و ثلاثة عشر رجلا۔یعنی مسجد مکة.یعلم اھل مکة انہ لم یلد(ھم) آبائھم و لا اجدادھم،علیھم السیوف،مکتوب علی کل سیف کلمة تفتح الف کلمة،فیبعث اللّہ تبارک و تعالی ریحاً فتنادی بکل وادِِ: ھذا المہدی یقضی بقضائِ داؤد و سلیمان، لا یرید علیہ بینة '' ([4])

آپ کی مسجد (مسجد مکہ) میں تین سو تیرہ افراد آئیں گے کہ مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ اہل مکہ کے آباء و اجداد کی نسل سے نہیں ہیں۔ان پر کچھ تلواریں ہوں گی کہ ہر تلوار پر کلمہ لکھا ہوگا،جس سے ہزار کلمہ نکلیں گے۔خدا وند تبارک و تعالی کے حکم سے ایسی ہوا چلے گی کہ جو ہر وادی میں نداء دے گی! یہ مہدی  علیہ السلام ہیں ، جو دائودعلیہ السلام   اور سلیمان  علیہ السلام کی قضاوت سے قضاوت کریں گے اور بیّنہ و گواہوں کوطلب نہیں کریں گے۔

 

اسی طرح حریز کہتا ہے کہ میں نے امام صادق  علیہ السلام   سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:

'' لن تذھب الدنیا حتی یخرج رجل منا اھل البیت یحکم بحکم داؤد و آل داؤد ؛لا یسأل الناس بیّنة ''  ([5])

دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی کہ جب تک ہم اہلبیت  علیہم السلام میں سے ایک مرد خروج نہ کرے گا ،وہ حکم دائود و آل دائود سے حکم کرے گا اور وہ لوگوں سے گواہ طلب نہیں کرے گا۔

عبداللہ ابن عجلان نے روایت کی ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) جو نہ صرف مقامِ حکومت   میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوگی ،بلکہ وہ دیگر پنہاں و مخفی امور سے آگاہ ہوں گے وہ ہر قوم کو ان کے دل میں پوشیدہ بات کی خبر دیں گے۔

امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں: 

'' اذا قام قائم آل محمد حکم بین الناس بحکم دائود لا یحتاج الی بیّنة یلھمہ اللّٰہ تعالی فیحکم بعلمہ،و یخبر کلّ قوم بما استبطنوہ،و یعرف ولیّہ من عدوّہ باالتّوسم قال اللّہ سبحانہ'' اِنّ فِیْ ذَلِکَ لآیَةً لِّلْمتَُوَسِّمِیْن،وَِنَّہَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقیْم''  ([6]،[7])

جب قائم آل محمدعلیہ السلام قیام کریں گے تو وہ حکم دائود سے لوگوں کے درمیان  حکومت کریں گے  انہیںگواہوں کی ضرورت نہ  ہوگی۔خداوند کریم ان پر الہام کرے گا اور وہ اپنے علم سے فیصلہ کریں گے ۔ہر قوم نے اپنے دل میں جو کچھ چھپایا ہو وہ اسے اس کی خبر دیں گے۔وہ دوست اور دشمن کو دیکھ کر ہی پہچان جائیں گے۔

 

خدا وند عالم فرماتا ہے:

ان باتوں میں صاحبانِ بصیرت کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں اور یہ بستی ایک مستقل چلنے والے راستہ پر ہے۔

ہم جو دوسری روایت نقل کرنے لگے ہیں کہ جس میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ حضرت مہدی  علیہ السلام  قضاوت دائود سے حکومت کریںگے۔لیکن اس میں گواہوں کی ضرورت ہونے یا نہ ہونے  کا  ذکر نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم   ۖ فرماتے ہیں: 

'' و یخرج اللّہ من صلب الحسن قائمنا اہل البیت علیھم السلام یملا ھا قسطاًوعدلاً کما ملئت جوراً و ظلماً۔لہ ھیبة موسی و حکم داؤد و بھاء عیسی،ثمّ تلا:'' ذُرِّیَّةً بَعْضُہَا مِن بَعْضٍ وَاللّہُ سَمِیْع عَلِیْم '' ([8]،[9])

خداوند عالم حسن علیہ السلام    کے صلب سے ہم اہلبیت علیھم السلام کے قائم کو خارج کرے گا ،جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا،جس طرح وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی۔وہ ہیبت موسیٰ،حکم دائود اور بہاء عیسیٰ کا مالک ہوگا۔پھر رسول اکرم   ۖنے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کو سننے اور جاننے والا ہے۔

 

ہم ایک اور روایت نقل کرتے ہیں۔لیکن اس میں حضرت دائود علیہ السلام   کی کیفیت ِ قضاوت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔لیکن اس میں تصریح ہوئی ہے کہ امام عصر  علیہ السلام  اپنی قضاوت کے دوران گواہ کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔

امام صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں: 

''دمان فی الاسلام حلال من اللّہ عزوجل لا یقضی فیھما احد بحکم اللّہ حتی یبعث اللّہ عزوجل القائم من اہل البیت علیھم السلام،فیحکم فیھما ، بحکم اللّہ عزوجل لا یرید علی ذالک بیّنة ۔ الزانی المحصن یرجمہ و مانع الزکاة یضرب رقبتہ '' ([10])

اسلام میں خدا کی طرف سے دو خون مباح ہیں۔ان میں کوئی ایک بھی حکم الہٰی سے فیصلہ نہیں کرتا،یہاں تک کہ خدا وند عالم ہم اہلبیت علیہم السلام میں قائم کو بھیجے گا ۔وہ ان دو خون میں حکم الہٰی سے فیصلہ کرے گا اور وہ اس کام کے لئے گواہ طلب نہیں کرے گا۔

 

١۔ وہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرے گا۔

٢۔ جو زکات نہ دے وہ اس کی گردن مار دے گا۔

ہم نے جو روایت ذکر کی،وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حضرت  مہدی علیہ السلام قضاوت کے دوران دلیل اور گواہ کے محتاج نہیں ہوںگے اور وہ اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے۔جیساکہ حضرت  قضاوت میں گواہ طلب نہیں کرتے تھے۔

مرحوم علامہ مجلسی بھی اسی عقیدہ کو قبول کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب حضرت قائم  علیہ السلام    ظہور فرمائیں گے تو وہ واقعیت کے مطابق اپنے علم کے ذریعے فیصلہ کریں گے نہ کہ گواہوں کے ذریعہ۔لیکن دوسرے آئمہ اطہار   علیہم السلام ظاہر سے فیصلہ کرتے تھے اور کبھی وہ اس کے باطن کو کسی وسیلہ کے ذریعے بیان کرتے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام     نے بہت سے موارد میں یہ کام انجام دیا ہے۔

شیخ مفید  کتاب ''المسائل''میںفرماتے ہیں کہ امام  اپنے علم سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔جس طرح وہ گواہوں کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں۔لیکن جب انہیں معلوم ہو کہ گواہی واقعیت و حقیقت کے خلاف ہے تو وہ گواہ کی گواہی کے باطل ہونے کا حکم کرتے ہیں اور خدا وند ِ متعال کے دیئے ہوئے علم کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں۔([11])

 


[1]۔ بحارالانوار :ج ٥ص٢٦٤،ج٥٢ص٣٢٠،ج٩٥ص٣١،مستدرک الوسائل :ج١٧ ص٣٦٤  

[2] ۔ بحارالانوار :ج٢٣ ص ٨٦،ج٢٦ ص١٧٧،ج٥٢ص٣٢٠،مستدرک الوسائل :ج١٧ ص ٣٦٤ 

[3]۔ بحارالانوار : ج٥٢ ص ٣٢٠،وسائل الشیعہ :ج١٨ ص ١٦٨،مستدرک الوسائل :ج١٧ ص ٣٦٤   

[4]۔ بحارالانوار: ج٥٢ ص٢٨٦  اور ٣٦٩

[5]۔ بحارالانوار:  ج٥٢ ص ٣١٩

[6]۔ سورہ حجر: آیت:٧٥، ٧٦

[7]۔ بحارالانوار :ج٥٢ ص ٣٣٩

[8]۔ سورہ آل عمران،آیت: ٣٤

[9]۔ بحارالانوار :ج٣٦ ص ٣١٣

[10]۔ کمال الدین: ٦٧١

[11]۔ بحارالانوار :ج ٢٦ص١٧٧

 

    ملاحظہ کریں : 7323
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 86953
    تمام وزٹر کی تعداد : 129322309
    تمام وزٹر کی تعداد : 89838488