حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بحث روائی

بحث روائی

بعض معتقد ہیں کہ حضرت دائودعلیہ السلام کا  بینہ و شاہد کے بغیر قضاوت کرنا ،صرف چندموارد میں واقع ہوا ہے۔ان روایات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود  علیہ السلام کا حقیقت کے مطابق گواہوں  کے بغیر قضاوت کرنا صرف ایک مورد میں منحصر نہیں ہے۔کیونکہ لوگوں میں اختلاف کا باعث بننے والی ایک چیز نہیں تھی کہ جس میں انہوں نے حضرت دائود علیہ السلام کی طرف رجوع کیا۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے ان روایات پرغور فرمائیں۔

امام صادق  علیہ السلام سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

حضرت دائو د  علیہ السلام   نے خدا سے عرض کیا ۔خدایا!میرے نزدیک حق کو اس طرح سے نمایاں و آشکار کردے ،جیسے وہ تمہارے سامنے آشکار ہے تاکہ میں اس کے مطابق قضاوت کروں۔

خدا وندِ کریم نے ان پر وحی کی اور فرمایا کہ تم میں اس کام کی طاقت نہیں حضرت دائود علیہ السلام    نے پھر اس بارے میں اصرار کیا۔ایک مرد ان کے پاس مدد مانگنے آیا کہ جو دوسرے شخص کی شکایت کررہا تھا کہ اس شخص نے میرا مال لے لیا ہے۔

خدا وند نے حضرت دائود  علیہ السلام پر وحی کی کہ جو شخص مدد مانگنے آیا ہے ،اس نے دوسرے شخص کے باپ کو قتل کرکے اس کا مال لے لیا ہے۔

حضرت دائود  علیہ السلام نے مدد مانگنے ولاے شخص کو قتل کرنے اور اس کا مال دوسرے شخص کو دینے کا حکم دیا لوگ آپس میں اس حیرت انگیز واقعہ پر چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ حضرت دائود علیہ السلام کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے خدا سے چاہا کہ وہ ان سے امور کے حقائق کا علم  واپس لے لے۔خداوند کریم نے ایسا ہی کیا اور پھر وحی کی!

لوگوں میں بیّنہ اور گواہوں کے ذریعہ حکم کرو اور اس کے علاوہ انہیں میرے نام کی قسم کھانے کو کہو۔([1])

اس روایت کو علامہ مجلسی  محمد بن یحیٰی سے، اس نے احمدبن محمد سے،اس نے حسین بن سعید سے، اس نے فضالہ ابن ایوب سے ،اس نے ابان بن عثمان سے،اور ابان نے اس سے روایت کی ہے کہ جس نے اسے خبر دی ہے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابان بن عثمان نے روایت کی سند کو نا مکمل نقل کیا ہے۔علاوہ از این وہ خود بھی بعض بزرگان جیسے علامہ حلی کے نزدیک موردِ قبول نہیں ہے۔

اس روایت میں موردِ اختلاف مال و ثروت بیان ہو اہے۔دوسری روایت میں جس شخص کے بارے میں شکایت کی جاتی ہے،وہ شکایت کرنے والے کے ادّعا کو قبول کرتا ہے۔شکایت کرنے والا معتقد ہوتا ہے کہ ایک جو ان،اس کی اجازت کے بغیر باغ میں داخل ہوا اور اس نے انگور کے درختوں کو خراب کیا۔جوان نے بھی یہ شکایت قبول کی ۔حضرت دائود  علیہ السلام    نے حکمِ واقع کی بناء پر جوان کے حق میں حکم کیا اور باغ جوان کی تحویل دے دیا۔

ایک دیگر روایت ہے کہ جس میں تصریح ہوئی ہے کہ حضرت دائودعلیہ السلام نے ایک بار بیّنہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقت کی بناء پر قضاوت کی۔ اختلاف ایک گائے کی مالکیت کے بارے میں تھا کہ طرفین میں سے ہر ایک نے اپنے لئے گواہ پیش کئے تھے۔

 


[1]۔ بحارالانوار :ج٤ص ١٠،وسائل الشیعہ: ج١٨ ص ١٦٧

 

    ملاحظہ کریں : 7153
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 77608
    تمام وزٹر کی تعداد : 129303619
    تمام وزٹر کی تعداد : 89819798