حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
روحانی عبادات

روحانی عبادات

عبادات کی قسموں میں سے ایک روحانی عبادت ہے ۔یعنی انسان تفکر و تدبّر اور اپنے دل کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا سے نزدیک ہو سکتاہے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام ایک خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں کہ جس میں آپ نے مور کی خلقت کے اسرار و عجائب بیان فرمائے ہیں:

''جَعَلْنَا اللّٰہُ وَ اِیّٰاکُمْ مَمَّنْ یَسْعٰی بِقَلْبِہِ اِلٰی مَنٰازِلِ الْاَبْرٰارِ بِرَحْمَتِہِ''([1])

خدا وند ہمیں اور تمہیں ان میں سے قرار دے کہ جو اپنے دل کے ذریعہ  نیک لوگوں کے منازل تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام علیہ السلام کا یہ کلام اس بات کی دلیل ہے کہ انسان روحانی عبادتوں کے ذریعے (جیسے خدا کی آیات اور نشانیوںمیں تفکر کرنا)منزل مقصود تک پہنچ سکتاہے اور نیک و صالح افراد کے زمرہ میں آسکتاہے۔اسی لئے بعض روایات میں خدا کے امر میں تفکر و تدبّر کو عبادت قرار دیا گیاہے۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا  علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''لَیْسَتِ الْعِبٰادَةُ کَثْرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصَّوْمِ ،اِنَّمَا الْعِبٰادَةُ اَلتَّفَکُّرُ فِْ اَمْرِ اللّٰہِ''([2]) 

عبادت ،زیادہ نمازوں اور روزوںمیں نہیں ہے ،بیشک خدا کے امر میں زیادہ تفکر اور غور و فکر کرنا عبادت  وبندگی ہے۔

اسی لئے حضرت ابو ذر علیہ السلام نے اکثر اپنی عبادت ،تفکر کو ہی قرار دیا اور آپ اسی ذریعے سے ہی حضرت سلمان علیہ السلام کے ہم ردیف ہو گئے حلانکہ آپ حضرت سلمان علیہ السلام کی بنسبت کم سن تھے اور اس میں سے بھی آپ نے ایک مدت تک اپنی زندگی زمان جاہلیت میں بسر کی۔

پس عبادت و بندگی صرف جسمانی عبادی امور میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ روحانی عبادات اور روح کی بھی عبادات ہیں۔جس طرح نماز اور دوسرے عبادی امور میں خشوع و خضوع ،توجہ اور خلوص ان عبادات کے لئے جسمی اعمال کی روح شمار ہوتے ہیں۔

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ انسان کو تمام عبادات میں ان کے روحانی پہلو کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے  اور اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔لیکن افسوس کہ ایسے افراد بھی ہیں کہ جو نہ صرف عبادات کے روحانی پہلو کا خیال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ عبادات کے جسمی اعمال کو بجالانے میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور انہیں مکمل طور پر انجام نہیں دیتے۔

حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی کہتے ہیں:

''سَأَلَ اَبُو بَصِیْر الصّادِقَ علیہ السلام وَ اَنَا جَالِس عَنْدَہُ عَنِ الْحُوْرِ الْعَیْنِ،فَقٰالَ لَہُ:جُعِلْتُ فَدٰاکَ اَخَلْق مِنْ خَلْقِ الدُّنْیٰا أَوْ(خَلْق مِنْ)خَلْقِ الْجَنَّةِ؟ فَقٰالَ لَہُ:مَا أَنْتَ وَ ذَاکَ ؟عَلَیْکَ بِالصَّلاةِ ،فَاِنَّّ آخِرَ مَا اَوْصٰی بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ حَثَّ عَلَیْہِ ،الصَّلاٰةُ۔ اِیّٰاکُمْ اَنْ یَسْتَخِفَّ اَحَدُکُمْ بِصَلاٰتِہِ فَلاٰ ھُوَ اِذٰا کٰانَ شٰابّاً أَتَمَّھٰا،وَلاٰ ھُوَ اِذٰا کٰانَ شَیْخًا قَوَِ عَلَیْھٰا ،وَمٰا اَشَدَّ مِنْ سِرْقَةِ الصَّلاٰةِ...۔''([3])

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ۔ابو بصیر نے آپ سے حور العین کے بارے میں پوچھا اور کہا: میری جان آپ پر قربان کیا یہ اس دنیاکی مخلوق ہیں یا یہ جنتی مخلوق ہیں ؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:تمہیں ان امور سے کیا مطلب ہے؟

تم پر لازم ہے کہ تم نماز کا خیال رکھو کیونکہ رسول اکرمۖ نے جس چیز کے بارے میں سب سے آخری وصیت کی اور لوگوں کو جس چیز کی طرف رغبت دلائی ،وہ نماز ہے ۔

نماز کو خفیف شمار کرنے سے پرہیز کرو،کیونکہ نہ ہی تو تم اسے جوانی میں مکمل طور پر انجام دیتے ہو اور نہ ہی بڑھاپے میں اسے مکمل طور پر انجام دینے پر قادر رہو ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی نماز کو چوری کرے۔

اس بناء پر ہمیں ظاہری ارکان اور عبادات کے جسمانی اعمال کی بھی رعایت کرنی چاہئے اور اسی طرح عبادات کے باطن پر بھی توجہ کرنی چاہئے،کیونکہ جو چیز اہم ہے ،وہ روح عبادت ہے۔

ُٰپیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: 

''رَکْعَتٰانِ خَفِیْفَتٰانِ فِ تَفَکُّرٍ خَیْرمَنْ قِیٰامِ لَیْلَةٍ''([4])

تفکر کے ساتھ پڑھی جانے والی دو رکعت خفیف نماز ،پوری رات عبادت میں کھڑے رہنے سے بہتر ہے۔

 

ان فرامین کی بناء پر عبادات میں اصل، تفکر و توجہ ہے کہ جو عبادت کی روح اور جان کی مانند ہے ۔ مثال کے طور پر آپ سورۂ حمد میں تفکر و تدبّر اور غور و فکر سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور آپ  کے دشمنوں سے برأت کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور یوں آپ دن میں کم از کم دس مرتبہ  اپنے اس اعتقادی اصول کو اپنے ذہن میں تصور کرکے زبان پر لا سکتے ہیں۔

عبادت کا یہ نتیجہ صرف تفکر و تدبّر کے ساتھ ہی ممکن ہے کیونکہ تفکر عبادت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔اسی لئے پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:

"لاٰ عِبٰادَةَ کَالتَّفَکُّرِ''([5])

تفکّر کے مانند کوئی عبادت نہیں ہے۔

 


[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:١٦٥

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۲۲،اصول کافی:ج ٢ص۵۵

[3]۔ بحار الانوار:ج۸۴ ص۲۳٦،قرب الاسناد:٢٧

[4] ۔ بحار الانوار:ج۸۴ ص۲۴۰، ثواب الاعمال:٤٠

[5]۔ بحار الانوار: ج۷۷ ص۷۰، محاسن:١٦

 

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2053
    آج کے وزٹر : 39869
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131744059
    تمام وزٹر کی تعداد : 91376395