حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یقین اور اس کے حیرت انگیز آثار

یقین اور اس کے حیرت انگیز آثار

چونکہ یقین بنیادی حیثیت اور اہم آثار کا مالک ہے لہذااس کے بارے میں بحث کو جاری رکھتے ہوئے اس کے متعلق ایک مختصر مقدمہ بیان کرتے ہیں:

عرفان اور معنویت کی راہ میں کوشش کرنے والے اکثر افراد سب سے پہلے اپنی راہ میں رکاوٹ کو پہچاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ان کا راستہ بند کر رکھا ہے اور رکود کی صورت پیدا کردی ہے  اور جو ان کی معنوی ترقی و پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ بعض اوقات روحانی تنزلی اور پسماندگی کا بھی باعث بنتے ہیں۔

تنزل اور رکود کا باعث بننے والے وہ کون سے عوامل ہیں ؟انہیں کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟ سب سے زیادہ اہم یہ کہ انہیں کس طرح ختم اور نابود کیا جاسکتا ہے ؟

یہ وہ اہم سوالات ہیں جو معنوی امور کے متلاشی بہت سے افراد کے لئے پیش آتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کس طرح اپنی مشکل حل کریں؟کس طرح اپنے سوالات کا جواب حاصل کریں ؟

 ان سوالات کے ساتھ کچھ دوسرے بنیادی سوال بھی پیش آتے ہیں،جن کا جواب حاصل کرنے کے بعد پہلے والی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں اور وہ یہ کہ کیا عرفان کی راہ طے کرنے او راس راستہ کو پہچاننے کے لئے کہ جو عالم معنی تک پہنچا دے موانع کی شناخت ضروری ہے ؟

کیاا نسان کی ترقی میں جمود و توقف اور بعض اوقات تنزل کا سبب بننے والے امور کو پہچاننا ضروری ہے تا کہ انہیں پہچاننے کے بعد انہیں برطرف کرنے کی کوشش کی جائے یاپھر کوئی ایسا راستہ ہے کہ جس کے طے کرنے کے بعد ساری رکاوٹیں ختم ہوجائیں اور منزل مقصود پر پہنچنا ممکن ہو جائے ؟ کیا کوئی ایسا ذریعہ ہے جو ہر طرح کے ز ہر کے اثر کو ختم کردے ؟

اگرکوئی ایسی چیزہو جوہر طرح کے دردکا علاج ہواور ہر طرح کے زہرکے اثر کونابود کردے تو ہمیں ہر صورت میں اسے حاصل کرنے کی کوشس کرنی چاہئے اورپھراس زہرکو پہچاننے کی ضرورت نہیں ہے جس میں انسان گرفتار ہے ۔

بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ ایسے بھی راستے ہیں جن کی شناخت کے بعد سوسالہ راہ کو ایک ہی شب میںطے کیاجاسکتاہے اورایسے عوامل ہیں کہ جن کے ہونے کے بعد رکاوٹوں کی شناخت کے بغیر انہیں راستے سے ہٹاکر منزل مقصود تک پہنچا جا سکتا ہے ۔

مرحوم محدث نوری یقین کو انہیں عوامل میں سے قرار دیتے ہیں اور یقین کی تأثیر اس قدر زیادہ ہے کہ رکاوٹوں کے جزئیات کوپہنچانے بغیران کے آثار کو نابود کرکے انسان کی ترقی کے اسباب فراہم کئے جاسکتے ہیں ۔

آپ فرماتے ہیں:جو اپنے دل کو بری صفات سے پاک کرنا ا و ر پسندیدہ صفات سے آراستہ کرنا چاہتاہو اسے چاہئے کہ قلبی بیماریوں کی جزئیات و علاج اور اس کی ضد کی شناخت کی زحمت برداشت کرنے کی بجائے نور یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔

ایسایقین جو دل میں جگہ بنالے وہ خود بخود دل کوتمام آلودگیوں سے پاک کر دے گا اور تمام پسندیدہ صفات کے نور سے منور کردے گا اس لئے کہ یقین کے بغیرقلبی و روحانی امراض کو دور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اپنے اندر پسندیدہ خصلت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روایات میں ان تمام پسندیدہ عادتوں کو یقین کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔[1]

اس کے بعد مرحوم محدث نوری فرماتے ہیں: جوئے شیر لانا،یقین کی منزل پیدا کرنے سے کہیں آسان ہے لیکن جو اس کا مالک ہو اس کا دل ایسا نورانی ہو جاتا ہے کہ رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں یا کم سے کم وہ  بے اثر ہوجاتی ہیں ۔

ہم یہاں اسی پر ہی اکتفا کرتے ہیں اس سے زیادہ تفصیل کے طالب کتاب ’’ کامیابی کے اسرار‘‘کی پہلی جلدکے باب ’’یقین‘‘ کی طرف رجوع کریں ۔

 


[1] ۔ دار السلام : ج ۳ ، ص ۱۵۰

    ملاحظہ کریں : 199
    آج کے وزٹر : 483
    کل کے وزٹر : 84782
    تمام وزٹر کی تعداد : 134414454
    تمام وزٹر کی تعداد : 92963015