حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے دعا ضروری ہے

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے دعا ضروری ہے

سب سے ضروری اور اہم ترین دعا کہ غیبت کے زمانے کے لوگوں کو یہ دعا ضرور کرنی چاہئے اور یہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے دعا ہے کیونکہ آنحضرت ہمارے سید وسردار اور ہمارے زمانے کے مالک ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صاحب امر،ولی اور تمام کائنات کے سر پرست ہیں۔

لیکن کیا آپ سے غافل ہوا جاسکتا ہے؟ جب کہ آنحضرت ہمارے امام ہیں اور امام سے غفلت یعنی اصول دین میں سے ایک اصل سے غفلت ہے ۔

اپنے لئے اوراپنے اقرباء وا حباب کے لئے دعا کرنے سے پہلے  حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے دعاکرناضروری ہے۔

مرحوم سید بن طاؤس کتاب ’’جمال الاسبوع‘‘ میں لکھتے ہیں :

ہمارے ہادی و رہنماعلیہم السلام امام عصر عجل اللہ تعالیٰ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے دعا کے متعلق خاص اہمیت کے قائل تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت کے لئے دعا اہل اسلام و ایمان کے اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ ہم نے ایک روایت نقل کی کہ امام صادق علیہ السلام نماز ظہر کی تعقیب میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے حق میں مکمل دعاکیا کرتے تھے اور پھر اپنے لئے دعاکرتے تھے۔

ہم نے اعمال شب و روز کے باب میں نماز عصر کی تعقیبات  میں ایک حصہ حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے لئے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی دعا سے مخصوص کیا ہے۔

اگر کوئی چاہے کہ اس عمل کی دلیل بیان کرے تویہ واضح ہے کہ جو اسلام میں ان دو بزرگ ہستیوں کے مقام ومرتبہ کو پہچان لے تو ان دونوں ہستیوں کا یہی کام بہت خوبصورت دلیل ہو گی ۔[1]

نیز سید بن طاؤس  برادران دینی  کے لئے دعا کے فضائل بیان کرنے کے بعدلکھتے ہیں:

اگر دینی بھائیوں کے لئے دعا اس قدر ثواب وفضیلت رکھتی ہے تو تمہارے اس سلطان عالم کے لئے دعا کی فضیلت کیا ہو گی جو تمہاری خلقت کا باعث ہے ؟نیز یہ عقیدہ کہ اگر آنحضرت نہ ہوتے تو پروردگار عالم تم کو خلق نہ کرتا  ان کا مرتبہ بہت بلند اور عالی ہے۔

اگریہ امام نہ ہوتے تو نہ صرف ان کے زمانے میں بلکہ تمہارے زمانے میں بھی کسی مکلف کا وجود نہ ہوتا۔یہ ا س امام کا مقدس وجود ہے جو تمہارے اور دوسروں کے لئے لطف پروردگارکا سبب ہے اور  بشریت کی تمام خوبیاں اسی کے طفیل ہیں ۔

پرہیز کریں !پرہیز کریں!کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے فرد کو دوستی و دعا میں آنحضرت پرمقدم کردیں۔ اس عظیم الشأن مولا کے حق میں دعا کرنے کے لئے اپنے دل و زبان کو ایک کرلیں۔

ہم نے جو کچھ عرض کیا اس سے آپ کہیں یہ خیال نہ کریں کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف ہماری دعا کے محتاج ہیں۔ اگر کسی کا ایسا عقیدہ ہو تو وہ اپنے عقیدے اور دوستی میں بیمار ہے بلکہ ہم نے جو کچھ عرض کیا اس کا یہ مقصد تھا کہ ہم آپ پر  آنحضرت کے عظیم حق اور بزرگ احسان کو بیان کریں تا کہ آپ اسے پہچان سکیں ۔

یہ ظاہر سی بات ہے کہ اگر آپ اپنے اور اپنے عزیز و اقربا کے لئے دعا کرنے سے پہلے آنحضرت کے لئے دعا کریں تو پروردگارعالم باب اجابت کو آپ پر جلدی کھولے گا اس لئے کہ اے بندہ خدا! تو نے باب اجابت دعا کو اپنے مظالم سے خود ہی بند کر دیا ہے ۔

لہٰذا اگر مولا کے لئے دعا کے ذریعہ خداوندمتعال اور زندوں اور مردوں کے مالک و مختار کے حضور میں جائیں اور دعا کریں تو امید ہے کہ آپ کے لئے اس بزرگ ہستی کی وجہ سے باب اجابت کھل جائے تا کہ آپ اور جن کے لئے آپ نے دعا کی ہے، فضل الٰہی ان سب کے شامل حال ہو سکے اور اس کی  رحمت، کرم اور عنایت ہماری طرف متوجہ ہو جائے کیونکہ آپ نے اپنی دعا میں اس کی رسی کو تھام رکھا ہے۔

ممکن ہے آپ یہ کہیں:میں ایسے افراد کو جانتا ہوں جو میرے اساتذہ میں سے ہیں مگر وہ بھی یہ عمل انجام نہیں دیتے لیکن میں جانتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مولا صلوات اللہ علیہ سے غفلت برتی ہے  اور ان کے متعلق کوتاہی اور سستی کی ہے ۔

اس اشکال کے جواب میں آپ سے عرض کرتا ہوکہ میں نے آپ سے جو کام کہاہے ، آپ اسے انجام دیں کیونکہ یہ واضح و روشن حقیقت ہے کہ جو ہمارےمولا کے متعلق سہل انگاری کرےاورسستی دکھائے تو خدا کی قسم وہ ایسے شبہ میں مبتلا ہوگا  جواس کی رسوائی کا باعث بنے گا ۔

پھر سید بن طاؤس فرماتے ہیں:کیا آپ سوچ رہے ہیں کہ اس بارے میں ائمہ اطہار علیہم السلام کی کیا رائے ہے ؟کیا انہوں نے آپ کی طرح کبھی بھی آنحضرت کے لئے دعا کی اہمیت سے لاپرواہی کی اور اسے سبک شمار کیا؟

اس بناء پر واجب نمازوں میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور ان لوگوں کے لئے زیادہ دعا کرنے سے گریز نہ کریں کہ جن کے لئے دعا کرنا جائز ہے۔

میں اپنی سند سے محمد بن علی بن محبوب سے روایت نقل کرتا ہوں جو اپنے زمانہ میں اہل قم کے عالم دین تھے،انہوں نے اپنی کتاب’’المصنف‘‘میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

کلّما کلّمت اللّٰہ تعا لیٰ فی صلاة الفریضة فلیس بکلام۔

واجب نماز میں خدا سے جو کلام کرے،و ہ نما زکو باطل کرنے والا کلام نہیں ہے۔

نیزسید  فرماتے ہیں: جو ہم نے بیان کیا اس کی بنا پراب ہمارے پاس آنحضرت کے لئے دعا نہ کرنے کا کوئی عذرباقی نہیں بچتا ۔[2]

کتاب’’ مکیال المکارم‘‘ میں ذکر ہوا ہے: آیات قرآن اوروایات کی بنیاد پر دعا اہم ترین عبادت میں سے ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں ہے کہ انسان کی سب سے اہم اور باعظمت دعا اس کے لئے ہے کہ پروردگار عالم نے جس کے حق کواور جس کے لئے دعا کرنے کوسب پر واجب قرار دیا ہے اور اسی کے وجود کی برکت سے تمام مخلوقات تک نعمت الٰہی پہنچ رہی ہے ۔

نیز اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ خدا کے ساتھ مشغول رہنے سے مراد  اس کی عبادت میں مصروف رہنا ہے پس امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے لئے ہمیشہ دعا کرناخدا کی عبادت اور اطاعت کی توفیق کا باعث بنے گا اور خدا اسے اپنے اولیاء میں قرار دے گا۔

 اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مولا حضرت حجت بن الحسن العسکری ارواحنا فداہ کے لئے دعا میں پابندی کرنا اور آپ کے ظہور میں تعجیل کے لئے پروردگار عالم سے دعا کرنااور  اس عظیم امام کے غم و اندوہ کو برطرف کرکے  نشاط پیدا کرناخدا کی محبت تک رسائی اور عبادت الٰہی کی توفیق کے حصول کا باعث ہے۔

پس مومنوں پر لازم ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ اس اہم ترین فریضہ کی طرف خاص توجہ دیں۔

جو واقعہ ہماری گفتگو کی تائیدکرتاہے وہ یہ ہے کہ میرے ایک عزیز اور برادر ایمانی جناب مرزا محمد باقر اصفہانی کہتے ہیں:

میں نے انہی چند راتوں میں عالم مکاشفہ(خواب اور بیداری کی درمیانی حالت)  میں حجت خدا اور اپنے آقا و مولا  حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ نے فرمایا:

 اپنی تقریروں میں لوگوں سے کہواور انہیںحکم دوکہ توبہ کریں اورامام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کریں اور یہ دعا نماز میت کی طرح واجب کفائی نہیں ہے کہ جو کچھ لوگوں کے انجام دینے سے دوسروں سے ساقط ہوجائے بلکہ یہ پنجگانہ نماز کی طرح ہے کہ جو ہر بالغ و عاقل پر واجب ہے...۔[3]

مذکورہ مطالب سے واضح ہو گیا کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے دعا کرنا ضروری ہے۔

 


[1] ۔ جمال الاسبوع : ۳۰۷

[2] ۔ فلاح السائل : ۴۴

[3] ۔ مکیال المکارم  : ج ۱ ، ص ۴۳۸

 

    ملاحظہ کریں : 202
    آج کے وزٹر : 3717
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131672284
    تمام وزٹر کی تعداد : 91340243