امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
یقین کو متزلزل کرنے والے امور

یقین کو متزلزل کرنے والے امور

١۔ شک و شبہ

جو انسان شک وشبہ  میں مبتلا ہو وہ نہ صرف اپنی معنوی اہمیت کو کھو دیتا ہے،بلکہ جب تک وہ شک و شبہہ اور وسواس کا اسیر رہے تب تک وہ متوقف اور جمود کی حالت میں رہے گا۔وہ کبھی بھی معنوی ترقی نہیں کرسکتا۔وہ اپنی نجات کے لئے اپنے صفحہ دل سے شک و شبہ کو ہمیشہ کے لئے نکال دے۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' اُلفُوا عَن نُفُوسِکُم الشُّکُوکَ '' ([1])

اپنے نفوس سے شکوک کو برطرف کریں۔

اس بناء پر روحانی و معنوی ارزشوں کو حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے اپنے دل سے شک اور وسوسہ کو نکال دیں اور ایمان و یقین کامل پیدا کرنے کے بعد اپنے عقائد کے استحکام کی کوشش کریں۔ایسانہ کرنے کی صورت میں صرف آپ کے اعتقادات ہی متزلزل نہیں ہوںگے بلکہ آخری زمانے کے آشوب میں بھی شریک ہوں گے۔ کیونکہ شک وشبہہ ایک طرف سے آشوب، پریشانیاں  اور آزمایشات الہٰی کا سامان فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف سے شک وشبہہمیں گرفتار افراد اس امتحان میں بھی ناکام ہوتے ہیں۔

خاندان عصمت و طہارت کے فرامین و دستورات میں ہمیں اپنے دل سے شک و شبہہ کو برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یہ صرف آزمائشات الہٰی کو قبول کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ فتنہ اور آشوب کے اسباب کو ختم کرنے کے لئے بھی شک و شبہہ کو بر طرف کرنے کا امر کیا گیا ہے۔ کیونکہ شک وشبہہ اور بے مورد گمان فتنہ و فساد اور امشکلات کو ایجاد کرنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

امام سجاد (ع) مناجات مطیعین میں خدا سے عرض کرتے ہیں:

'' وَاَثبِت الحَقَّ فِی سَرَائِرِنَا فَاِنَّ الشُّکُوکَ وَ الظُّنُونَ لَوَاقِعُ الفِتَن '' ([2])

پروردگارا ! میرے باطن میں حق کو ثابت فرما، کیونکہ شکوک و ظنون فتنہ ایجاد کرتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ صدر اسلام سے آج تک جن فساد و فتنہ نے مسلمان معاشرے کو گمراہ کیا ،ان میں سے اکثر ایسے افراد تھے کہ جو صراط مستقیم سے متعلق اپنے یقین کو کھوکر شک و شبہہ میں گرفتار ہوچکے تھے۔

حقیقت میں شک و شبہ گمراہ کر نے والے فتنوں اور بلائوں میں گرفتار ہونے کا وسیلہ ہے۔ شک وشبہ  سے انسان فتنوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کے علاوہ شکّاک اور متزلزل افراد کے لئے بھی  مشکلات اور فتنوں کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

 


[1]۔ بحارالانوار: ج۵۱ ص۱۴۷

[2]۔ بحارالانوار: ج۹۴ ص۱۴۷

 

 

    بازدید : 7332
    بازديد امروز : 26147
    بازديد ديروز : 109951
    بازديد کل : 132108880
    بازديد کل : 91585224