حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

کعب الأحبار اور اسرائیلات

کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف

کتاب ’’ اسرائیلیات  و  تاٴثیر  آن  ‘‘  میں  لکھتے  ہیں:

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے واقعات اور انحرافی تحریکوں کا سامنا کیا جن میں  آپ کو مسلمان نما اہل کتاب اور ان کے قصہ کہانیوں کا سامنا کرنا تھا کہ جن میں سے ہر ایک نے اپنے حصہ کے مطابق دین کے چہرے کو غبار آلود کیا۔

آنحضرت  بھی مختلف راستوں سے ان کے ہاتھ قلم کرتے اور ان کا مقابلہ کرتے۔

ہم یہاں اسرائیلیات اور انہیں پھیلانے والوں کے خلاف  حضرت علی علیہ السلام  کے مؤقف کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:

١۔نقل کیا گیا ہے:عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ایک دن خلیفہ کے سامنے ایک مجلس تشکیل دی گئی جس میں حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے،اور حاضرین میں سے ایک کعب بھی تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا:اے کعب!کیا تمہیں پوری تورات حفظ ہے؟

کعب نے جواب دیا:نہیں؛لیکن مجھے اس کا  کافی حصہ حفظ ہے!

کسی شخص نے خلیفہ سے کہا:یا امیرالمؤمنین!اس سے پوچھیں کہ خدا اپنے عرش کو خلق کرنے سے پہلے کہاں تھا؟اور پانی کو کس سے خلق کیا کہ جس پر بعد میں اپنا عرش بنایا؟

عمر نے کہا:اے کعب !کیا تمہیں ان کا جواب معلوم ہے؟

کعب نے جواب دیا:جی ہاں !یا امیر المؤمنین!حقیقت میں مجھے حکیم(توریت)ملا کہ خداوند کریم عرش کی خلقت سے پہلے قدیم و ازلی تھا اور بیت المقدس کی چٹان پر تھا اور یہ چٹان ہوا پر بنی ہوئی تھی اور جب خدا نے عرش کو بنانے کا ارادہ کیا تو اس پراپنالعاب دہن پھینکا ، جس سے گہرے سمندر اور ان کی موجیں خلق ہوگئیں۔اس موقع پر خدا نے بیت المقدس کی چٹان کے کچھ حصہ پر اپنا عرش خلق کر لیا اور اس پر بیٹھ گیااور چٹان کے بقیہ حصہ پر بیت المقدس کو خلق کیا۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس وقت اپنے لباس کو ہلارہے تھے اورآپ کی زبان پر خدا کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرنے والے کلمات جاری تھے ،جیسے:’’جل الخالق یا جلّ اللّٰہ یا اللّٰہ اکبر‘‘۔ آپ اسی حال میں آپ کھڑے ہوئے اور اعتراض کے طور پر مجلس سے چلے گئے![1]

جب خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو امام  کو قسم دی کہ اپنی جگہ واپس آ جائیں اور مورد بحث مسئلہ میں  ا پنا نظریہ بیان کریں۔

امام اپنی جگہ واپس آگئے اور کعب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

تمہارے اصحاب غلط ہیں اور انہوں نے خدا کی کتابوں میں تحریف کی ہے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے ۔

اے کعب !وای ہو تم پر!اگر ایسا ہو کہ چٹان ا ور ہوا بھی خدا کے ساتھ ہوں تو اس صورت میں وہ بھی خدا کی طرح قدیم و ازلی ہو جائیں گے ، پس اس صورت میں  پھر تین قدیم موجودات ہوں گی۔

اس کے علاوہ خداوند متعال اس سے بے نیاز ہے کہ اس کا کوئی مکان ہو کہ جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور خداو ویسا نہیں ہے ،  جیسے ملحد کہتے ہیں  اور جاہل خیال کرتے ہیں۔

وای ہو تم پر اے کعب!تمہارے قول کے مطابق جس لعاب دہن سے یہ عظیم دریا و سمند وجود میں آئیں وہ بیت المقدس کی چٹان پربیٹھنے سے بے نیاز ہے اور ....۔[2]

٢۔امیر  المؤمنین علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے  کعب الأحبار کے بارے میں فرما یا:

وہ جھوٹا و کذّاب شخص ہے۔[3]

یہی وجہ تھی کہ کعب ،حضرت علی علیہ السلام سے روگرداں  ہو گیا تھا۔[4]

٣۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کعب کے شاگرد یعنی ابوہریرہ کو بھی جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا شخص کہا ہے اور فرمایا ہے:

انّ أکذب النّاس علی رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) لأبی ھریرة الدُّوس۔[5]

بیشک جس نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سب سے زیادہ جھوٹی باتیں منسوب کی دی،وہ ابوہریرہ دوسی ہے۔[6]

اس واقعہ سے چند اہم نکات اخذ کئے جا سکتے ہیں:

١۔اسرائیلیات کو پھیلانے میں خلفاء کا بہت اہم کردار تھا، اس کے علاوہ اسرائیلیات کی جھوٹی ثقافت کو پھیلانے میں  ان کی دینی اورتاریخی واقعات سے جہالت و نادانی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔

اس واقعہ میں کعب الأحبارنے جھوٹ بولااوراس نے دین میں خرافات پیدا کرنے کے لئے اور بیت المقدس کی عظمت اور اس کے نتیجہ میں یہودیت کو عظیم مذہب  دکھانے کے لئے کچھ جھوٹے مطالب بیان کئے۔

٢۔اس واقعہ میں نہ صرف عمر نے ہی  نہیں بلکہ اس کے کسی بھی طرفدار اور پیروکار نے کعب پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ عمر اور اس کے پیروکارکعب الأحبارکی کہی ہوئی باتوں سے جاہل تھے ،یایہ کہ وہ اس طرح کی خرافات اور اسرائیلیات کو پھیلانے کی حمایت اور پشت پناہی کر رہے تھے۔ ان میں سے دونوں صورتوں میں ایسا شخص کس طرح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا خلیفہ و جانشین ہو سکتا ہے؟!

٣۔کعب الأحبار کے قول کے مطابق خدا بیت المقدس کی چٹان پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنا لعاب دہن پھینکا اور...۔یہ عاقل اور متفکر افراد کو منحرف کے لئے بہت ہی مؤثر چال تھی کیونکہ کوئی بھی عقل مند اور متفکر انسان یہ بات تسلیم نہیں کر سکتا کہ خدا بیت المقدس کے پتھر پر بیٹھا تھا-گویا اس صورت  میں وہ پتھر پہلے سے موجود تھا ، اور یہ کہ خدا نے اپنے لعاب دہن سے گہرے دریا خلق کئے!

جس دین میں ایسی اسرائیلیات اور خرافات موجود ہوں کیااس دین کی پیروی کی جاسکتی ہے اور کیااس دین پر اعتقاد رکھا جا سکتا ہے؟!یہ واضح سی بات ہے کہ دانشور اور متفکر اس طرح کی من گھڑت باتوں کی پیروی نہیں کریں گے ۔ بلکہ وہ حقائق جاننے کے لئے کعب الأحبار کی بجائے خاندان وحی اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی طرف رجوع کریں گے۔


۱۔یہ ایک عربی رسم ہے کہ جب کسی چیز سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو اپنا لباس ہلاتے ہیں گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ان باتوں کو قبول نہیں کرتا۔

۱۔ نزھة الناظر و تنبیہ الخاطر(المعروف بہ مجموعۂ وراّم):ج٢ص٥اور٦،نقش ائمہ در احیاء دین(چھٹا شمارہ):١١٤ اور ١١٥.

۲۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید):٧٧٤،أضواء علی السنّة المحمدیة:١٦٥.

۳۔  شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید):٧٧٤،أضواء علی السنّة المحمدیة:١٦٥.

۴۔ شیخ المضیرة:١٣٥ .

۵۔ا سرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:١٥٣.

 

    ملاحظہ کریں : 2309
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 86780
    تمام وزٹر کی تعداد : 131644143
    تمام وزٹر کی تعداد : 91315779