حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ایک اہم نکتہ

ایک اہم نکتہ

 

محققین جس موضوع کے بارے میں بھی تحقیق کا آغاز کریں انہیں اس نکتہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ اس موضوع سے متعلق بہت سےفقہی ،  تاریخی اور تفسیری حقائق مطالب پر دقّت اور غور وفکرکرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔

مثال کے طور پر تاریخ اور تاریخ نگاری میں ہو سکتا ہے کہ بعض مؤرخین نے تاریخی حقائق کو واضح و آشکار طور پر بیان نہ کیا ہواور ممکن ہے کہ یہ ان حقائق سے لاعلمی کی دلیل ہو یا اس میں مؤرخین کے اغراض و مقاصدشامل ہوں ،لیکن جو محققین اور اہل تحقیق تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق سب کے آشکار کرنا چاہتے ہیں ،انہیں چاہئے کہ ان مطالب کو عام سطحی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ جو کچھ پڑھیں اس پر دقّت  کریں  اور مکمل فہم و فراست سے غور وفکر کریں تاکہ اس تدبّر و تفکّر کی وجہ سے تاریخ کے تاریک اور بیان نہ کئے گئے نکات کوواضح و روشن کرکے معاشرے کے سامنے بیان کر سکیں ۔

اب ہم تاریخ کا ایک چھوٹا سا نکتہ بیان کرتے ہیں اور پھر ہم اس کی علل و اسباب  کے بارے میں جستجو کریں گے:

تاریخ میں ذکر ہواہے :اسلام کی طرف مائل ہونے والے یہودی اور عیسائی عثمان کے زمانے تک اسے خلیفہ مانتے تھے حتی کہ جب عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو ان میں سے کچھ نے تو جانفشانی کی حد تک عثمان کا دفاع بھی کیا لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان میں سے بہت سے معروف افراد نے نہ صرف امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کی بلکہ مدینہ کو چھوڑ کر شام میں معاویہ کے گرد جمع ہو گئے!

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تاریخ نے بیان کیا ہے اور ایسے ہی کچھ نمونے ہم نے اس کتاب میں ذکر کئے ہیں۔اب اس بارے میں غور و فکر کریں کہ ظاہری طور پر مسلمان ہونے والے یہ یہودی و عیسائی کیوں عثمان کی حمایت کرنے کے لئے تیار تھے؟ لیکن انہوں نے  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حمایت نہ کی ؟اور پھر کیوں انہوں نے شام جا کر معاویہ کی حمایت کی؟

کیا ان کے اس عمل کو اس چیز کی دلیل نہیں سمجھا جا سکتا کہ کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کے پیش نظر ظاہری طور پر مسلمان ہوئے اور عثمان کے گرد جمع ہو گئے؟عثمان نے ان کے لئے ایسا کیا کیا کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا؟کیوں انہوں نے خاندان وحی علیہم السلام کا دامن نہ تھاما اور معاویہ کے پیچھے چل پڑے؟

ان امورپر غور کرنا اس حقیقت کو واضح کر دیتاہے کہ ظاہری طورپر مسلمان ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک گروہ نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے معاویہ کو طاقت دی؟حتی انہوں نے عثمان کے قتل ہونے سے پہلے ہی معاویہ کو  خلیفہ کے عنوان سے متعارف کر دیا تھا۔ ان کے شام جانے کے بعد معاویہ نے انہیں قبول کر لیا اور ان میں سے بعض کو تو مسلمانوں کی سرپرستی کے لئے بھی منتخب کر لیا!!

ان کے مسلمان ہونے کے آثار میں اسرائیلیات،خرافات اور جھوٹی حدیثیں گھڑنا  شامل تھا۔وہ ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان امور کی ترویج کرتے تھے اور اسلام کے لئے درد دل نہ رکھنے والے خلفاء نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی۔یہ ایسے افراد کے مسلمان ہونے کے عامل میں سے ایک ہے۔

جی ہاں!انہوں نے پیغمبر(ص) کے اصحاب کے نام پر دین پیغمبر(ص)کو نقصان پہنچایا اوریہ نکتہ بہت ہی قابل غور ہے کہ عمر کے بہت سے رشتہ دار ایسے ہی افراد کے دوست اور ہم نشین تھے۔

کتاب’’اسرائیلیات اور اس کے اثرات‘‘میں لکھتے ہیں:

جو چیز اسرائیلیات اور اہل کتاب کے خرافاتی،جعلی اور من گھڑت قصوں کو پھیلانے میں مددغار ثابت ہوتی تھی وہ بعض یہودی و نصرانی علماء کا ظاہری طور پر مسلمان ہونا تھا  ۔وہ ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اور حتی اصحاب پیغمبر(ص)  کا لبادہ اوڑھ کر  بڑی آسانی سے اپنے بہت سے خرافاتی عقائد اور فکری رسومات کو روایات اور احادیث کے قالب میں مسلمان کے سپرد کرسکتے تھے اور اسلام کی شفاف فرہنگ و ثقافت  کو اپنے مجعولات و توہمات سے آلودہ کر سکتے تھے۔

اہل کتاب میں سے اس مسلمان نما گروہ کی اسرائیلیات کو قبول کرنے کے عوامل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اکثر مسلمان شأن و مرتبہ کے لحاظ سے  انہیں رسول  خدا(ص) کے اصحاب کے برابر سمجھتے تھے اور ان کے لئے عزت اور تقرب کے قائل تھے حلانکہ کے وہ ان کی پست نیتوں سے بے خبر تھے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام اس مسلمان نما گروہ سے جعل حدیث کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’پیغمبر خدا (ص) سے حدیث نقل کرنے والا ایک گروہ ایسے منافقوں کا ہے  جو ظاہری طور پر تو اسلام لائے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر پیغمبر اکرم (ص) کی طرف جھوٹی نسبت دی ۔اگر لوگ جان لیتے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں تو ان کی حدیث کو قبول نہ کرتے، لیکن لوگ کہتے ہیں :یہ رسول خدا (ص) کے اصحاب ہیں ؛انہوں نے آنحضرت کو دیکھا ہے اور ان سے حدیث سنی ہے ،اس وجہ سے ان کی حدیث کو قبول کرتے ہیں ؛ حلانکہ خدا نے قرآن میں منافق صحابیوں کی صفات بیان کرکے ان کے جھوٹ کو بیان کیا ہے.....۔

پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی یہ جھوٹے منافقین زندہ رہے اور اپنے جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ گمراہ رہبروں کے مقرب بن گئے اور ان رہبروں نے انہیں حکومتی منصب عطا کئے اور انہیں لوگوں پر مسلّط کر دیا اور ان کے ذریعہ انہوں نے اپنی دنیا کو آباد کیا ۔ لوگ اپنے فرمانروا حاکموں  اور اپنی دنیا کے ساتھ ہیں،مگر جنہیں خدا محفوظ رکھے‘‘ ۔ [1]

تاریخ اسلام میں حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کے لئے متعدد اور واضح مثالیں موجود ہیں ،جو اصحاب کی صفوں میں بیٹھنے والے ایسے ہی اہل کتاب کے بارے میں مسلمانوں کی خوش بینی پر مبنی ہیں ؛حتی کہ بعض تاریخی منابع میں یہاں تک ذکر ہوا ہے:

معاذ بن جبل نے حالت احتضار میں اپنے اطرافیوں کو تاکید کی کہ چار افراد سے علم حاصل کریں: سلمان،ابن مسعود ،ابو درداء اور عبداللہ بن سلاّم(جویہودی تھا اورپھر بعد میں اس نے اسلام قبول کیاتھا)؛ کیونکہ میں نے پیغمبر (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ(یعنی عبداللہ بن سلاّم)ان دس افراد میں سے ہے جو بہشت الٰہی میں جائیں گے! [2]

اس سے بھی  واضح اور صریح روایت  ہے:

ایک شخص نے کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ عمر سے پوچھا۔جب کہ عبداللہ کے پاس یوسف نام کا ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا،عبداللہ نے اس سے کہا: یوسف سے سوال پوچھوکہ خدا نے ان کے بارے میں فرمایاہے:

’’ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‘‘ [3]، [4]

اس واقعہ میں کچھ ایسے نکات ہیں جو قابل غور ہیں:

١۔معاذ بن جبل(عمر کا دوست)نے کیوں عبداللہ بن سلاّم(جو یہودیوں سے مسلمان ہوا تھا)کا نام لیا لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نام نہ لیا جب کہ آپ ہمیشہ پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ہوتے تھے؟!کیا یہودیوں سے مسلمان ہونے والا عبد اللہ بن سلاّم دینی عقائد اور  مسائل  میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام  سے (نعوذ باللہ)زیادہ عالم تھا؟!یا اس کی وجہ یہ تھی کہ عبداللہ بن سلاّم دین کے نام پر دوسرے مطالب بھی نادان اور لا علم مسلمانوں کے ذہن میں ڈالتا تھا؟!

٢۔جب کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے سوال کیا جاتا تھا تو اس نے کیوں یوسف نامی ایک یہودی کی طرف رجوع کرنے کے لئے  کہا؟

٣۔ عبداللہ بن عمر نے یوسف اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو  آیۂ شریفہ’’ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‘‘ کا مصداق کیوں قرار  دیا؟! حلانکہ شیعہ اور سنّی تفاسیر کی رو سے یہ آیت اہلبیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں ہے۔

٤۔کیوں عبداللہ بن عمر ایک یہودی شخص کا ہم نشین تھا اور وہ کیوں اسے اتنا سراہتا تھا؟!

٥۔عبد اللہ بن عمر نے یہودی سے ہم نشینی اور اسے سراہنا کس سے سیکھا؟کیا خود ہی اس کی ایسی عادت تھی؟کیا عمرکو اس کے اس عمل اور رویہ کا علم  تھا؟اگر وہ اس سے آگاہ تھا تو اس نے کیوں اسے اس کام سے منع نہیں کیا؟اگر عمر اس کے اس کام سے آگاہ نہیں تھا تو جو مدینہ میں اپنے بیٹے کے کاموں سے آگاہ نہ ہو تو وہ کس طرح پورے ملک میں مسلمانوں کے امور سے باخبر ہو سکتاہے؟!!

یہ واضح ہے کہ ان امور میں غور و فکر اور تدبّر و تعقّل کرنے سے جستجو کرنے والوں کے لئے اہم مطالب آشکار ہوں گے۔یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نےتمام مسلمانوں کواہل کتاب کی ہم نشینی سے منع فرمایا تھا۔

 

[1] ۔ نہج البلاغہ،خطبہ:٢٠١،اصول کافی:٦٢١.

[2] ۔ التفسیر المفسرون:۱/۱۸۶،الصحیح من سیرة النبی الأعظم)(ص): ۱/۱۰۶ .

[3] ۔ سورۂ انبیاء ، آیت : ۷ ؛ ’’تم لوگ اگر نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو ‘‘۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم(ص) سے  منقول : ۱/۱۰۶ .

[4] ۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:٤٧.

 

    ملاحظہ کریں : 2339
    آج کے وزٹر : 45008
    کل کے وزٹر : 89459
    تمام وزٹر کی تعداد : 131376430
    تمام وزٹر کی تعداد : 91094506