حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
موجودہ صنعت پر ایک نظر

موجودہ صنعت پر ایک نظر

ہم نے ظہور کے بابرکت اور درخشاں زمانے میں علم و دانش کی حیرت انگیز پیشرفت اور امام زمانہ علیہ السلام کی عالمی حکومت میں عقلی تکامل کے بارے میں جو مطالب ذکر کئے،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دور حاضر میں صنعتی ٹیکنالوجی کے بہت سے وسائل اس وقت بے کار اور ناکارہ ہوجائیں گے ۔ اگرچہ آج انسان ان سے استفادہ کرتا ہے۔اس کی دلیل اس وقت عملی و علمی ترقی اور عقلی تکامل ہے ۔ جیسا کہ آج کل انسان نے جدید اور تیز ترین گاڑیوں کے آنے سے بگھی ،تانگہ وغیرہ کو چھوڑ دیا ہے ۔ اس زمانے میں بھی انسان علم و دانش میں ترقی کی وجہ سے موجودہ دور کے جدید وسائل کو چھوڑ کر علمی وعقلی تکامل کے زمانے کے وسائل سے استفادہ کرے گا۔

کیا یہ صحیح ہے کہ بشریت علم اور زندگی کے ہر شعبے میں بے مثال ترقی کرنے کے باوجود گزشتہ زمانے کے وسائل سے استفادہ کرے؟

کیاجدید وسائل کے ہوتے ہوئے پرانے زمانے کے وسائل سے استفادہ کرنا پسماندگی اور گزشتہ زمانے کی طرف لوٹنا شمار نہیں ہوگا؟

کسی شک و تردید کے بغیرقطعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح انسان سوئی اور دھاگے کو چھوڑ کر جدید سلائی مشینوں سے استفادہ کرتا ہے۔جس طرح تانگہ اور بگھی کو چھوڑ کر جدیدترین اور آرام دہ گاڑیوں پر سفر کر تا ہے۔اسی طرح انسان آج کی علمی و صنعتی ترقی سے دورِ حاضر کے جدیدوسائل سے استفادہ کررہا ہے لیکن جب یہ علمی و صنعتی ترقی تکامل کی حد تک پہنچ جائے تو پھر انسان موجودہ دور کے وسائل کو چھوڑ کر اس دور کے جدید ترین وسائل سے استعمال کرے گاکہ آج کے دور کے وسائل کی ان کے سامنے کوئی اہمیت  نہیں ہو گی۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں:

اگر کوئی سورج سے توانائی حاصل کرکے گاڑی چلاسکے تو کیا پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرکے  فضاکو آلودہ کرنا صحیح ہے؟

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اس زمانے میں نہ صرف انسان علم و صنعت میں موجودہ مادی وسائل کی بہترین اور کاملترین انواع سے میں استفادہ کرے گا۔بلکہ معنوی امور میں پیشرفت اور  ملکوت تک رسائی سے بہت سی ناشناختہ  قوتیں حاصل کرے گا کہ جن سے استفادہ کرکے انسان بہت ہی پیشرفتہ اور جدید  وسائل تک رسائی حاصل کرکے ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔

اس بناء پر ہم یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے جدید وسائل (سب کے سب یا ان میں سے اکثر)علم و دانش کے اس درخشاں زمانے میں ترک کردیئے جائیں گے۔

یہ واضح ہے کہ اس کام سے گزشتہ زمانے کی طرف لوٹنا لازم نہیں آتا ہے ۔ بلکہ عقل و علم کے تکامل سے انسان زمانۂ ظہور اور امام زمانہعلیہ السلام کی الہٰی حکومت میں علم و صنعت کے تکامل سے جدیدترین وسائل کو استعمال کرے گا۔اگر انسان اس زمانے میں بھی موجودہ دور کے آلات و وسائل سے استفادہ کرے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے آج ہم برق رفتار اور جدید ماڈل کی آرام دہ گاڑیوں کے باوجود تانگہ اور بگھی سے استفادہ کریں۔

ظہور کے پر نور زمانے کی تبدیلیوں اور اس زمانے کے علمی و عقلی تکامل سے آگاہ افراد کے لئے یہ ایک واضح حقیقت ہے۔

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس طرح گزشتہ زمانے کی بہ نسبت علمی ترقی نے آخری ایک صدی  کے دوران صنعت و ٹیکنالوجی میں بہت سی تبدیلیاں وجود میں لائی ہیں ۔اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کی الہٰی حکومت کے دوران غیر معمولی  علمی ترقی سے بہت سی حیران کن تبدیلیاںوجود میں آئیں گی کہ موجودہ ترقی جن کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں رکھتی۔

سورج نور ، روشنی اور انرجی کا بہترین منبع ہے۔انسان علمی ترقی کے بڑے بڑے دعوں کے باوجود بھی ابھی تک سورج کی انرجی سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کرسکا۔جس طرح انسان پانی کو مختلف  طریقوںسے ذخیرہ کرکے اسے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔اسی طرح سورج سے انرجی ذخیرہ کرکے اسے بہت سے کاموں کے لئے استعمال میں لاسکتے ہیں۔

اب تک انسان اپنے علم کے ذریعہ یہاں تک آگاہی حاصل کرسکا ہے کہ سورج حیات کے لئے  مہم منبع اور توانائی کاسب سے بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن یہ کہ اس سے کس طرح استفادہ کرسکتے ہیں؟کس طرح اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟کس طریقے سے تیل ،پیٹرول اور ڈیزل کی بجائے سورج کی انرجی اور توانائی سے استفادہ کرسکتے ہیں؟

یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر اب بھی ابہام کا  پردہ پڑا ہوا ہے۔ اب تک اس سے بہت کم موارد میں فائدہ لیا گیا ہے۔

سورج اور اس کی توانائی کے علاوہ چاند بھی توانائی کامنبع ہے کہ جس کی توانائی زمین پر بہت سی اشیاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔

لیکن انسان اپنی علمی ترقی کے تمام تردعوؤں کے باوجود چاندکی توانائی کو ذخیرہ نہیں کرسکا کہ جسے وہ اپنے اختیار میں قرار دے کراس سے استفادہ کرسکے۔

چاند کی روشنی کا زمین کے پانی اور دریاؤںکے مدّ و جزر انسان کے جسم اور نفسیات پر اثرات اور اسی طرح اس کا دوسری اشیاء پر اثرانداز ہونا ایسے مطالب ہیں کہ جن تک انسان کی تحقیق پہنچ سکی ہے۔ لیکن چاند کی روشنی کو ذخیرہ کرکے اس سے ضروری موارد میں استفادہ کرنے کے بارے میں کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔([1])

چاند اور سورج تو درکنارستاروں کی روشنی اور کہکشاؤں میں بھی بہت زیادہ  توانائی ہے۔اب تک   دنیا کی علمی ترقی کے دعویدار اس راز سے بھی پردہ نہیں اٹھا سکے۔وہ انہیں ذخیرہ کر کے انہیں بروئے کار لانے سے عاجز ہیں ۔خداوند کریم نے اہل زمین کے لئے سورج اوربعض ستاروں کے طلوع کرنے میں ایسی حیران کن تأثیر قرار دی ہے کہ بہت سے افراد کو اس کا یقین نہیں ہوتا ۔کیونکہ یہ ان کی سطح فکری اور یقین  کی منزل سے بلند ہے۔

ہم نے اپنا راستہ بہت طولانی کر دیا۔زمین سے چانداور سورج پر چلے  گئے اور وہاں سے کہکشاؤں کے سفر پر نکل گئے ۔ اب ہم اپنے وطن یعنی زمین پر واپس آتے ہیں ۔ کیونکہ ابھی تک اس کے بہت سے اسرار باقی ہیں کہ جنہیں درک کرنے سے ہمارا علم عاجز ہے۔ابھی تک تو خلقتِ زمین کے اسرار سے پردہ اٹھنا بھی باقی ہے۔

جس دن تمام دنیا پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مطلق حکومت ہو گی اور جب زمین و آسمان اور چاند سورج کی خلقت کے شاہد ظاہر ہو کر ان پر حکومت کریں گے تو وہ کائنات کو اپنے علم سے منوّر فرمائیں گے اور معاشرے سے جہالت کی تاریکی دور کریں گے پھر انسان پر خلقتِ کائنات کے اسرار کھل جائیں گے۔

جی ہاں جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس دن ہر چیز کا علم ہو گا جہالت کے بادل چھٹ جائیں گے اور کوئی پنہان راز باقی نہیں رہے گا۔([2])

اب ہم اس دن کی یاد سے اپنے دل کو شاد کرتے ہیں کہ جب اسرار ِ کائنات سے پردہ اٹھ جائے گا اور کوئی راز مخفی نہیں رہے گا۔اس بابرکت، باعظمت، منوّر اور درخشاں دن کی آمد کے لئے درد بھرے دل اور سرد آہوں کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ شاید ہمارے شکستہ دلوں کی آہوں میں کوئی اثر ہو۔

 


[1] ۔ چاند کے نور اور روشنی کے بارے میں جاننے کے لئے قدیم کتب میں سے مرحوم آیت اللہ شیخ علی اکبر نہاوندی کی کتاب گلزار اکبری اور جدید کتب میں سے لیال واٹسن کی فارسی میں ترجمہ شدہ کتا ب فوق طبیعت کی طرف رجوع فرمائیں ۔

[2]۔ یہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے: مامن علم الّا و انا افتحہ والقائم یختمہ۔

 

    ملاحظہ کریں : 7039
    آج کے وزٹر : 54490
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129257398
    تمام وزٹر کی تعداد : 89773563