حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
موجود ایجادات میں نقص

موجود ایجادات میں نقص

روح کے آثار اور روحانی قوّت کے نتیجہ کی بحث میں اس اہم نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں کہ دنیا نے اب تک صنعت اور ٹیکنالوجی کے عنوان سے لوگوں کو جوکچھ عطا کیا ہے ۔ وہ ایسی ایجادات تھیں کہ جنہوں نے انسان کی روح کو جسم کا اسیربنا کر رکھ دیاتھا اور اسے جسم کا محتاج بنادیاتھا۔ان میں کوئی ایسی روحانی قوّت موجود نہیں ہے کہ جو انسان کے جسم کو روح کے تابع قرار دے۔

یہ موجودہ ٹیکن الوجی کابہت بڑا نقص ہے ۔ افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ غیبت  کے زمانے کے دانشور اس بارے میں کوئی صحیح پروگرام حاصل نہیںکرسکے۔

البتہ یاد رکھیں کہ ہمارا یہ کہنا کہ زمانۂ غیبت کی ٹیکنالوجی میں نقص و عیب پایا جاتاہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم اس زمانے کے برق رفتار وسائل کا بگھی اور تانگہ وغیرہ سے مقائسہ نہیں کررہے۔ لیکن خدا نے انسان کے وجود میںبے شمار قوّتیں قرار دی ہیں ۔ انہیں کی تخلیق کی وجہ سے وہ خود کو''احسن الخالقین'' قرار دیتے ہوئے فرماتاہے:

'' فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن ''([1])

اس عظیم مخلوق پر توجہ کریں تومعلوم ہوگا کہ انسان نے اپنے وجود کے ایک پہلو سے ا ستفادہ کیا ہے۔ لیکن دوسرے پہلوؤں کو فراموش کردیا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ انسان میں روح بھی ہے۔ لہذاہ میشہ روح کو جسم کے تابع قرار نہ دیں۔انسان کو یہ سوچنا چاہیئے کہ انسان اپنے وجود کے دوسرے پہلوؤںسے استفادہ کرکے جسم کو روح کے تابع قرار دے۔ یوں وہ خود کو مادّہ اور زمانہ کی قید سے آزادکرے۔ لیکن زمانۂ غیبت کی تمام ایجادات مادّی  تقیّدات سے مقید ہیں۔

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ عصرِ غیبت کی تمام ٹیکن الوجی ناقص ہے۔اس میں جو تکامل ہونا چاہیئے تھا، وہ نہیں ہوا اور یہ تکامل سے عاری ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ظہور کاباعظمت ،بابرکت اور پُر نور زمانہ ہرلحاظ سے تکامل کی اوج پر ہوگا۔وہ زمانہ ما بعد مادہ سے بڑھ کربہت عظیم قدرت سے سرشار ہوگا ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ٹیکن الوجی اور مادّی صنعت میںترقی ہوگی ۔ بلکہ  برتر قدرت ،طاقت سے بھی مستفیض ہوگا۔

ہم اپنے اس دعوے کو خاندانِ عصمت وطہارت علیھم السلام کے حیات بخش فرامین سے ثابت کرتے ہیں ۔ لہذا ہم ایسی روایت نقل کرتے ہیں کہ جس سے بعض لوگ  ظہور کے زمانے کی پیشرفتہ صنعت کے لئے استدلال کرتے ہیں۔اب اصل روایت پر توجہ کریں۔

ابن مسکان کہتے ہیں کہ میں نے اما م صادق علیہ السلام سے سنا کہ کہ آنحضرت نے فرمایا:

''ان المؤمن فی زمان القائم وھو بالمشرق لیری أخاہ الّذی فی المغرب وکذا الّذی فی المغرب یری اخاہ الّذی فی المشرق''([2])

یقینا قائم علیہ السلام کے زمانے میں مؤمن شخص مشرق میں ہوگا۔ لیکن وہ مغرب میں موجود اپنے بھائی کو دیکھ سکے گا۔اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ مشرق میں موجود  اپنے بھائی کو دیکھ سکے گا۔

 


[1]۔ سورہ مؤمنون، آیت: ١٤

[2]۔ بحارالانوار: ۵۲ ص۲۹۱

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 7117
    آج کے وزٹر : 58235
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129264888
    تمام وزٹر کی تعداد : 89781053