حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات

حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات

ظہور کے زمانے کے انسانوں کو بے نتیجہ اور وقت ضائع کرنے والی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوگی۔کیونکہ امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام  کے فرمان کے مطابق ،اس روز دنیا دلیل کے ساتھ علم و دانش اور معارف سے سرشار ہوگی۔

جی ہاں! اگر لوگ معاشرے میں ظہور و حضور امام  کی نعمت سے بہرہ مند ہوں تو وہ بہت جلد عظیم علمی منابع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔وہ علم لدنّی کے ذریعہ علم برہانی حاصل کریں گے اور یوں وہ قطعی نتائج تک پہنچ جائیں گے۔

اب اس مطلب کو کاملاً واضح کرنے کے لئے حیوانات کی مختلف انواع کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔پھر ایک روایت نقل کرنے کے بعد بحث سے نتیجہ اخذ کریں گے۔

جیساکہ ہم نے کہا کہ دریائوں کی گہرائی پہاڑوں کی بلندی اور صحرائوں کی وسعت میں  بہت سی  عجیب مخلوقات موجود ہیں ۔ یہ مخلوقات اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ ہمارے لئے ان کی زندگی گزارنے کی راہ و روش ، خصوصیات اور ان کی تولید نسل کی شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔اب تک کی تحقیق کے مطابق ہماری دنیا میں ٨٦٠٠٠ پرندے زندگی گزار رہے ہیں۔([1])

حشرات الارض میں سے اب تک چار لاکھ کی شناخت ہوچکی ہے کہ جن میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ اقسام ایران میں بھی موجود ہیں۔

حیوانات کی اتنی کثیر انواع و اقسام ہیں کہ اگرکوئی حیوان شناسی کے علم میں دنیا میں موجود لاکھوں اقسام کے حیوانات میں افزائشِ نسل کے عمل کو جاننا چاہے کہ ان میں افزائشِ نسل کا عمل کیسے ہوتا ہے؟

ان میں سے کون سے حیوانات انڈے دیتے ہیں اور کون سے بچے۔

تو اس کے لئے  لاکھوںبرس کی تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ دریائوں، صحرائوں، سمندروں اور پہاڑوں میں زندگی گزارنے والے لاکھوں حیوانات کی کس طرح آشنائی حاصل کرسکتے ہیں؟

لیکن اگر یہ ہی شخص یہ مطالب تحقیق و جستجو اور تجربہ سے نہیں بلکہ کسی ایسے سے سیکھے کہ جو اسرارِ خلقت سے آگاہ اور مخلوقات کی خلقت کاشاہد ہو تو یہ چند لاکھ سالوں کی نا ممکن تحقیق سے حاصل ہونے والے مطالب دو منٹ میں جان سکتا ہے؟

اس حقیقت کی مزیدوضاحت کے لئے اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

مرحوم حاجی معتمد الدولہ فرہاد میرزا اپنے مجموعہ میں امیر کمال الدین حسین فنائی کی مجالس سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے ام جابر سے پوچھا کس چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟

اس نے عرض کی میں چرندوں اور پرندوں کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کون انڈے دیتے ہیں اور کون بچے؟

امام  نے فرمایا: اس کے بارے میں اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں۔

لکھو! جن حیوانات کے کان باہر کی طرف ہوں، وہ بچے دیتے ہیں اور جن کے کان اندر کی طرف ہوں اورسر سے چپکے ہوں ،وہ انڈے دیتے ہیں۔

''ذلک تقدیر العزیز العلیم ''

باز اگرچہ پرندہ ہے اور اس کے کان اندر کی طرف ہیں ۔ لہٰذا وہ انڈے دیتا ہے۔ کچھواچرندہ ہے ۔ چونکہ وہ بھی اسی طرح ہے لہٰذا وہ بھی انڈے دیتا  ہے۔ چمگادڑکے کان باہر کی طرف ہیں اور سر سے بھی چپکے ہوئے نہیں ہیں ۔ لہٰذا وہ بچہ دیتی ہے۔([2])

اس عمومی قانون کی رو سے حیوان کا پرندہ ہونا، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ،چونکہ وہ پرندہ ہے ۔ لہٰذا وہ انڈے دے گا۔اسی طرح حیوان کا چرندہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بچے دے گا۔کیونکہ ممکن ہے کہ اگرچہ اس کے پستان ہوں۔

لیکن اس کی افزائش نسل انڈے دینے کے ذریعے ہوتی ہو نہ کہ بچے دینے سے۔

حیوانات میں سے ایک بہت عجیب قسم کا حیوان ہے۔ اس کی مرغابی کی طرح چونچ ہے ۔  لہٰذا وہ ''اردکی'' کے نام سے معروف ہے۔اگرچہ اس حیوان کے پستان ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پرندوں کی مانند انڈے دیتا ہے۔ اب اس بیان پر توجہ کریں۔

ممکن ہے کہ ''اردکی ''حیوانات میں  سب سے زیادہ عجیب نہ ہو لیکن عجیب ضرور ہے یہ ایک پستان دار جانور ہے اور تمام پستان والے حیوانات کی طرح اس کی کھال  ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔لیکن اس کی مرغابی کی طرح چونچ  اور اس کاپرہ دار پنجہ بھی ہے۔

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ یہ حیوان تمام پرندوں کی مانند انڈے دیتا ہے۔یہ حیوان آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔جس کی لمبائی تقریباً٥٠ سینٹی میٹر ہے۔ اس کی چونچ بہت نوکیلی اور تیز ہے ۔ نہاتے وقت یہ اپنی چونچ پانی سے باہر رکھتا ہے اور اسی کے ذریعہ سانس لیتا ہے۔یہ نہروں میں رہتا ہے۔اس کی مادہ وہاں انڈے دیتی ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔([3])

ہم نے گزشتہ ابحاث میں ظہور کے زمانے کی ایک اہم خصوصیات بیان کی ۔ جو اس زمانے کے تمام معاشروں میں علم کا عام ہونا ہے اور ہم نے جو مطالب یہاںذکر کئے ہیں، ان سے عصر ظہور کی دو دیگر خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے ۔

١۔ زیادہ وقت لینے والی تحقیق و جستجوکے بغیر سرعت سے علوم کا حصول۔

٢۔ بے حاصل اور بے نتیجہ تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے بغیرتعلیم کا قطعی نتیجہ حاصل کرنا۔

یہ واضح سی بات  ہے کہ زمانۂ ظہور کی ان دو خصوصیات سے انسان کو کس قدر علمی ترقی اور معاشرہ کو بلندی حاصل ہو گی۔

 


[1] ۔ ان پرندوں میں سب سے بڑا پرندہ افریقی شتر مرغ ہے۔ لیکن یہ پرواز نہیں کرسکتا۔کیونکہ متوسط لحاظ سے اس کا وزن ١٣٥ کلو اس کا قد ٤٠/٢ہے دقیق اطلاعات کے مطابق زمین پر سب سے زیادہ عمر گزارنے والا پرندہ کوّا ہے اور اس کے بعد دریائی کوّا ہے۔ دائرة المعارف ١٠٠١ جذاب نکات:٢٦٣

[2]۔ گلزار اکبری:٦٢٦

[3]۔ شگفتی ہای آفرینش:٢٠

 

 

    ملاحظہ کریں : 7449
    آج کے وزٹر : 56454
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129261326
    تمام وزٹر کی تعداد : 89777491