حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
انسان کا معنوی و مادّی پہلو

انسان کا معنوی و مادّی پہلو

انسان روح اور جسم سے مل کر خلق ہوا ہے ۔لہذا اسے فقط مادّی ، دنیوی اور جسمانی پہلو پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیئے۔ بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ معنوی پہلو پر بھی غور کرے ورنہ اگر ایک ہی پہلو کو مدنظر رکھیں اور دوسرے پہلو کو نظر انداز کر دیں تو یہ اپنے وجوداور اپنی زندگی کے اہم ترین پہلو کو فراموش  کرنے کے مترادف ہو گا۔زمانہ ٔ غیبت میں اکثر انسان معنوی پہلو سے اس طرح مستفیدنہیں ہو سکے جس طرح اس سے بہرہ مندہونے کا حق تھا۔لیکن ظہور کے زمانے میں کہ جوانسانوں کی شخصیت کے تکامل کا دن ہے، تمام انسانی معاشرہ مادّی اور معنوی دونوں پہلوؤں میں تکامل تک پہنچ جائے گا۔اس روز انسان کے عملی و نظری افکارپلیدگی سے پاک ہو کر مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے افکار و رفتار کاپیرو ہو گا اور انسان کا وجود علم ودانش اور نورانیّت سے سرشار ہو گا۔اسی لئے اس دن انسان کے احساسات وادراکات ناپاکی اور غلاظت سے پاک ہو جائیں گے اور انسان شیطان کی چال بازیوں سے غلطیوں میں گرفتار نہیں ہو گا۔

پس اس زمانے کودرک کرنے والے خوش نصیب ہوں گے اور جس طرح وہ ظہور کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام  کے فرمانبردار ہوں گے اسی طرح وہ غیبت کے زمانے میں بھی آنحضرت  کی پیروی کرتے ہوں گے۔ اہلبیت  علیہم السلام نے اس حقیقت کی  وضاحت فرمائی ہے۔اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں ظہور کے نورانی زمانے کے اہم نکات بیان ہوئے ہیں ۔ جن میں  غیت کے زمانے میں انسانوں کے وظائف اور عملی برنامہ بیان ہوا ہے۔اسی طرح ان روایات میں مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کی شادمانی و سرور کی حالت کا بھی بیان ہے۔

امام صادق علیہ السلام ،رسولِ اکرم  ۖسے نقل فرماتے ہیں۔ 

'' طوبٰی لمن ادرک قائم اھل بیتوھو مقتدبہ قبل قیامہ یتولّٰی ولیّہ و یتبرّأ من عدوّہ و یتولّٰی الآئمة الھادیة من قبلہ اؤلئک رفقاء و ذوو ودّ ومودّتواکرم امٰتی علیّ ''  ([1])

خوش نصیب ہے وہ شخص جو میرے اہلبیت  علیہم السلام کے قائم  کو درک کرے وہ ان کے قیام سے پہلے ان کی پیروی کرتا ہو ان کے دوست کو دوست رکھتا ہو اور ان کے دشمن سے بیزار ہو اور ان سے پہلے آئمہ ھدیٰ   علیہم السلام کی ولایت پر یقین رکھتا ہو۔وہ میرے رفقاء اور میری محبت و مودّت کے ہمراہ ہوگاور وہ میرے لئے میری امت کے معزز ترین افرادمیں سے ہوگا۔

اس بناء پر انسان کے فہم و ادراک کی شناحت کا معیار و میزان اس حد تک ہو کہ وہ آنحضرت کی دوستی کا ادّعا کرنے والوں میں سے ان کے دوستوں کو پہچان سکے اور قاطعانِ طریق کو امام زمانہ (عج) کے دوستوں اور غلاموں کے عنوان سے نہ پہچانے۔

اگرچہ مذکورہ روایت ظہور کے مبارک زمانے سے متعلق ہے لیکن اس میں غیبت کے زمانے کے دوران ہماری ذمہ داریوں اور بہت سے وظائف کو بھی بیان کیا گیا ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو ہم انہیں زمانۂ غیبت کی ذمہ داریاں شمار کرتے ہیں اور نہ ہی صحیح طرح سے ان پر توجہ کرتے ہیں۔

 


[1] ۔ الغیبة شیخ طوسی:٢٧٥
 

 

    ملاحظہ کریں : 7299
    آج کے وزٹر : 15034
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128937236
    تمام وزٹر کی تعداد : 89558604