حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
معنوی تکامل

معنوی تکامل

مادّی مسائل میں غرق اور طبیعی علوم کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے انسان معنوی امور ،غیبی امداد اور عالمِ غیب کے حقائق پر توجہ کرنے سے دور ہو چکا ہے۔

انسان مادّی امور کے جال میں پھنس چکا ہے جسے معنوی امور پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ بہت سے افراد مادّی دنیا کے پوجا ریوں کی صحبت میں رہ کر انہیں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور ان کے غلط افکار و عقائد سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ کائنات کے حقائق سے دوری کی وجہ سے انہیں معنوی امور  اور خاندان عصمت علیھم السلام کی غیبی امداد کا علم نہیں ہے۔

ان حقائق کے روشن ہونے ، معنوی امور پر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے اور غیبی امدد کے لئے عالمِ مادہ پر فریفتہ ہونے سے ہاتھ اٹھانا ہو گا۔کیونکہ جس نے اپنی آنکھوں پر مادّیت کی پٹی باندھی ہواور جس پرمادیت کے حصول کا بھوت سوار ہو وہ کس طرح مادّی دنیا سے بھی زیادہ خوبصورت دنیا کو دیکھ سکتا ہے؟

اگر کوئی کسی رنگین عینک کے ذریعہ اطراف کی اشیاء کو دیکھے توکیا وہ اشیاء کا حقیقی و واقعی رنگ  دیکھ سکتا ہے؟ جس نے اپنے ارد گرد مادّیت کی دیوار کھڑی کر رکھی ہو وہ کس طرح اس حصار سے باہر کی د نیا کا مشاہدہ کر سکتا ہے؟

جس نے خود کو کسی بند مکان میں قید کر رکھا ہو کیا وہ ہاہر کی خوشیوں، مسرتوں اور شادابیوں کا نظارہ کر سکتا ہے؟

غیبت  کے زمانہ میں جنم لینے والا انسان زندان میں قید کسی ایسے شخص کی طرح ہے کہ جسے وہاں سے رہائی کاکوئی راستہ بھی میسر نہ ہو۔بلکہ غیبت کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا حال تو ایسے قیدی سے بھی زیادہ بدتر ہے۔کیونکہ قیدی کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ وہ قید میں ہیں اور وہ قید سے نجات پانے کی آرزو میں زندگی گزاررہے ہوتیہیں اور ہمیشہ قید خانے سے رہائی پانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔لیکن افسوس کہ غیبت کے زمانے میں جنم لینے والے اور اس میں پرورش پانے والے اس زمانے کے علاوہ کسی اور زمانے سے آگاہ نہیں ہیں۔ان کی مثال کنویں کے مینڈک جیسی ہے جو کنویں کو ہی پوری کائنات سمجھتاہے۔ انہوں نے ظہور  کے زمانے کا مزہ ہی نہیں چکھا اور نہ ہی کسی نے انہیں ظہور کے زمانے کی حلاوت  و شیرینی سے آگاہ کیا ہے۔اسی وجہ سے وہ زمانۂ غیبت کے زندان، ظلمتوں اور سختیوں میں ہی گھرے ہوئے ہیں۔وہ نہ تو پہلے اس وحشتناک زمانے سے نجات اور اس طولانی قید سے رہائی پانے کی فکر میں  تھے اور نہ ہی اب اس کی فکر میں ہیں۔

ہم اور زندانِ غیبت کے تمام قیدی ظہور کے درخشاں زمانے سے غافل ہونے کی وجہ سے اپنی قید میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ہم غیبت کے زندان میں گرفتار ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے ہیں۔ غیبت کے زمانے کی موجودہ اسیری معاشرے کی غفلت اور معنوی قدروں کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے۔

 

    ملاحظہ کریں : 7257
    آج کے وزٹر : 16692
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128940549
    تمام وزٹر کی تعداد : 89560262