حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ

عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ

خاندانِ عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور اولیاء خدا نے ایسے اعمال انجام دیئے کہ جن کے نتیجہ میں وہ ناپسندیدہ صفات و عادات پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنی عقلائی قوت سے طبائع سوء کو مغلوب و مقہور کرکے کمال کے درجہ تک رسائی حاصل کی۔

یہ ایک فطری و طبیعی موضوع ہے کہ جب عقل کامل ہوجائے تو وہ نہ صرف برے اعمال و کردار بلکہ بری عادتوںپر بھی غالب آجاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: 

''والعقل الکامل قاھر الطبع السوء '' ([1])

عقلِ کامل ، بری طبیعت پر غالب آجاتی ہے۔ 

اس بناء پر کامل عاقل اپنی تمام بری صفات حتی کہ ایسی صفات پر بھی قاہر و غالب آجاتا ہے کہ جو اس کی ذات کا حصہ بن چکی ہوں۔پھر وہ انہیں عقلی قوّت کے ذریعے مقہور و مغلوب کرے گا۔

حضرت مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان سے یہ اہم نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ اولیاء خدا اور صاحبانِ عقل کامل میں اعلیٰ و بلند مقامات پر فائز ہونے سے پہلے بری عادتوںکا ہونا ممکن ہے۔

یہ ایسے لوگوں کے لئے بشارت ہے کہ جو خود کو طبیعت و صفات بد کا مالک سمجھتے  ہیں۔وہ ناامید نہ ہوں بلکہ خود کو دعا و کوشش کے ذریعے کمال تک پہنچائیں۔

حتی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اسی روایت میں کمال تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں افراد کو عملی راہ بھی دکھا دی اور ایک وظیفہ کے عنوان سے فرمایا۔

''وعلی العاقل ان یحصی علی نفسہ مساویھا فی الدین والرأی والاخلاق والادب فی  جمع ذلک فی صدرہ او فی کتاب و یعمل فی ازالتھا '' ([2])

عاقل کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تمام برائیوں کو دین، رائے اوراخلاق و ادب میں شمار کرے اور انہیں اپنے حافظے میں یا لکھ کر جمع کرے اور انہیں ختم کرنے کے لئے کوشش کرے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے تمام عقل مندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غلطیوں کو یاد کرکے انہیں زائل و برطرف کرنے کی کوشش کریں۔یہ ایک ایسا بہترین آئین  و اصول ہے کہ اگر اس کے مطابق عمل کریںتو یہ آپ کو اعلی ٰ مقامات تک پہنچا کر معنویت کے طولانی راستے کو نزدیک کردے گا۔

کیونکہ اس کام سے آپ کے تجربات میں اضافہ ہوگا اور جس کا تجربہ زیادہ ہو،اس کی عقل زیادہ ہوتی ہے جس کی عقل زیادہ ہو وہ سو سالہ راستہ جلد ہی طے کرلیتا ہے۔

تجربہ کی وجہ سے عقل کی زیادتی،ایسا نکتہ ہے کہ جس کی حضرت امیرالمؤمنین  نے اسی روایت کے آغاز میں تصریح فرمائی ہے: 

''العقل عقلان:عقل الطبع و عقل التجربة و کلاھما یؤدی الی المنفعة '' ([3])

عقل دو طرح کی ہے۔ عقل طبیعی اور عقل تجربی ۔یہ دونوں انسان کو منفعت تک پہنچاتی ہیں۔

 

اس بناء پر افراد کی ذاتی و فطری عقل کے علاوہ تجربی عقل بھی وجود رکھتی ہے۔جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں عقلیں منافع پر منتہی ہوتی ہیں۔

ان تمام مطالب سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں۔

١۔ عقل دو طرح کی ہے،ذاتی و تجربی

٢۔ جس طرح ذاتی عقل انسان کو منافع اور خوبیوں تک پہنچاتی ہے تجربی عقل بھی اسی طرح ہے۔

٣۔عاقل پر واجب ہے کہ وہ اپنی اخلاقی و دینی برائیوں کویاد کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے۔

٤۔ انسان کو ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کی وجہ عالی و بلند مقامات تک پہنچنے سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ اسے حضرت امیر المؤمنین علی  علیہ السلام کے فرمان سے درس لے کر اپنے مستقبل کے لئے پُر امید ہونا چاہئے۔

٥۔ خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے خاص اصحاب اور تمام اولیاء خدا ابتداء ہی سے عظیم ذات اورنیک طبیعت کے مالک نہیں تھے۔بلکہ انہوں نے زحمت و کوشش سے وہ مقام حاصل کیا۔

٦۔ کامل عقل یا اولیاء خدا اپنی بری صفات پر قوّہ عقل کے ذریعہ غلبہ حاصل کرتے ہیں۔

٧۔ ہر کامل عقل کا مالک اعلی مقامات کا مالک ہوتا ہے کیونکہ جو عقلِ کامل اورسالم طبیعت  رکھتا ہو وہ عالمِ ملکوت کے ساتھ ارتباط پیدا کرکے ملکوتی ہو جاتا ہے۔

ایسے افرادشرح صدر پیدا  کرتے ہوئے نور الٰہی کے مالک بن جاتے ہیں  اور اسی نور الٰہی کی وجہ سے حقائق کو دیکھتے ہیں۔

خدا وند متعال کا قرآن میں ارشاد  ہے: 

''أَفَمَن شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلِْسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّہِ فَوَیْْل لِّلْقَاسِیَة ِقُلُوبُہُم مِن ذِکْرِ اللَّہِ أُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ '' ([4])

کیا وہ شخص جس کے سینے کو خد انے اسلام کے لئے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نورانیت کا حامل ہے، گمراہوں جیسا ہوسکتا ہے !افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا کے لئے سخت ہو گئے ہیں تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

 جی ہاں !کمال عقل کے ذریعہ راستہ پانے والے افراد ایسے ہیں کہ جن کے قلب بینا ہیں اور جنہوں نے دل کے اندھے پن سے نجات حاصل کرلی جو کہ بدترین اندھا پن ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰۖ نے فرمایا:

''  شرّ العمی عمی القلب '' ([5])

بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔

 


[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص٦

[2]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص٦

[3]۔ بحارالانوار: ج۷۸ص٦

[4]۔ سورہ زمر ،آیت:٢٢

[5]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۵۱

 

 

    ملاحظہ کریں : 7181
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 86795
    تمام وزٹر کی تعداد : 129321993
    تمام وزٹر کی تعداد : 89838172