حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ظن و گمان کی بنیاد پر قضاوت

ظن و گمان کی بنیاد پر قضاوت

اس زمانے میں نفاذِ عدالت کے لئے لوگوں میں علم و آگاہی اس قدرزیادہ ہوگی کہ کبھی بھی ظن وگمان اور شخصی فہم وادراک کی بناء پر کوئی حکم صادر نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ ظن و گمان پر اطمینان،عادلانہ  حکومت کے منافی ہے۔ ایک حکومت فقط اس صورت میں عادلانہ حکومت بن سکتی ہے کہ جب اس میں حقیقت  کے مطابق اور علم کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔لیکن اگر ظن کی بناء پر فیصلہ کیا جائے ( جس میں خلافِ واقع ہونے کا احتمال ہو) تو پھر اس ظنی فیصلہ کو کس طرح سے عادلانہ اور واقعی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے؟

اس بناء پر چونکہ اس زمانے میں حکومت مکمل طور عادلانہ ہوگی ۔لہٰذا اس زمانے میں ہر قضاوت اور فیصلہ کا محور عدالت  ہو گی اور عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ فیصلہ حقیقت  کے مطابق اور علم و یقین کی بنیاد پر ہو نہ کہ ظن و گمان کی بناء پر ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

'' لیس من العدل ،القضاء علی الثقة بالظن '' ([1])

ظن و گمان پر اطمینان کرتے ہوئے حکم و قضاوت کرنا عدل میں سے نہیں ہے۔

 

ظہور کے پر نور زمانے میں علمی و فکری رشد اتنا وسیع ہوگا کہ کبھی بھی کوئی حکم علم و آگاہی کے بغیر صادر نہیں ہوگا۔کیونکہ یہ عادلانہ حکومت کا لازمہ ہے۔

روایات سے یہ بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ بعض موارد میں بینہ اور یمین کی بنیاد پر کئے گئے فیصلے اور قضاوت سے نہ صرف عدالت کا شجرثمربار نہیں ہوگا،بلکہ اس سے حقدار کا حق بھی پامال ہوگا۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس روایت پر توجہ کریں۔

رسول اکرم  ۖ فرماتے ہیں: 

''انما اقضی بینکم بالبینات والایمان و بعضکم الحن بحجتہ من بعض، فایما رجل قطعت لہ من مال اخیہ شیئا یعلم انہ لیس لہ فانما اقطع لہ قطعة من النار ''([2])

 

میں تمہارے درمیان گواہ اور قسم کے ذریعے حکم و قضاوت کرتا ہوں۔تم میں سے بعض،دوسروں کی بہ نسبت بہتر طریقے سے اپنی دلیل بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہو(اچھے بیان و خطاب کی وجہ سے اپنی بات کو بخوبی ثابت کرسکتے ہو)پس اگر میں نے گواہی و قسم  کی بنیاد پر کسی کو اس کے بھائی کے مال سے کچھ دے دیا ہو اور اسے بھی معلوم ہو کہ یہ اس کا مال نہیں ہے تو میں نے حقیقت میں اسے  آگ کا ایک ٹکڑا دیا ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہی و قسم  ہمیشہ حقیقت اور واقعیت کے مطابق نہیں ہوتی۔پس جن موارد میں ایسا ہوا ہو،وہاں حقیقی عدالت کا نفاذ نہیں ہوا، بلکہ حکمِ ظاہری کی بنیاد پر فیصلہ ہو ا ہے۔

 


[1]۔ نہج البلاغہ، کلمات  قصار : ٢١١

[2] ۔ مستدرک الوسائل  :ج۱۷ص۳٦٦

 

    ملاحظہ کریں : 7368
    آج کے وزٹر : 71345
    کل کے وزٹر : 72005
    تمام وزٹر کی تعداد : 129291104
    تمام وزٹر کی تعداد : 89807272