حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زمانۂ ظہور میں عزاداری جاری رہنے کے بارے میں اہم روایت

 

زمانۂ ظہور میں عزاداری جاری رہنے کے بارے میں اہم روایت

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جب قیامت برپا ہو گی تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نور کا ایک خیمہ لگائیں گی  اور حضرت امام حسین علیہ السلام اپنا سر اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس خیمہ کی طرف جائیں گے  ، اور جب جناب فاطمہ علیہا السلام انہیں اس حال میں دیکھیں گی تواس طرح سے  آہ و نالہ اور گریہ کریں گی کہ  وہاں (خدا کا ) کوئی ایسا مقرب فرشتہ ، پیغمبر مرسل  اور بندۂ  مؤمن نہیں ہو گا کہ جو ان کی حالت پر گریہ نہ کرے ۔ خداوند بطور مثال سر کے بغیر بہترین شکل میں ایک مرد ممثل کرے گا تا کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر مخاصمہ کر سکے ۔ خداوند امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں اور آپ کے قتل میں شریک ہونے والوں کو جمع کرے گا  اور آخری فرد تک سب کو قتل کرے گا  اور پھر انہیں زندہ کرے گا ، اور پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں دوبارہ قتل کریں گے ، انہیں پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر امام حسن علیہ السلام انہیں قتل کریں گے ، انہیں پھر زندہ کیا جائے گا تو امام حسین علیہ السلام انہیں قتل کریں گے ، وہ پھر زندہ ہوں گے اور پھر ہماری ذریت میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا کہ جو انہیں قتل نہیں کرے گا ۔ اس دوران خداوند غیظ و غضب کی آگ کو بجھا دے گا اور ان کے (ذہن سے )غم کو فراموش کر دے گا ۔

پھر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : خداوند ہمارے شیعوں پر رحم کرے ۔ خدا کی قسم ! ہمارے شیعہ ہی مؤمن ہیں ، خدا کی قسم ! انہوں نے ہماری مصیبت میں اپنے طولانی غم اور حسرت سے شرکت کی ۔ [1]

اس روایتِ شریفہ میں جو اہم مطالب قابل غور ہیں وہ یہ ہیں کہ خداوند شیعوں کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کر دے گا  اور ان کے ذہن سے غم و حزن کو  فراموش کر  دے  گا  اور یہ اس وقت ہو گا کہ جب امیر المؤمنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام  اور تمام ذریت اہل بیت علیہم السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں اور آپ کے قتل میں شریک ہونے والوں کو قتل کریں گے  اور یہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے واقع ہو گا ۔

یہ فراموشی ان سے لئے گئے قصاص اور انتقام کی وجہ سے نہیں ہے  بلکہ خداوند متعال ان کے غیظ و غضب کی آگ کو بجھا دے گا  اور ان کی یاد سے غم و اندوہ کو فراموش کر دے گا ۔ یہ قابل غور نکتہ ہے  کہ یہ فراموشی دشمنوں سے انتقام لینے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے امر کی وجہ سے ہے  ورنہ جنت میں (امام حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے ) یہ غم و حزن جاری رہتا ، لیکن چونکہ جنت میں اہل جنت کے لئے کوئی غم و حزن نہیں ہونا چاہئے  لہذا خدا ان کے غضب کی آگ بجھا دے گا  اور ان کے ذہن اور یاد سے غم و حزن کو مٹا دے گا ۔ ظہور کے زمانے میں دشمنوں سے لئے جانے والے انتقام کی وجہ سے  شیعہ  امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم  بھول جائیں گے ۔ غم و  حزن اور غیظ کا جاری رہنا  ظہور کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری اور گریہ و  بکاء کے جاری رہنے کا سبب ہے  ۔ شاہ خراسان حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوا ہے  کہ آپ  نے فرمایا :

انّ يوم الحسين‏ عليه السلام أقرح جفوننا و... وأورثنا الكرب والبلاء إلى يوم الإنقضاء....۔ [2]

بیشک امام حسین علیہ السلام کے روز شہادت اور آپ کی مصیبت نے ہماری پلکوں کو زخمی کر دیا ہے  اور یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : ہمیں قیامت تک (یعنی اس کائنات کے اختتام تک )غم و حزن  کا وارث بنا دیا ہے ۔

یہ جان لینا بھی بہتر ہے کہ جنت کے علاوہ بھی خداوند عالم کی اور بھی جنتیں ہیں کہ جن کی  خصوصیات ہمیں معلوم نہیں ہیں ، لیکن ہمارے آقا و مولا حضرت امام عسکری علیہ السلام کی تحریر میں یہ عبارت ملتی ہے :

...وروح القدس في الجنان الصاغورة ذاق من حدائقنا الباكورة...۔ [3]

اور جنت میں روح القدس نے ہمارے باکورہ (نوبر) باغات سے صاقورہ چکھا ہے ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ خداوند متعال کی بہت زیادہ جنتیں ہیں ۔ روح القدس نے جنت میں اہل بیت علیہم السلام کے نوبر باغات  سے صاقورہ چکھا ہے ۔ پس کیا اس جنت اور اس کے علاوہ دوسروں جنتوں میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور مرثیہ سرائی ہے یا نہیں ؟ یہ ایسے اسرار و رموز ہیں کہ جو حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عالمی و آفاقی حکومت کے دوران ہی  آشکار ہوں گے ۔

اور اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ  ظہور کا زمانہ خوشی اور مسرت کا زمانہ ہے  اور اس میں کوئی غم و حزن نہیں ہے ؛ تو ہم  اس کا یوں جواب دیں گے کہ جی ہاں ! ظہور کا زمانہ خوشیوں اور مسرتوں  کا زمانہ ہے ، لیکن صرف دنیاوی امور جیسے قرض اور مرض وغیرہ سے چھٹکارا پا جانے کی وجہ سے انسان خوش ہو گا ، لیکن اس زمانے میں بھی خوف الٰہی کی وجہ سے گریہ ہو گا ، اور جس طرح خدا کے خوف کی وجہ سے گریہ ہو گا ، اسی طرح سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب  پر بھی گریہ و عزاداری ہو  گی ۔

نیز یہ بھی جان لیں کہ جس طرح ظہور کا زمانہ خوشی ، شادمانی اور مسرت کا زمانہ ہو  گا ، اسی طرح یہ بہت سے لوگوں کے لئے حسرت اور پشیمانی کا زمانہ بھی ہو گا  ؛ کیونکہ جب یہ غیبت کے زمانے میں  گہری نیند اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے  بےحد غافل  رہنے کے بعد ظہور  کے زمانے میں بیدار ہوں گے  تو انہیں اس وقت معلوم ہو گا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اپنے امام  سے غافل رہ کر گزار دیا ہے  اور انہوں نے اپنے وقت کے امام(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)  کو بالکل بھی یاد  نہیں کیا ،  نمازوں اور زیارتوں میں اپنے امام کے لئے کوئی دعا نہیں کی  اور ان کی جدائی اور فراق کے غم میں کبھی گریہ نہیں کیا ، اپنے مال اور جان سے امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی نصرت نہیں کی ۔ اپنے امام سے غافل رہنے والوں کے لئے یہ بہت بڑی حسرت ہے ۔

خداوند متعال ہمیں اس حسرت سے بچائے اور ہمیں ایسی غفلتوں سے نجات دے ، ہمیں  ہمارے زمانے کے امام (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )کے لئے دعا کرنے  اور اپنی جان و مال سے آپ کی نصرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔

سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 


[1]  ۔  ثواب الأعمال وعقاب الأعمال: 216.

 قال أبوعبداللَّه‏ عليه السلام: قال رسول اللَّه صلى الله عليه وآله وسلم إذا كان يوم القيامة نصب لفاطمة عليها السلام قبة من نور وأقبل‏ الحسين‏ عليه السلام رأسه على يده فإذا رأته شهقت شهقة لايبقى في الجمع ملك مقرب ولا نبي‏مرسل ولا عبد مؤمن إلاّ بكى لها فيمثل اللَّه عزّوجلّ رجلاً لها في أحسن صورة وهو يخاصم قتلته بلا رأس فيجمع اللَّه قتلته والمجهزين عليه ومن شرك في قتله فيقتلهم‏ حتّى يأتي على آخرهم ثمّ ينشرون فيقتلهم أميرالمؤمنين‏ عليه السلام ثمّ ينشرون فيقتلهم ‏الحسن‏ عليه السلام ثمّ ينشرون فيقتلهم الحسين‏ عليه السلام ثمّ ينشرون فلا يبقى من ذريتنا أحد إلا قتلهم قتلة فعند ذلك يكشف اللَّه الغيظ وينسى الحزن، ثمّ قال أبوعبداللَّه‏عليه السلام رحم اللَّه‏ شيعتنا، شيعتنا واللَّه المؤمنون فقد واللَّه شركونا في المصيبة بطول الحزن والحسرة.

[2] ۔ بحار الأنوار : ۴۴/ 284 .   

[3] ۔  بحارالأنوار: ۲۶/265.

 

    ملاحظہ کریں : 1771
    آج کے وزٹر : 41902
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129088945
    تمام وزٹر کی تعداد : 89634480