حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زمانۂ ظہور میں گریہ و عزاداری اور مرثیہ خوانی

زمانۂ ظہور میں گریہ و عزاداری اور مرثیہ خوانی

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ ، عزاداری ، نوحہ و مرثیہ خوانی کبھی اختتام  پذیر نہیں ہو سکتی  حتی زمانۂ ظہور بلکہ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی الٰہی حکومت میں بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا ۔

ہمارے مولا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اپنے جدِ مظلوم سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام پر گریہ کرتے ہیں اور اپنے ظہور کے آغاز میں اہل عالم کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

...ألا يا أهل العالم إنّ جدّي الحسين‏عليه السلام قتلوه عطشاناً ... [1]

اے اہل عالم! آگاہ ہو جاؤ ، میرے جد حسین علیہ السلام کو پیاسا قتل کیا گیا ۔

اور یہ عزا باقی ہے ، حتی امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں اور تمام اہل بیت علیہم السلام کے قاتلوں کے قتل ہو جانے کے بعد بھی یہ عزا باقی ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں پر غضب اور اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت پر غم و اندوہ تمام نہیں ہو سکتا بلکہ قیامت تک اس کا سلسلہ باقی رہے گا ۔

کیا رجعت میں دشمنوں کو قتل کرنے سے اولیائے الٰہی کی شہادت کی تلافی ہو سکتی ہے ؟

اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ ان ہستیوں کی شہادت کی تلافی کرنا ناممکن ہے اور بطور مطلق کوئی بھی چیز ان کا عوض نہیں ہو سکتی ۔ بیشک اہل بیت علیہم السلام کے لئے عالمِ امر و خلق میں کچھ ایسے مقامات ہیں کہ جن سے کسی بھی بشر کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے دشمنوں کو قتل کرنے سے ان کی شہادت کی تلافی ہو جائے ؟ خدا کی قسم ! اہل بیت علیہم السلام اور آپ کے محبوں کے دل سے ان کی جانگداز شہادت کا  دکھ ، غم  اور درد  کم نہیں ہو سکتا ۔ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس کی روایات میں بھی تصریح ہوئی ہے  اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے  اور پاکیزہ دل اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ۔

ہم اس حقیقت میں شک کرنے والوں سے پوچھتے ہیں : اگر آپ کا کوئی جوان ہو کہ جسے بے جرم و خطا قتل کر دیا جائے تو کیا اس کے قاتل سے قصاص لینے کے بعد آپ کے مجروح دل کو سکون مل جائے گا ؟ البتہ یہ مثال اس امر کو آشکار اور واضح کرنے کے لئے ہے  ورنہ مثال و ممثل کے درمیان  آسمان و زمین اور عرش و فرش  کی مانند فاصلہ ہے ، بلکہ ان کے درمیان اس سے بھی زیادہ فاصلہ ہے ۔



[1]  ۔ الزام الناصب : ۲/۲۸۲.

 

    ملاحظہ کریں : 1795
    آج کے وزٹر : 40372
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129085886
    تمام وزٹر کی تعداد : 89632951