حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر آسمان و زمین کا گریہ

سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر آسمان و زمین کا گریہ

زرارہ کہتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

اے زرارہ ! امام حسین علیہ السلام کے قتل پر آسمان چالیس دن خون کے آنسو روتا رہا اور زمین چالیس دن تک سیاہی روتی تھی ، سورج چالیس دن تک گرہن اور سرخی سے روتا رہا ، پہاڑ پراکندہ ہو کر بکھر گئے ، سمندر پھٹ گئے اور  فرشتے چالیس دن تک امام حسین علیہ السلام پر روتے رہے  اور ہم (اہل بیت علیہم السلام ) میں سے کسی خاتون نے مہندی ، تیل اور سرمہ نہیں لگایا اور نہ ہی کنگھی کی ، یہاں تک کہ ہمارے پاس عبید اللہ بن زیاد  کا سر آیا تو ہم اس کے بعد بھی گریہ کرتے رہے  اور میرے جد جب بھی امام حسین علیہ السلام کو یاد کرتے  تو  گریہ کرتے  ، یہاں تک کہ ان کی ریش مبارک آنسوؤں سے بھر جاتی  اور جو کوئی بھی انہیں دیکھتا تھا وہ ان کے گریہ  کو دیکھ کر رونے لگتا تھا   اور بیشک امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر فرشتے روتے  ہیں تو ان کے رونے سے آسمان اور ہوا میں موجود تمام موجودات اور ملائکہ بھی گریہ کرتے ہیں ۔

جب امام حسین علیہ السلام کی روح پرواز  کر گئی   تو جہنم نے ایسی سانس لی  کہ جس کی قجہ سے نزدیک تھا کہ زمین اس کی فریاد اور آہ و نالہ سے دو حصوں میں تقسیم ہو جائے ۔ اور جب عبید اللہ بن زیاد اور یزید بن معاویہ (لعنۃ اللہ علیہم اجمعین) کی ناپاک روح خارج ہوئی تو  جہنم غضب سے ایسا نعرہ لگایا  کہ  اگر خدائے عزوجل اپنے خازنوں  کے ذریعے اسے نہ روکتا  تو وہ اپنی حرارت سے زمین کی سب چیزوں کو جلا دیتی اور اگر اسے اجازت دے دی جاتی تو وہ روئے زمین پر کسی چیز کو باقی نہ چھوڑتی  اور سب کو نگل لیتی مگر وہ مأمور اور جکڑی ہوئی تھی ، لیکن اس کے باوجود اس نے کئی مرتبہ اس کےخازنوں سے  سرکشی کی  حتی جبرئیل آئے اور انہوں نے اسے اپنے پر مارے تو وہ ٹھہر گئی ۔ وہ ہمیشہ روتی ہے ، ندبہ کرتی ہے  اور امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر شعلے برساتی ہے ۔ اگر زمین پر خدا کی حجتوں میں سے کوئی حجت نہ ہوتی تو زمین ٹوٹ کر بکھر جاتی اور جو کچھ بھی اس پر ہے ، وہ اسے نگل لیتی اور قیامت کے قریب زلزلے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔

خدا کے نزدیک  امام حسین علیہ السلام پر آنسو بہانے والی آنکھ سے زیادہ کوئی چیز بھی محبوب نہیں ہے ، اور جب کوئی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتا ہے تو وہ اپنے گریہ سے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی نصرت کرتا ہے  اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہمدردی کرتا ہے  اور ہم اہل بیت علیہم السلام کا حق ادا کرتا ہے ۔ اور بندوں میں سے کوئی محشور نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کی آنکھیں گریہ کر رہی ہوں اور وہ  میرے جد حسین علیہ السلام پر گریہ کناں ہو  اور وہ روشن آنکھوں کے ساتھ محشور ہو گا ، جب کہ  اس کے چہرے سے سرور و شادمانی عیاں ہو گی ۔  ہر مخلوق خوف و ہراس میں مبتلا ہو گی لیکن وہ (امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والے ) امان میں ہوں گے ، مخلوق کو حساب کے لئے پیش کیا جائے گا  ، جب کہ وہ عرش کے نیچے اس کے سائے میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ محو گفتگو ہوں گے  اور انہیں حساب کی سختیوں کا کوئی خوف نہیں ہو گا  اور ان سے کہا جائے گا :  جنت میں چلے جاؤ  لیکن وہ جنت میں جانے سے گریز کریں گے  اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس اور آپ کے ساتھ گفتگو کو اختیار کریں گے (اور آپ سے گفتگو کرنا زیادہ پسند کریں گے ) ۔ جنت کی حوروں کو ان کی طرف بھیجا جائے گا   اور وہ پیغام دیں گی کہ ہم اور ولدان آپ کے مشتاق ہیں  لیکن وہ ان کی طرف سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے  کیونکہ وہ مجلس حسین علیہ السلام میں سرور و کرامت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے ۔ اسی  دوران ان کے دشمنوں کو  ان کے سر کے سامنے کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے آتش جہنم میں ڈالا جائے گا اور  کچھ دوسرے لوگ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے :’’فَمٰا لَنٰا مِنْ شٰافِعِينَ ۔وَ لاٰ صَدِيقٍ حَمِيمٍ ‘‘[1]۔ اب ہمارے لئےکوئی شفاعت کرنے والا بھی نہیں ہے ، اور نہ کوئی دل پسند دوست ہے ۔

یہ دشمن ان (امام حسین علیہ السلام کے غم میں رونے والوں ) کے  مقام و مرتبہ  کو دیکھیں گے لیکن ان کے قریب نہیں جا سکیں گے  اور ان تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔  فرشتے ان کی ازواج اور ان کے خادموں کی طرف سے پیغام لے کر آئیں گے  کہ  خدا نے تمہیں کیسی کرامت اور مقام و مرتبہ عطا کیا ہے  ، وہ کہیں گے کہ ہم جلدہی تمہارےپاس آ رہے ہیں ۔ وہ اپنی ازواج کے پاس آئیں گے  اور  وہ انہیں اپنی باتیں بتائیں گے اور جب انہیں اس بات کی خبر ہو گی کہ وہ  امام حسین علیہ السلام کے جوار میں سرور  و کرامت میں غرق ہیں تو وہ کہیں گے : ’’ الحمد للَّه ‏الّذي كفانا الفزع الاكبر وأهوال القيامة، ونجانا مما كنا نخاف‘‘ تمام تعریف و ثناء اس  خدا کے لئے ہے کہ جس نے قیامت  کے عظیم خوف و ہراس  اور اس کی وحشت سے ہماری کفایت کی اور ہمیں ان چیزوں سے نجات دی کہ جن سے ہم خوفزدہ تھے ۔  پھر ان کے لئے سواریاں اور زین سے سجے ہوئے گھوڑے لائے جائیں گے  ، وہ ان پر سوار ہو کر  خدا کی حمد و ثناء بجا لائیں گے اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر  درود پڑھ کر روانہ ہوں گے اور اپنے منازل میں آ جائیں گے ۔ [2]

 


[1] ۔ سورۂ شعراء ، آیات : ۱۰۰ اور ۱۰۱.

[2] ۔ كامل الزيارات: 167 ح 8، بحار الانوار : ۴۵/ ۲۰۸ - ۲۰۷ ح 13 کے ذیل میں ، المستدرك: ۱۰/۳۱۳.

 قال زرارة: قال أبوعبداللَّه‏ عليه السلام: يا زرارة ان السماء بكت على الحسين أربعين صباحاً بالدم، وان الأرض بكت أربعين‏ صباحاً بالسواد، وان الشمس بكت أربعين صباحاً بالكسوف والحمرة، وان الجبال ‏تقطعت وانتثرت وان البحار تفجرت وان الملائكة بكت أربعين صباحاً على ‏الحسين عليه السلام، وما اختضبت منا امرأة ولا ادّهنت ولا اكتحلت ولا رجّلت حتّى أتانا رأس‏عبيداللَّه بن زياد، وما زلنا في عبرة بعده، وكان جدي إذا ذكره بكي حتّى تملأ عيناه‏ لحيته، وحتّى يبكي لبكائه رحمة له من رآه. وان الملائكة الّذين عند قبره ليبكون، فيبكي لبكائهم كل من في الهواء والسماء من ‏الملائكة، ولقد خرجت نفسه‏عليه السلام فزفرت جهنّم زفرة كادت الأرض تنشق لزفرتها، ولقد خرجت نفس عبيداللَّه بن زياد ويزيد بن معاوية فشهقت جهنم شهقة لولا انّ اللَّه حبسها بخزّانها لاحرقت من على ظهر الارض من فورها، ولو يؤذن لها ما بقي شي‏ء الا ابتلعته، ولكنها مأمورة مصفودة، ولقد عتت على الخزان غير مرّة حتّى أتاها جبرئيل فضربها بجناحه فسكنت، وانّها لتبكيه وتندبه وانها لتتلظى على قاتله، ولولا من على الأرض من ‏حجج اللَّه لنقضت الأرض واكفئت بما عليها، وما تكثر الزلازل الا عند اقتراب الساعة. وما من عين أحبّ إلى اللَّه ولا عبرة من عين بكت ودمعت عليه، وما من باك يبكيه إلاّ وقدوصل فاطمة عليها السلام وأسعدها عليه، ووصل رسول اللَّه وأدى حقنا، وما من عبد يحشر إلاّ وعيناه باكية إلاّ الباكين على جدّي الحسين‏عليه السلام، فإنّه يحشر وعينه قريرة، والبشارة تلقاه، والسرور بيّن على وجهه، والخلق في الفزع وهم آمنون، والخلق يعرضون وهم ‏حدّاث الحسين عليه السلام تحت العرش وفي ظل العرش لا يخافون سوء الحساب، يقال لهم: ادخلوا الجنّة فيأبون ويختارون مجلسه وحديثه. وان الحور لترسل إليهم أنا قد اشتقناكم مع الولدان المخلدين، فما يرفعون رؤوسهم‏ إليهم لما يرون في مجلسهم من السرور والكرامة، وان أعداءهم من بين مسحوب ‏بناصيته إلى النّار، ومن قائل ما لنا من شافعين ولا صديق حميم، وانّهم ليرون منزلهم‏ وما يقدرون ان يدنوا إليهم، ولا يصلون إليهم. وان الملائكة لتأتيهم بالرسالة من أزواجهم ومن خدّامهم على ما أعطوا من الكرامة، فيقولون: نأتيكم إن شاء اللَّه، فيرجعون إلى أزواجهم بمقالاتهم، فيزدادون إليهم شوقاً إذا هم خبروهم بما هم فيه من الكرامة وقربهم من الحسين‏ عليه السلام، فيقولون: الحمد للَّه ‏الّذي كفانا الفزع الاكبر وأهوال القيامة، ونجانا مما كنا نخاف، ويؤتون بالمراكب والرّحال‏على النجائب، فيستوون عليها وهم في الثناء على اللَّه والحمد للَّه والصلاة على محمّد وآله حتّى ينتهوا إلى منازلهم.

 

    ملاحظہ کریں : 1755
    آج کے وزٹر : 33961
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128975083
    تمام وزٹر کی تعداد : 89577531