حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امام سجاد علیہ السلام کا اپنا چہرہ دیوار سے مارنا ، آپ کے ناک کا ٹوٹنا اور سر کا زخمی ہونا

امام سجاد علیہ السلام کا اپنا چہرہ  دیوار سے مارنا ، آپ کے ناک کا ٹوٹنا اور سر کا زخمی ہونا

مرحوم محدث نوری اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب ’’دار السلام ‘‘ میں اپنے بعض مجامع سے نقل کیا ہے کہ : حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت ہے کہ ایک دن آپ کی خدمت میں پانی اور کھانا رکھا گیا تو آپ کو سرزمین کربلا پر اپنے والد گرامی امام حسین علیہ السلام کی بھوک اور پیاس یاد آئی ۔ آپ  کا دل بیٹھ گیا اور آپ نے شدت سے گریہ کیا  ، یہاں تک کہ گریہ کی شدت سے آپ کا لباس بھی تر ہو گیا  اور پھر آپ نے حکم دیا کہ آپ کے سامنے سے کھانا اور پانی اٹھا لیا جائے ۔ اسی دوران ایک نصرانی داخل ہوا  اور سلام کرنے کے بعد عرض کیا : اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں ۔ (یعنی میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں )  میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں  اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے رسول اور امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام خدا کے ولی اور خلقِ خدا پر حجت خدا ہیں ، اور اے میرے مولا ! آپ بھی خدا کی خلق پر حجت ِ الٰہی ہیں ۔ اور حق آپ میں ، آپ کے ساتھ اور آپ کی طرف ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام نے اس سے  فرمایا :   کس چیز نے تمہیں بدل دیا اور تم اپنے  دین و مذہب اور اپنے آباء و اجداد کے نظریات و آئین سے خارج ہو گئے ؟

اس نے عرض کیا :  اے میرے آقا و مولا !  یہ ایک خواب کی وجہ سے ہے کہ جو میں نے دیکھا تھا ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا : اے نصرانی بھائی ! تم نے خواب میں کیا دیکھا تھا  ؟

اس نے  عرض کیا : اے میرے آقا ! میں نے دیکھا کہ  میں اپنے گھر سے اپنے بعض بھائیوں سے ملاقات کے لئے نکلا ہوں  اور راستے میں میری فکر منتشر اور میرا ذہن پراکندہ ہو گیا کہ جس کی وجہ سے میں راہ سے بھٹک گیا ، اور میں نے دیکھاکہ میرے سامنے سب راستے بند ہو گئے ہیں  اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ اسی حیرت و سرگردانی کے دوران مجھے  پیچھے سے نالہ و فریاد اور تکبیر و تہلیل کی آواز سنائی دی  کہ جو آسمان کی طرف چلی گئی ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے ایک لشکر دکھائی دیا ، میں نے کچھ گھوڑ سواروں ، کچھ لہراتے ہوئے پرچموں اور نیزوں پر بلند کچھ سروں  کو دیکھا ۔ ان کے پیچھے مجھے کچھ کمزور اور نحیف اونٹ دکھائی دیئے کہ جن پر عورتیں ، بچے اور سامان رکھا  ہوا تھا  ، ان عورتوں اور بچوں کے درمیان مجھے ایک جوان دکھائی دیا کہ  انتہائی غمزدہ اور پریشان حال تھا ، جو بے پالان اونٹ پر سوار تھا  اور اس کے سر اور ہاتھوں  کو لوہے کی زنجیروں کے ساتھ اس کی گردن سے باندھا ہوا تھا ، اس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا ،  چہرے پر آنسو رواں تھے ۔ اے میرے مولا! گویا وہ آپ ہی تھے ، وہ عورتیں اور بچے اپنے چہرے پر طمانچے مار رہے تھے  اور بلند آواز سے نالہ و فریاد کر رہے تھے  اور کہہ رہے تھے : وا محمداہ ، وا علیاہ ، وا فاطمتاہ ، وا حسنا ،  وا حسینا ، وا مقتولاہ ، وا مذبوحاہ ، وا غریباہ ، وا ضعیفاہ ،  وا کرباہ ۔

یہ منظر دیکھ کر میں بہت غمزدہ ہوا ، میرا دل دکھنے لگا  اور ان بیبیوں کو دیکھ کر میرے آنسو جاری ہو گئے ۔ ان کے رونے کے ساتھ میں بھی رونے لگا ، میں ان کے راستے پر چل رہا تھا ۔ جب وہ اس راستے پر چل رہے تھے تو  ان کے لئے صحرا کے درمیان میں ایک نورانی گنبد ظاہر ہوا  کہ جو آفتاب کی طرح درخشاں تھا ۔ اس قافلے کے آگے آگے تین بیبیاں تھیں کہ جنہوں نے وہ گنبد دیکھ کر خود کو اونٹوں کی پشت سے گرا دیا ، وہ اپنے سروں پر خاک ڈال رہیں تھیں ، منہ پر طمانچے مار رہیں تھیں  اور کہہ رہی تھیں:وا حسناه،وا حسيناه، وا غربتاه ، وا ضيعتاه،  ‏وا قلة   ناصراه ۔

اسی دوران کوسہ داڑھی اور نیلی آنکھوں والے ایک شخص نے انہیں مارا اور انہیں سوار ہونے پر مجبور کیا ۔ اے میرے آقا و  ومولا ! میں نے ان بیبیوں میں سے ایک بی بی کو دیکھا  اور میرا یہ خیال ہے کہ وہ ان میں سب سے بڑی عمر کی تھیں ، ان کے مقنعہ کے نیچے سے قطرہ قطرہ خون بہہ رہا تھا ۔ اور اے میرے مولا ! ان سروں میں سے آگے  ایک ایسا سر تھا ؛ جو بہت نورانی تھا  کہ جس کے نور کی شعاعوں کے سامنے  آفتاب و مہتاب کی شعاعیں بھی ماند پڑ جائیں ۔  جب وہ اس نورانی گنبد کے قریب پہنچے  تو اس  مبارک سر کو اٹھانے والا شخص وہاں آ کر رک گیا ۔  اس پر غصہ کیا گیا اور اسے زد و کوب کیا گیا  ، اس سے وہ سر لے کر  اس سے کہا گیا :  اے پست انسان ! تم یہ سر اٹھانے سے عاجز ہو ۔ اس نے کہا : مجھے کوئی ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ جو یہ راستہ طے کرنے میں میری مدد کرے ۔ پس اسے مارا گیا اور اس سے وہ سر مبارک لر کر کسی اور کو دیا گیا ، لیکن وہ بھی وہاں رک گیا ، یہاں تک کہ تیس افراد تبدیل کئے گئے  اور سب یہی کہہ رہے تھے : ہمیں کوئی ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ جو یہ راستہ طے کرنے میں ہماری مدد کرے ۔ ان کے سردار کو اس بات کی خبر دی گئی ، وہ اپنے گھوڑے سے اترا تو باقی سب بھی اپنی سواریوں سے اتر آئے ۔ اس کے لئے تیس ذراع کے برابر ایک خیمہ نصب کیا گیا ۔ ان کا سردار خیمے کے درمیان میں بیٹھ گیا  اور باقی سب اس کے اطراف میں بیٹھ گئے   اور پھر ان بیبیوں اور بچوں کا لایا گیا  اور انہیں اس زمین پر بٹھا دیا کہ جس پر کوئی فرش نہیں تھا، ان پر سورج  چمک رہا تھا اور (گرم ) ہوا سے چہرے جل رہے تھے ،  ان بیبیوں اور بچوں کے دل جلانے کے لئے جان بوجھ کر وہ نیزے ان کے سامنے لا کر رکھ دیئے گئے کہ جن پر سروں کو رکھا گیا تھا ۔

نصرانی نے کہا : اے میرے مولا ! یہ منظر دیکھ کر میں شدت سے بے تاب ہوا گیا اور میں اپنے چہرے پر طمانچے مارنے لگا ، میں نے اپنا گریبان چاک کیا  اور غمزدہ دل کے ساتھ ایک گوشہ میں جا کر بیٹھ گیا ۔ اس دوران ایک نیزہ کہ جس پر وہ سر اقدس تھا ، اس گنبد کی طرف مائل ہوا اور اس نے فصیح و بلیغ زبان میں کلام کرتے ہوئے فرمایا : اے بابا ! اے امیر المؤمنین !ہماری مصیبت اور ہم پر ہونے والے ظلم و ستم ، قتل اور زخم آپ کے لئے دشوار ہیں ۔ خدا کی قسم ! انہوں نے مجھے تشنہ لب ، غریب اور تنہا قتل کیا  ، گوسفند کی طرح مجھے ذبح کیا ،  میرے اہل و عیال کو اسیر  کیا  ،  انہوں نے میرے حال پر رحم نہ کیا  ۔ اور میں نے اس سر مبارک سے سنا کہ وہ  خدا کی وحدانیت کا اقرار کر رہا ہے ، قرآن کی تلاوت کر رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر میرے غم و حزن میں مزید اضافہ ہو گیا ۔

میں نے خود سے کہا : جس کا یہ مبارک سر ہے ، وہ خدا کے نزدیک بلند مقام و مرتبہ  اور عظیم شان کا مالک ہے ۔ میرے دل میں اس کی محبت و عقیدت پیدا ہو گئی ۔ جب میں اس حالت میں سوچ رہا تھا اور خود کو کفر و اسلام کے درمیان مخیر  دیکھ رہا تھا تو اچانک ان بیبیوں کے رونے اور نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوئی ، وہ بیبیاں کھڑی ہو کر اس گنبد کو دیکھ رہیں تھیں ، میں بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو گیا ، میں  نے دیکھا کہ اس نورانی گنبد سے  سے کچھ بیبیاں باہر نکل رہی ہیں کہ جن میں سب سے آگے ایک بزرگوار بی بی تھی کہ جس کے ہاتھ میں ایک خون آلود پیراہن تھا ، وہ بی بی اپنے چہرے پر طمانچے مار رہی تھی ، وہ انبیاء اور اپنے بابا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المؤمنین علیہ السلام  کو دردناک دل سے پکار رہی تھی  ، فریاد کر رہی تھی ، بلند آواز سے گریہ و نالہ کر رہی تھی اور فرما رہی تھی : وا ولداه ، وا ثمرة    فؤاداه ، وا حبيب قلباه  ، وا ذبيحاه  ، وا قتيلاه  ،  وا غريباه  ، وا عباساه ،  وا عطشاه ۔

اور جب وہ باعظمت بی بی ان مبارک سروں اور غمزدہ بچوں کے قریب گئیں تو کچھ ساعتوں تک زمین پر بیہوش پڑی رہیں اور جب وہ ہوش میں آئیں تو انہوں نے اپنی آنکھ سے اس سرِ مبارک کی طرف اشارہ کیا تو خدا کی قدرت سے اس مبارک سر میں موجود نیزہ خم ہو گیا  اور وہ سر اس بی بی کی آغوش میں آ گیا ۔ ۔ پس اس بی بی نے اس سر کو اٹھا کر چوما اور فرمایا : اے میرے بیٹے ! انہوں نے تمہیں اس طرح سے قتل کیا کہ جیسے تمہیں نہ  پہچانتے ہوں  اور گویا تمہارے جد اور تہارے والد کو نہ پہچانتے ہوں ۔ وای ہو ان پر ! انہوں نے تم پر پانی بھی بند کر دیا ، تمہیں منہ کے بل زمین پر گرایا ، اور تمہارا سر تن سے جدا کر دیا ۔ اے میرے بیٹے حسین ! کس نے تمہارے سر کو تن سے جدا کیا ؟  کس نے تمہارے پاکیزہ سینہ کو توڑا اور اسے پیس ڈالا ؟ کس نے تمہاری قوتوں کو ختم کیا اور اور اسے ویران کر دیا ؟ اے ابا عبد اللہ ! کس نے تمہارے اہل و عیال کو اسیر کیا ؟  کس نے تمہارے مال کو لوٹا ؟ کس نے تمہارا اور تمہارے بچوں کا سر کاٹا ؟ کس چیز نے انہیں خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت کو اس طرح پامال کرنے کی جرأت دی ؟

راوی کا بیان ہے کہ : جب حضرت علی بن الحسین علیہما السلام نے اس بی بی کی آغوش میں اس مبارک سر کے گرنے کے بارے میں سنا تو آپ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے چہرے کو زور سے گھر کی دیوار کے ساتھ مارا  کہ جس سے آپ کی ناک ٹوٹ گئی اور آپ کا سر اقدس زخمی ہو گیا ، اس کا خون آپ کے سینے پر جاری ہو گیا  اور آپ غم و اندوہ اور گریہ کی شدت سے بیہوش ہو کر زمین پر گر گئے ۔

جب آپ کی حالت بہتر ہوئی تو آپ نے اس طرح جانسوز انداز سے گریہ اور نالہ و فریاد کیا کہ اہل مدینہ بھی آپ کی آواز سن رہے تھے ۔ مدینہ اور مدینہ کے رہنے والوں پر اس طرح سے لرزہ طاری تھا کہ جیسے کوئی کشتی موجوں میں پھنس جائے ۔ امام زین العابدین کے اہل بیت ، بیبیاں اور بیٹیاں گریہ و نالہ کی آواز سن کر گھر سے باہر آئیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آ گئیں  اور امام علیہ السلام کے ساتھ مل کر گریہ و عزاداری کرنے لگیں ۔ وہ بھی بلند آواز سے گریہ کر رہیں تھیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے رونے پر رو رہیں تھیں اور نالہ و شیون کر رہی تھیں ۔

نصرانی کہتا ہے : ان بیبیوں کا یہ خیال تھا کہ میں اس گریہ اور تجدید عزا کا سبب ہوں ۔ لہذا ان بیبیوں میں سے ایک بی بی آئی اور فرمایا : اے بندۂ خدا ! تم نے اس بندۂ صالح کے دل میں مخفی غم اور تازہ کر دیا ہے  اور اس کے سینہ میں درد دل کی گرہیں کھول دی ہیں ، وہ بی بی مجھے گھر سے باہر نکالنا چاہتی تھی  لیکن امام زین العابدین علیہ السلام نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا ۔

جب امام علی بن الحسین علیہما السلام گریہ و عزاداری اور نالہ و شیون کر رہے تھے تو ایک بچہ وارد ہوا اور امام علیہ السلام کے ساتھ بیٹھ گیا اور عرض کیا : بابا جان ! یہ گریہ و نالہ کس کے لئے ہے اور یہ عزاداری کس کے لئے ہے ؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا : یہ نصرانی بتا رہا ہے کہ اس نے خواب میں تمہارے جد حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کی اولاد کے سروں اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھا ہے  کہ کس طرح عورتوں اور بچوں کو ان سروں کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر ، ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا  گیا ۔ یہ سن کر وہ بچہ بھی رونے لگا  اور اپنے منہ پر طمانچے مارنے لگا  اور بلند آواز سے فریاد کرنے لگا : يا جدّاه ، وا حسيناه ، وا غريباه ، وامظلوماه ،  يا ليتني قد قتلت بين يديك يا جدّاه ! يا ليتني قد جرعت كأس الردى‏ دونك؟ يا جدّاه يا ليتني كنت لك الفدا وروحي لروحك الوقا!اے میرے جد ! کاش میں آپ کے سامنے قتل ہو جاتا ۔ اے کاش !میں آپ کے سامنے شہادت کا جام پیتا اور آپ یہ جام نوش نہ فرماتے ۔  اے کاش ! میں آپ پر فدا ہو جاتا اور میری روح آپ کی روح کی محافظ ہوتی ۔

اس دوران ایک بی بی ان کے پاس آئی اور انہیں اپنے سینے سے لگا لیا ، وہ ان کے بابا کے ساتھ بیٹھ کر شفقت و محبت اوردلسوزی سے ان کے  چہرے سے آنسو پونچھ رہی تھی اور انہیں تسلی دے رہے تھی اور تعزیت و تسلیت پیش کر رہی تھی ، لیکن انہیں سکون نہیں مل رہا تھا ۔

اور میں نے ایک جلیل القدر بزرگ شخص کو بھی دیکھا  کہ جو گھر کے باہر دروازے پر بیٹھا ہوا تھا ، وہ اپنے چہرے پر طمانچے مار رہا تھا اور بلند آواز  سے گریہ و فریاد کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:وا قوماه ، وا أهلاه  ، وا حسناه ، وا حسيناه، واجعفراه  ،  وا عقيلاه ،  وا حمزتاه ۔ وہ کبھی بیٹھتا تھا تو کبھی کھڑا ہو جاتا تھا اور  گریہ و نالہ کر رہا تھا ۔

نصرانی کہتا ہے : جب میں نے علی بن الحسین علیہما السلام کو دیکھا کہ ان کی حالت بگڑ گئی ہے  تو میں نے اپنا خواب بیان کرنے سے گریز  کیا  امام زین العابدین علیہ السلام نے میری طرف دیکھ کر فرمایا :  تم جاری رکھو اور اپنا بقیہ خواب بیان کرو ۔  خدا تم پر رحم کرے ۔

میں نے عرض کیا : اے میرے آقا ! اس باعظمت بی بی نے وہ سر اپنی آغوش میں رکھا ، وہ کبھی اس کی خوشبو کو سونگھتی تھی اور کبھی اسے چومتی تھی ۔ دوسری بیبیاں انہیں اس مصیبت پر تسلیت دے رہی تھیں ۔ اسی دوران بیابان سے ایک شخص آیا کہ جس کے بدن پر سر نہیں تھا، اس کے کٹے ہوئے گلے سے خون جاری تھا ۔ جب وہ شخص اس بی بی کے قریب گیا تو سب کھڑے ہو گئے اور سب نے اپنے چہرے پر طمانچے مارے ، اپنا گریبان چاک کیا ۔ اس بی بی  نے وہ سر  اپنے ہاتھوں میں لیا  آسمان کی طرف بلند کیا۔ ہاتف غیبی (کہ جس کی کی آواز کو ہم سب سن رہے تھے لیکن کوئی بھی شخص اسے دیکھ نہیں پا رہا تھا ) کی ندا آئی :

يا فاطم الزهراء جئناك بالرأس

كالبدر يزهو بجنح اللّيل للنّاس

مضمخ شيبه بالدم منحره

من فعل قوم ملاعين و أرجاس

قدقده الشمر بالعضب السنين على

حقد بقلب مشوم جاسر قاس

يقول: يا أم قدى للجيوب ترى

يزيدهم هدمت يمناه أضراس 

اے فاطمۂ زہرا (علیہا السلام ) ہم یہ سر تمہارے لئے لے کر آئے ہیں ۔ ایسا سر جو لوگوں کے لئے رات میں چودہویں کے چاند کی طرح درخشاں ہے ۔

ان کی ریش مبارک ان کے گلے کے خون سے رنگین ہے  اور یہ ملعون اور ناپاک گروہ کے عمل کا نتیجہ ہے ۔

شمر نے کینہ ، شوم دل ، جسارت وقساوت کی وجہ سے اسے تیز اور تند تلوار سے کاٹ دیا۔

وہ کہتے ہیں: اے ماں ! گریبان چاک کرو  ، آپ دیکھ رہی ہیں کہ یزید کے ہاتھوں نے میرے دانتوں توڑ دیا ہے ۔

پھر اس سر کو اس سربریدہ بدن پر رکھا گیا اور خداوند تبارک و تعالیٰ کی قدرت سے انہیں ایک دوسرےسے ملایا گیا  تو وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے اور پھر زمین پر گر کر بیہوش ہو گئے ۔  اور جب ان کی حالت بہتر ہوئی  تو وہ بی بی ان کے گلے اور بدن سے خون صاف کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں :

يا رأس يا رأس قد جددت أحزاني

لما جرى لك يا روحي و جثماني

أيا قتيلا بلا ذنب ولا سبب

ويا غريبا بعيد الدار مهتاني

والجن و الإنس قد ناحت لمصرعكم

مصابكم أحرق الاحشاء نيراني

اے سر ! اے سر ! تو نے میرے غم کو تازہ کر دیا ، تم پر (ہونے والے مظالم اور ) ہونے والی مصیبتوں کی وجہ سے ، اے  میری روح و رواں !

اے بے جرم و خطا اور بے سبب قتل ہونے والے! اور اے اپنے دیار اور کاشانہ سے  دور ہونے  والے غریب !

تیری مصیبت پر جن و انس نوحہ کناں ہیں اور تیرے مصائب انسان کے جگر کو کباب بنا دیتے ہیں ۔

پھر اس بی بی نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم پر میرا سلام ہو ، اے میرے نورِ نظر اور  اے میرے محبوب دل ! تم پر میرا سلام ہو ۔ وہ بی بی ان کے گلے کے خون کو اپنے چہرے اور اپنے بالوں پر مل رہی تھی اور فرما رہی تھی : کل قیامت کے دن میں اسی حالت میں اپنے پروردگار سے ملاقات کروں گی ۔ اے میرے بیٹے ! اے میرے حسین ! میں تیرے خون سے خون آلود ہوں ۔

نصرانی کہتا ہے :  میں اس بی بی کے قریب گیا اور ایک سیاہ کنیز کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ کنیز میری طرف آئی ، میں نے اس سے کہا : تمہیں خدا کا واسطہ ! مجھے ان واقعات اور ان مصائب کے بارے میں بتاؤ ۔ انہوں نے میرا دل پانی پانی اور  کلیجہ جلا دیا ہے۔ اس کنیز نے مجھ سے کہا: وای ہو تم پر ! کیا تم سو رہے ہو یا بیدار ہو ؟ پوری کائنات کو ان حوادث و واقعات کی خبر ہے ، آسمان سے لے کر مچھلیوں تک سب اس سے واقف ہیں ، اس سے پہاڑوں پر لرزہ طاری ہو گیا ، جگر کباب ہو گئے ۔ اس مصیبت پر جن و انس ، حور و غلمان ، آسمان اور جنت و دوزخ کے فرشتوں ، شاخوں پر بیٹھے پرندوں ، دریاؤں کی مچھلیوں ، پتھروں اور پھلوں نے گریہ کیا ۔

میں نے اس سے کہا : میں ایک ذمی اور نصرانی مذہب کا پیروکار ہوں اور میں انہیں نہیں جانتا ہوں ۔ تم مجھے بتاؤ کہ یہ گھوڑے اور یہ لشکر کس کا ہے ؟ تمہیں مجھے نیزوں پر سوار سروں  اور اونٹوں پر مصیبت سے سوار ہونے والے ان بچوں اور ان عورتوں کے بارے میں بتاؤ ، مجھے اس  کٹے ہوئے سر کے بارے میں بتاؤ کہ جو بدن کے بغیر کلام کر رہا تھا ، مجھے بے سر  چلنے والے بدن کے بارے میں بتاؤ  اور مجھے بزرگ بی بی کے بارے میں بتاؤ کہ جس نے وہ سر (اس بدن) پر رکھا  تھا ۔

کنیز نے کہا : یہ گھوڑے اور یہ لشکر عبد اللہ بن زیاد کا ہے کہ جس پر اہل آسمان و زمین لعنت کرتے ہیں ۔ نیزوں پر یہ سر امام حسین علیہ السلام کی اولاد ، بھائیوں اور آپ کے چچا کے بیٹوں کے سر ہیں اور یہ عورتیں اور بچے امام حسین علیہ السلام سے وابستہ ہیں ، بدن کے بغیر کلام کرنے والا سر امام حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام کا سر مبارک تھا ، سر کے بغیر چلنے والا بدن امام حسین علیہ السلام کا بدن مطہر تھا ، غم و اندوہ میں غرق یہ بی بی امام حسین علیہ السلام کی ماں اور اشرف الأنبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی جناب فاطمۂ زہرا علیہا السلام ہیں ۔

میں نے اس سے کہا :  میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ میری طرف سے ان سے معذرت طلب کرو اور ان سے اجازت طلب کرو کہ میں اس ربّانی شخص کے پاس جا کر ان کے دست مبارک پر اسلام قبول کروں اور ان کے نور انور سے ہدایت پاؤں ۔ اس سے اجازت لی ، میں وہاں گیا اور ان کے قدموں میں  گر کر ان کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور ان کے نور انور سے ہدایت یافتہ ہوا ۔ اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تا کہ آپ کے دست مبارک پر اپنے اسلام کی تجدید کروں ، آپ اور آپ کے آباء و اجداد کی ولایت سے متمسک ہو جاؤں ، آپ کے دوستوں کو دوست رکھوں اور آپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھوں ، آپ کی خوشی میں خوش ہوں اور آپ کے غم میں غمگین ہوں اور آپ پر سلام اور خدا کی رحمت و برکات ہوں ۔ [1]



[1] ۔ دارالسلام في ما يتعلق بالرؤيا و المنام: ۲/۱۷۵.

 

    ملاحظہ کریں : 1786
    آج کے وزٹر : 29573
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128966310
    تمام وزٹر کی تعداد : 89573143