حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
سرور شہیداں حضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کا اجر و ثواب

سرور شہیداں حضرت امام حسین علیہ السلام پر

 گریہ کرنے کا اجر و ثواب

ہم یہاں کچھ ایسی روایات ذکر کریں گے کہ جو ہمارے آقا و مولا حضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ  کرنے کی فضیلت اور اجرو ثواب پر دلالت کرتی ہیں ۔

۱ ۔ ابن قولویہ ؒ کتاب ’’کامل الزیارات ‘‘ میں مسمع بن عبد الملک سے اور وہ  حضرت امام صادق علیہ السلام  سے روایت کرتے ہیں  کہ آپ نے فرمایا :

يا مسمع أنت من أهل العراق أما تأتي قبر الحسين‏عليه السلام۔

اے مسمع ! کیا تم اہل عراق میں سے ہو ؟ اور کیا تم حسین بن علی علیہما السلام کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ہو ؟

میں نے عرض کیا : نہیں ! میں اہل بصرہ کے نزدیک ایک مشہور شخص ہوں اور ہمارے پاس کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جو خلیفہ  کے پیروکار ہیں ۔ نیز ناصبیوں کے علاوہ بھی ہمارے بہت سے دشمن ہیں اور مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ فرزند سلیمان کے پاس میری شکایت کریں  کہ جس کے نتیجہ میں وہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرے کہ جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو ۔ (اسی لئے میں احتیاط کرتا ہوں اور زیارت کے لئے نہیں جاتا ) ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

کیا تم امام حسین علیہ السلام پر ہونے والے ظلم و ستم کو یاد کرتے ہو ؟

عرض کیا : جی ہاں !

فرمایا : کیا تم بے تاب ہو کر  جزع و فغاں کرتے ہو؟

میں نے عرض کیا :  جی ہاں ! میں ان کے مصائب کو یاد کر تا ہوں تو مجھ پر رنج و الم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اس طرح گریہ کرتا ہوں کہ میرے اہل و عیال بھی مجھ میں اس کا اثر مشاہدہ کرتے ہیں  اور اس حالت میں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہوں اور میرے چہرے پر اس کا اثر آشکار ہوتا ہے ۔ 

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

رحم اللَّه دمعتك، أما إنّك من الّذين يعدّون من أهل الجزع لنا والّذين يفرحون لفرحنا ويحزنون لحزننا، ويخافون لخوفنا ويأمنون إذا آمنّا، أمّا انّك سترى عند موتك حضور آبائي لك ووصيّتهم ملك الموت بك وما يلقونك به من البشارة أفضل، وملك الموت ارق‏عليك واشد رحمة لك من الام الشفيقة على ولدها.... [1]

خدا تمہارے آنسو پر رحم کرے! اور جان لو کہ تم  ان لوگوں میں شمار ہو گے جو ہمارے لئے آہ و فغاں کرتے ہیں اور تم ان میں سے ہو جو  ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں ،  جو ہمارے خوف میں خوفزدہ اور ہمارے امن کے دوران امان میں ہوتے ہیں۔ اور جان لو کہ موت کے وقت تم دیکھو گے کہ ہمارے آباء تمہارے پاس حاضر ہوں گے اور وہ ملک الموت کو تمہارے متعلق وصیت کریں گے  اور وہ تمہیں جو بشارت دیں گے وہ ہر چیز سے برتر ہے اور تم دیکھو گے کہ ملک الموت تم پر تمہاری شفقت کرنے والی ماں سے بھی زیادہ شفیق، رحم دل اور مہربان ہو گا  ۔

۲ ۔  نیز اسی کتاب میں محمد بن مسلم نے اور انہوں نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی  ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت علی بن الحسین علیہما السلام فرماتے تھے :

أيما مؤمن دمعت عيناه لقتل الحسين بن علي‏ عليهما السلام دمعة حتّى تسيل على خدّه بوّأه اللَّه ‏بها في الجنّة غرفاً يسكنها أحقاباّ، وأيما مؤمن دمعت عيناه حتّى تسيل على خدّه فينا ‏لأذى مسّنا من عدوّنا في الدّنيا بوّأه اللَّه بها في الجنّة مبوّأ صدق، وأيما مؤمن مسّه أذى‏فينا فدمعت عيناه حتّى تسيل على خدّه من مضاضة  ما أوذي فينا صرف اللَّه، عن وجهه ‏الأذى وآمنه يوم القيامة من سخطه والنّار. [2]

 جو مؤمن بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے گریہ کرے اور اس کے رخسار پر آنسو جاری ہوجائیں تو خداوند اسے جنت میں غرفہ عنایت کرے گا کہ  جس میں وہ مدتوں ساکن رہے گا  اور دشمن کی طرف سے ہم پر ہونے والی اذیت اور تکلیف کی وجہ سے جس مؤمن کے رخسار پر بھی اشک جاری ہو جائیں  تو خداوند اسے جنت میں مقام صدق میں جگہ عطا فرمائے گا ۔ اور ہماری راہ پر ہونے کی وجہ سے جس مؤمن کو بھی اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور اس کے رخسار پر  اشک جاری ہو جائیں تو خداوند  اس سے اذیت اور پریشانی کو منصرف کر دے گا  اور قیامت کے دن اسے اپنے غیظ و غضب  اور آتش جہنم سے امان میں رکھے گا ۔

۳ ۔ ابن قولویہ ؒ نے  کتاب ’’ کامل الزیارات ‘‘ میں اپنی سند سے علی بن ابی حمزہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں  نے کہا :  میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ  نے فرمایا :

إنّ البكاء والجزع مكروه للعبد في كلّ ما جزع، ما خلا البكاء والجزع على الحسين بن‏ علي ‏عليهما السلام، فإنّه فيه مأجور. [3]

بندے  کے لئے کسی بھی چیز کے لئے جزع و فغاں کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ امر ہے ، مگر حسین بن علی علیہما السلام کے لئے گریہ کرنا اور جزع کرنا نہ صرف مکروہ نہیں ہے بلکہ مأجور ہے ۔ یعنی اسے اجر و ثواب دیا جائے گا ۔ 

۴ ۔ اسی کتاب میں ابو ہارون مکفوف سے اور انہوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت  نقل کی ہے کہ آپ نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں فرمایا :

ومن ذكر الحسين ‏عليه السلام عنده فخرج من عينيه من الدموع مقدار جناح ذباب، كان ثوابه‏ على اللَّه عزّوجل، ولم يرض له بدون الجنّة .[4]

جس شخص کے سامنے امام حسین علیہ السلام کا ذکر کیا جائے اور   اس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر آنسو نکل آئے تو اس کا ثواب خدائے عزوجل پر ہے  اور خداوند اس کے لئے جنت سے کم پر راضی نہیں ہو گا ۔ 

۵ ۔ اسی کتاب میں ربیع بن منذر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت امام علی بن الحسین علیہما السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

من قطرت عيناه فينا قطرة ودمعت عيناه فينا دمعة، بوّأه اللَّه بها في الجنّة غرفاً يسكنها أحقاباً۔[5]

جس شخص کی آنکھوں سے ہماری مصیبت پر آنسؤوں کا ایک قطرہ نکل  آئے اور اس کی آنکھیں ہماری مصیبت پر اشک آلود ہو جائیں تو خداوند اسے جنت کے ایک غرفہ میں ساکن فرمائے گا کہ جس میں وہ مدتوں رہے گا  ۔

۶ ۔  کتاب ’’کامل الزیارات ‘‘ میں ابو بصیر سے روایت کی گئ ہے کہ  انہوں نے کہا : میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ سے گفتگو کر رہا تھا  کہ اسی دوران آپ کے فرزند داخل ہوئے تو امام علیہ السلام نے انہیں خوش آمدید کہا اور انہیں اپنے سینے سے لگایا ، بوسہ دیا اور فرمایا :

خداوند اسے ذلیل و خوار کرے کہ جو تمہیں حقیر سمجھے  اور تم پر  ظلم و ستم کرنے والوں سے انتقام لے ، اور تمہاری  نصرت نہ کرنے والوں کی مدد نہ کرے  اور تم کو قتل کرنے والوں پر لعنت کرے  اور خداوند تمہارا  ولی و حافظ اور مددگار ہو ۔ آپ پر عورتوں ، پیغمبروں ، صدیقین ، شہداء اور آسمان کے فرشتوں نے بہت طولانی گریہ کیا ۔

پھر امام علیہ السلام رونے لگےاور فرمایا :

اے ابو بصیر ! میں جب بھی امام حسین علیہ السلام کی اولاد کو دیکھتا ہوں تو مجھ پر ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ ان کے پدر گرامی پر ہونے والے ظلم کو برداشت کرنا میرے لئے مشکل ہو جاتا ہے ۔

اے ابو بصیر ! جب فاطمہ علیہا السلام ان پر گریہ کرتی ہیں تو ان کے رونے سے جہنم چیختی اور فریاد کرتی ہے  کہ جہنم پر موکل فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اسے روکنے کے لئے جلدی سے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ  اس وقت جہنم کی آگ کا کوئی ایک شعلہ یا دھواں  روئے زمین پر آ جائے تو تمام اہل زمین جل کر خاکستر ہو جائیں ۔  جب تک جہنم روتی ہے ، محافظ فرشتے اس پر لگام ڈالے رکھتے ہیں اور  اہل زمین کے لئے خطرے کی وجہ سے اس کے دروازوں کو مضبوطی سے بند کر دیتے ہیں ۔ اور جب تک فاطمہ علیہا السلام پُرسکون نہ ہو جائیں تو اس وقت تک جہنم بھی پرسکون نہیں ہوتی ۔

اور بیشک قریب ہے کہ سمندر  شگافتہ ہو جائیں اور ایک دوسرے میں داخل ہو جائیں اور سمندروں کا کوئی ایسا قطرہ نہیں ہے کہ جس پر فرشتہ موکل نہ ہو  لہذا جب فرشتے دریا کا شور سنتے ہیں تو اپنے پروں سے اس کی ہیجان اور طغیان کو خاموش کر  دیتے ہیں اور دنیا و ما فیھا اور اس پر موجود ہر شیء کے خوف کی وجہ سے ہے ۔ فرشتے ان (دریاؤں) کے رونے کی وجہ سے ہمیشہ ان پر شفقت کرتے ہوئے روتے ہیں اور خدا  کو پکارتے ہیں  اور اس کی بارگاہ میں تضرع و نالہ کرتے ہیں  اور پھر اہل عرش اور اس کے اطراف میں سب تضرع و نالہ  کرتے ہیں ۔ فرشتوں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور وہ  اہل زمین کے لئے خوف و ہراس کی وجہ سے ہمیشہ  خدا کی بارگاہ میں تقدیس کرتے ہیں اور اگر ان فرشتوں کی آوازوں میں کوئی ایک آواز بھی زمین پر آ  جائے تو تمام زمین والے بیہوش ہو جائیں ، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اور زمین اپنے رہنے والوں کو جھنجھوڑ دے ۔

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :  میں آپ پر قربان جاؤں ! یہ تو بہت  ہی عظیم امر ہے ۔

 آپ نے فرمایا : اس کے علاوہ جن باتوں کو تم نے نہیں سنا وہ اس بھی کہیں بڑھ کر ہیں ۔

پھر آپ نے مجھے سے فرمایا :

یا ابا بصیر ، أ تحبّ أن تکون فیمن یسعد فاطمہ علیہا السلام ؟

اے ابو بصیر ! کیا تم نہیں چاہتے کہ تم فاطمہ علیہا السلام کی مدد کرنے والوں میں سے ہو  اور امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں ان کی غمخواری کرنے والوں میں سے ہو؟

ابو بصیر کہتے ہیں : جب امام علیہ السلام نے یہ  کہا تو  میں رونے لگا ، یہاں تک کہ میں بول بھی نہیں سکتا تھا ۔ پھر امام علیہ السلام اٹھے اور مصلّیٰ کی طرف چلے گئے اور دعا کرنے میں مصروف ہو گئے ۔  پھر میں اسی حالت میں آپ کی خدمت سے رخصت ہوا  اور نہ تو میں نے کچھ کھایا اور نہ ہی ساری رات مجھے نیند آئی ۔ صبح بھی خوف کے عالم میں روزہ رکھ لیا  حتی کہ میں امام علیہ السلام کے پاس آیا ۔ جب میں نے آپ کو کچھ سکون میں دیکھا  تو مجھے بھی قرار آ گیا  اور پھر خدا کی حمد و ثناء  اور شکر بجا لایا کہ  مجھ پر کوئی عقوبت و بلا نازل نہیں ہوئی ۔ [6]

۷ ۔  کتاب ’’ المختار من كلمات الإمام المهدي‏ عليه السلام ‘‘ میں شیخ صدوق نے اپنی اسناد سے امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

إنّ يوم الحسين أقرح جفوننا، وأسبل دموعنا، وأذلّ عزيزنا بأرض كرب وبلا، وأورثنا الكرب والبلاء إلى يوم الانقضاء، فعلى مثل الحسين فليبك الباكون؛ فإنّ البكاء يحطّ الذنوب العظام...۔ [7]

بیشک امام حسین علیہ السلام کی شہادت و مصیبت کے دن نے ہماری پلکوں کو زخمی کر دیا اور ہماری آنکھوں سے اشک جاری کر دئے ، ہمارے عزیز کو زمین کرب و بلاء (کربلا ) پر خوار کیا اور ہمیشہ کے لئے ہمیں کرب و بلاء اور غم واندور میں مبتلا کر دیا ہے ۔ پس روانے والوں کو حسین علیہ السلام جیسے پر رونا چاہئے اور بیشک یہ گریہ گناہانِ کبیرہ کو مٹا دیتا ہے ۔

 امام حسین علیہ السلام پر رونا اور گریہ کرنا اجر و ثواب کے حصول کے لئے نہیں ہے بلکہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی بزرگ مصیبت اور آپ کی عظمت  آنکھوں کو رونے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔

تبكيك عيني لا لأجل مثوبة

لكنّما عيني لأجلك باكية

تبتلّ منكم كربلا بدم ولا

تبتلّ منّي بالدموع الجارية

میری آنکھیں آپ پر اجر و ثواب کی وجہ سے گریہ  نہیں کر رہیں ، بلکہ آپ کی وجہ سے  میری آنکھیں گریہ کر رہی ہیں ۔

زمین کربلا آپ کے پاکیزہ خون سے تر ہو گئی ، تو پھر یہ میرے آنسؤوں سے کیوں تر نہ ہو ۔

ہر آنکھ نے امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا ، ہر نبی اور ہر وصی نے آپ پر گریہ کیا ۔ آسمان کے پرندوں ، جنگلوں کے درندوں ، دریاؤں کی مچھلیوں ، پتھروں، ریت کے ذروں اور خدا کی ہر مخلوق نے آپ پر گریہ کیا ۔

اور  ہر شیء سے  پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام اور تمام اہل بیت علیہم السلام  نے آپ پر گریہ کیا اور پھر پوری کائنات اور تمام موجودات نے آپ پر گریہ کیا ۔

۸ ۔  ابن قولویہ ؒ نے اپنی سند سے جابر سے اور انہوں نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا :

زارنا رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم وقد أهدت لنا أُم أيمن لبناً وزبداً وتمراً، فقدّمنا منه فأكل، ثمّ قام ‏إلى زاوية البيت فصلّى ركعات، فلمّا كان في آخر سجوده بكى بكاءً شديداً، فلم يسأله ‏أحدٌ منّا إجلالاً وإعظاماً له، فقام الحسين‏ عليه السلام وقعد في حجره فقال: يا أبة لقد دخلت ‏بيتنا فما سررنا بشي‏ءٍ كسرورنا بدخولك، ثمّ بكيت بكاءً غمّنا، فما أبكاك؟ فقال: يا بني‏ أتاني جبرئيل ‏عليه السلام آنفاً فأخبرني أنَّكم قتلى، وأنّ مصارعكم شتّى، فقال: يا أبة فما لمن ‏زار قبورنا على تشتّتها؟ فقال: يا بني أولئك طوائف من أمّتي يزورنكم فيلتمسون بذلك‏ البركة، و حقيق عليّ آن آتيهم يوم القيامة حتّى أخلّصهم من أهوال الساعة ومن ‏ذنوبهم، و يسكنهم  اللَّه الجنّة...۔ [8]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم سے ملاقات کے لئے آئے ، گھر میں کچھ دودھ ، مکھن اور کھجوریں تھیں کہ جو ام ایمن ہدیہ لائی تھی ۔ ہم نے یہ سب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پذٰیرائی کے طور پر رکھ دیا ، آنحضرت نے نوش فرمایا اور پھر آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور گھر کے ایک گوشہ  میں گئے اور چند رکعت نماز بجا لائے اور آپ اپنے آخری سجدے میں  شدت سے روئے ۔ ہم میں سے کسی  نے بھی آپ کے احترام و تعظیم کی وجہ سے رونے کا سبب دریافت نہ کیا ۔ حسین علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش میں جا کر بیٹھ گئے  اور عرض کیا : اے پدر !  آپ ہمارے گھر تشریف لائے تو ہمیں اس سے زیادہ کوئی چیز مسرور نہیں کر سکتی تھی  اور پھر آپ نے گریہ کیا تو آپ کے گریہ نے ہمیں غمگین کر دیا ۔ کس چیز نے آپ کو رلا دیا ؟  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : میرے بیٹے ! جبرئیل ابھی میرے پاس آئے  اور مجھے آپ کے قتل اور آپ کی قبروں کی پراکندگی کی خبر دی ۔

امام حسین علیہ السلام نے عرض کیا : پدر جان ! جو شخص ہماری قبروں کی پراکندگی کے باوجود ان کی زیارت کرے تو اسے کیا اجر ملے گا ؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : میرے بیٹے ! وہ میری امت کا ایک گروہ ہے کہ جو تمہاری زیارت کے لئے جائے گا  اور  اس سے متبرک ہو گا اور مجھ پر لازم ہے کہ  میں قیامت کے دن ان کے دیدار کے لئے جاؤں اور انہیں قیامت کے خوف و ہراس سے رہائی دلاؤں اور انہیں ان   کے مرتکب شدہ گناہوں سے نجات دلاؤں تا کہ وہ (عقوبت) بلاء میں مبتلا نہ ہوں اور خداوند متعال انہیں جنت میں جگہ عطا فرمائے۔

۹ ۔  نیز ابن قولویہ ؒ نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

دخلت فاطمة عليها السلام على رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم وعيناه تدمع، فسألته ما لك؟ فقال: إنّ‏ جبرئيل‏ عليه السلام أخبرني أنّ أُمّتي تقتل حسيناً فجزعت وشقّ عليها، فأخبرها بمن يملك من‏ولدها، فطابت نفسها وسكنت ۔  [9]

حضرت فاطمہ علیہا السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئیں تو آنحضرت کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام نے آپ سے رونے کا سبب پوچھا  تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جبرئیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت حسین کو قتل کرے گی ۔ یہ خبر سن کر حضرت فاطمہ علیہا السلام نے جزع و فریاد کی اور آپ پر یہ بہت دشوار گزری ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کو خبر دی کہ ان کی اولاد میں سے ایک ایسا شخص ہے کہ جو کائنات کا فرمانروا ہو گا (جو ان کے ناحق بہائے خون اور ان کے غصب شدہ حق کا انتقام لے گا ) یہ خبر سن کر آپ خوشنود اور پرسکون ہو گئیں ۔

۱۰ ۔  امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھ کر فرمایا :

يا عبرة كلّ مؤمن، فقال: أنا يا أبتاه؟ قال: نعم يا بنيّ ۔

اے ہر مؤمن کے گریہ کا سبب !امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:بابا جان !(کیا) میں ہر مؤمن کے گریہ کا سبب ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! میرے بیٹے ۔

۱۱ ۔ نیز  ہارون بن خارجہ کی سند سے روایت ہوا ہے کہ انہوں نے کہا : ہم نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں  امام حسین علیہ السلام ان پر درود و سلام ہو اور ان کے قاتلوں پر خدا کی لعنت ہو کا ذکر کیا تو آپ نے گریہ کیا  اور ہم نے بھی گریہ کیا ۔ پھر آپ  نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا :

قال الحسين‏ عليه السلام: أنا قتيل العبرة لا يذكرني مؤمن إلاّ بكى ۔  [10]

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میں کشتۂ اشک ہوں ۔ کوئی بھی مؤمن مجھے یاد نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ گریہ کرے گا  ۔

مرحوم علامہ مجلسی ؒ اس حدیث کو ذکر  کرنے کے بعد اس کے بیان میں کہتے ہیں : ’’ أنا قتيل العبرة ‘‘ یعنی  میں ایسا مقتول ہوں کہ جسے اشک اور گریہ کے ساتھ نسبت دی گئی ہے  اور میں اس کا سبب ہوں ، اور یا یہ کہ میں گریہ و اشک ، غم و حزن اور مصیبت کی حالت میں قتل ہوا ہوں ۔ پہلا احتمال زیادہ ظاہر ہے ۔  [11]

۱۲ ۔ نیز ابن قولویہ ؒ نے اپنی سند سے ابو ہارون مکفوف سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا :  تم نے جو اشعار کہے ہیں ، وہ میرے لئے پڑھو ۔ میں نے کچھ اشعار پڑھے  تو آپ نے فرمایا :

نہیں ! اس طرح سے اشعار پڑھو ، جیسے تم اپنی مجالس میں پڑھتے ہو اور اس طرح سے پڑھو جیسے تم ان کی قبر پر پڑھتے ہو ۔

 پس میں نے یہ شعر پڑھا : 

امرر على جدث الحسين                                   فقل لأعظمه الزكيّه

حسین بن علی علیہما السلام کی قبر مطہر کے پاس سے گزرو  اور ان پاک و پاکیزہ اور مطہر ہڈیوں سے کہو ۔

امام صادق علیہ السلام  یہ سن کر گریہ کرنے لگے  تو میں نے (مزید)اشعار پڑھنے سے گریز کیا ۔ امام علیہ السلام  نے فرمایا : آگے بڑھو ، میں آگے بڑھا اور پھر فرمایا : زیادہ اشعار پڑھو ۔ میں نے یہ شعر پڑھا :

يا مريم قومي فاندبي مولاك

وعلى الحسين فاسعدي ببكاك [12]

اے مریم ! اٹھو اور اپنے مولا پر نالہ و زاری کرو  اور اپنے رونے اور گریہ کرنے سے حسین (علیہ السلام) کی نصرت کرو ۔

سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جس قدر انسان کی معرفت زیادہ ہو گی ، اس کا گریہ زیادہ عمیق  اور زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا ۔ ائمہ طاہرین علیہم السلام میں عزیز زہراء حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا گریہ سب سے طولانی تھا اور ہے  کیونکہ آپ امام حسین علیہ السلام پر ہزار سال سے زائد عرصے سے گریہ و نالہ  کر رہے  ہیں ۔  [13]

۱۳ ۔  حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اپنی مناجات میں پروردگار عالم سے عرض کیا :

يا ربِّ لِمَ فَضَّلتَ أمّة محمّد صلى الله عليه وآله وسلم على سائر الأمم؟ فقال اللَّه تعالى: فضّلتهم لعَشر خصال. قال موسى: وما تلك الخصال الّتي يعملونها حتّى آمر بني إسرائيل يعملونها؟ قال اللَّه تعالى: الصلاة والزكاة والصوم والحج والجهاد والجمعة والجماعة والقرآن والعلم‏ والعاشوراء قال موسى: يا ربّ وما العاشوراء؟ قال: البكاء والتباكي على سبط محمّد صلى الله عليه وآله وسلم والمرثية والعزاء على مصيبة ولد المصطفى، يا موسى ما من عبد من‏عبيدي في ذلك الزمان بكى أو تباكى وتعزّى على ولد المصطفى إلاّ وكانت له الجنّة ثابتاًفيها، وما من عبد أنفق من ماله في محبة ابن بنت نبيه طعاماً وغير ذلك درهماً أو ديناراًإلا وباركتُ له في دار الدنيا الدرهم بسبعين وكان معافا في الجنة وغفرت له ذنوبه، وعزتي وجلالي ما من رجل أو امرأة سال دمعُ عينيه في يوم عاشوراء وغيره قطرة واحدة إلاوكتب له أجر مائة شهيد. [14]

پروردگارا ! تو نے  امتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تمام امتوں پر کیوں برتری دی ؟

خداوند متعال نے فرمایا : دس خصوصیات کی وجہ سے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : وہ کون سی خصوصیات ہیں کہ جن پر وہ عمل کرتے ہیں ، تا کہ میں بھی بنی اسرائیل کو ان پر عمل کرنے کا حکم دوں ؟

خداوند تبارک و تعالیٰ  نے فرمایا : نماز ، زکات ، روزہ ، حج ، جہاد ، جمعہ ، جماعت ، قرآن ، علم اور عاشورا ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : پروردگارا! عاشورا کیا ہے ؟

فرمایا : عاشورا یعنی سبط رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  پر گریہ کرنا اور تباکی کرنا اور پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرزند پر عزاداری کرنا اور مرثیہ خوانی کرنا  ہے ۔

اے موسیٰ ! میرے بندوں میں سے کوئی ایسا بندہ نہیں ہے کہ جو اس وقت روئے ، یا رونے جیسی شکل بنائے  اور فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تعزیہ داری کرے  مگر یہ کہ جنت اس کا اجر و پاداش  ہو ۔ اور کوئی ایسا بندہ نہیں ہے کہ بنتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیٹے کی محبت میں اپنے مال سے طعام یا غیر طعام (یعنی طعام کے علاوہ دوسرے امور پر خرچ کرے ) پر خرچ کرے  مگر یہ کہ دنیا میں اس کے ہر درہم کو ستر درہم کے برابر برکت دوں اور( آخرت میں )اسے جنت میں مورد عفو قرار دوں اور اس  کے گناہوں کو بخش دوں گا ۔ اور مجھے میری عزت و جلالت کی قسم ! کوئی ایسا مرد یا عورت نہیں ہے کہ عاشورا کے دن جس کے آنسو جاری ہوں ، اگرچہ وہ ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہوں ، مگر یہ کہ اس کے لئے سو شہیدوں کا اجر و ثواب  لکھا جائے گا ۔

۱۴ ۔ جب یہ آیۂ شریفہ ’’ وأخذنا ميثاقكم لا تسفكون دمائكم ‘‘  [15] یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جنہوں نے خداوند کے عہد و پیمان کو نقض کیا ، خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور اولیائے الٰہی کو قتل کیا  ، تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

کیا تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤں کہ جو اس امت میں یہودیوں کے مشابہ ہیں ؟

عرض کیا : جی ہاں ! یا رسول اللہ ۔

آپ نے فرمایا : میری امت کا ایک گروہ یہ سوچتا ہے کہ وہ میرے دین کے پابند ہیں(اور وہ لوگ خود کو مسلمان سمجھتے ہیں ) وہ میری بہترین ذریت اور میرے سب سے پاکیزہ فرزندوں کو قتل کریں گے ، میری شریعت و سنت کو تبدیل کریں گے ، میرے دو بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو شہید کریں گے ۔ جس طرح ان یہودیوں کے گذشتگان نے حضرت زکریا و یحیی (علیہما السلام ) کو قتل کیا ۔ آگاہ ہو جاؤ!  خدا ان پر اسی طرح لعنت کرتا ہے  کہ جس طرح ان پر لعنت کی ۔ اور قیامت سے پہلے امام حسین مظلوم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہادی و مہدی کو مبعوث کرے گا کہ جو ان کے باقی ماندہ  افراد اور ان کے دوستوں کو تلوار سے واصل جہنم کرے گا ۔

آگاہ ہو جاؤ !  خداوند امام حسین علیہ السلام ، آپ کے دوستوں اور ساتھیوں  کے قاتلوں پر اور کسی علت و تقیہ کے بغیر ان پر لعنت کرنے سے ساکت رہنے والوں پر لعنت  بھیجتا ہے ۔

آگاہ ہو جاؤ ! خداوند امام حسین علیہ السلام پر رحمت اور شفقت سے گریہ کرنے والوں درود بھیجتا ہے اور  خداوند آپ کے دشمنوں پر  غیظ سےلعنت کرنے والوں پر درود بھیجتا ہے ۔

آگاہ ہو جاؤ ! امام حسین علیہ السلام کے قتل پر رضایت دینے والے بھی آپ کے قتل میں شریک ہیں  اور جان لیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتل ، ان (قاتلوں) کی مدد کرنے والے ، ان کی حمایت کرنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے خدا کے دین سے خارج ہیں ۔

خداوند تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقرب ملائکہ کو حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں کے آنسو اکٹھے کر کے خازنانِ بہشت کو سونپ دیں  اور انہیں آب حیات کے ساتھ مخلوط کر دیں تا کہ ان کی مٹھاس اور ذائقہ ہزار گنا زیادہ ہو جائے ۔

نیز ملائکہ امام حسین علیہ السلام کے قتل پر خوش ہونے والوں کا گریہ (چاہے وہ کسی بھی بات پر گریہ کریں ) اکٹھا کر کے انہیں جہنم کے پست درجے میں لے جاتے ہیں اور حمیم  کے ساتھ ملا دیتے ہیں تا کہ ان کی حرارت اور عذاب کی شدت میں ہزار گنا اضافہ ہو جائے  اور اس کے ذریعے یہاں منتقل ہونے والے آل محمد علیہم السلام کے دشمنوں کا عذاب شدید ہو جائے ۔ [16]



[1]  ۔ كامل الزيارات: 203 ح 7 .

[2]  ۔ كامل الزيارات: 20۱ ح ۱ .

[3]  ۔ كامل الزيارات: 20۱ ح ۲.

[4]  ۔ كامل الزيارات: 20۲ ح ۳.

[5]  ۔ كامل الزيارات: 20۲ ح ۴.

[6] ۔ كامل الزيارات: 169 ح9، بحار الأنوار : ۴۵/۲۰۸، المستدرك:۱۰/۳۱۴.

عن أبي بصير، قال: كنت عند أبي عبداللَّه‏عليه السلام أحدّثه، فدخل عليه إبنه فقال له:مرحباً، وضمه وقبله، وقال: حقّر اللَّه من حقّركم وانتقم ممّن وتركم، وخذل اللَّه من‏ خذلكم ولعن اللَّه من قتلكم، وكان اللَّه لكم وليّاً وحافظاً وناصراً، فقد طال بكاء النساء وبكاء الانبياء والصدّيقين والشهداء وملائكة السماء.ثمّ بكى وقال: يا أبا بصير إذا نظرت إلى ولد الحسين أتاني ما لا أملكه بما أتى إلى أبيهم‏ وإليهم، يا أبا بصير إنّ فاطمة عليها السلام لتبكيه وتشهق فتزفر جهنم زفرة لولا ان الخزنة يسمعون بكاءها وقد استعدوا لذلك مخافة ان يخرج منها عنق أو يشرّد دخانها فيحرق ‏أهل الأرض فيكبحونها ما دامت باكية ويزجرونها ويوثقون من أبوابها مخافة على أهل ‏الارض، فلا تسكن حتّى يسكن صوت فاطمة.

وان البحار تكاد ان تنفتق فيدخل بعضها على بعض، وما منها قطرة إلا بها ملك موكل، فإذا سمع الملك صوتها اطفأ نأرها باجنحته، وحبس بعضها على بعض مخافة على ‏الدنيا وما فيها ومن على الأرض، فلا تزال الملائكة مشفقين، ويبكونه لبكائها، ويدعون‏ اللَّه ويتضرّعون إليه، ويتضرّع أهل العرش ومن حوله، وترتفع أصوات من الملائكة بالتقديس للَّه مخافة على أهل الأرض، ولو أن صوتاً من أصواتهم يصل إلى الأرض لصعق ‏أهل الأرض، وتقطعت الجبال وزلزلت الأرض بأهلها.

قلت: جعلت فداك ان هذا الأمر عظيم، قال: غيره أعظم منه ما لم تسمعه، ثمّ قال لي: يا أبا بصير أما تحب أن تكون فيمن يسعد فاطمة عليها السلام، فبكيت حين قالها فما قدرت على ‏المنطق، وما قدرت على كلامي من البكاء، ثمّ قام إلى المصلّى يدعو، فخرجت من عنده‏ على تلك الحال، فما انتفعت بطعام وما جاءني النوم، وأصبحت صائماً وجلاً حتّى أتيته، فلمّا رأيته قد سكن سكنت، وحمدت اللَّه حيث لم تنزل بي عقوبة.

[7]  ۔ بحار الأنوار : ۴۴ / ۲۸۴.

[8]  ۔  كامل الزيارات: 125 ح 9.

[9]  ۔ كامل الزيارات: 125 ح۸ .

[10]  ۔ كامل الزيارات: 215 ح6.

[11]  ۔ بحار الأنوار : ۴۴/279 ، ح ۶ کے ذیل میں ۔

[12] ۔ كامل الزيارات: 210 ح 5، بحار الأنوار : ۴۴/287 ح25 کے ذیل میں .

[13] ۔ المختار من كلمات الإمام المهدي‏عليه السلام: 2/۳۷۰.

[14] ۔ مجمع البحرين: ۳/186.

[15]  ۔ سورۂ بقرہ ، آیت : ۸۴.(اور ہم نے تم سے عہد لیا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا)

[16]  ۔ 3 بحارالأنوار: ۴۴/304 ح 17.

قال رسول اللَّه‏صلى الله عليه وآله وسلم: لمّا نزلت «وأخذنا ميثاقكم لا تسفكون دمائكم» في اليهود أي الّذين نقضوا عهداللَّه، وكذّبوا رسل اللَّه، وقتلوا أولياء اللَّه: أفلا اُنبّئكم بمن يضاهيهم من يهود هذه‏ الأمّة؟ قالوا: بلى  يا رسول اللَّه قال: قوم من اُمّتي ينتحلون أنّهم من أهل ملّتي، يقتلون ‏أفاضل ذرّيّتي وأطائب أرومتي، ويبدّلون شريعتي وسنّتي، ويقتلون ولدي الحسن ‏والحسين كما قتل أسلاف اليهود زكريّا ويحيى.

ألا وإنّ اللَّه يلعنهم كما لعنهم، ويبعث على بقايا ذراريهم قبل يوم القيامة هادياً مهديّاً من ‏ولد الحسين المظلوم، يحرقهم بسيوف أوليائه إلى نار جهنّم، ألا ولعن اللَّه قتلة الحسين ‏عليه السلام ومحبّيهم وناصريهم، والسّاكتين عن لعنهم من غير تقيّة يسكتهم.

ألا وصلّى اللَّه على الباكين على الحسين رحمة وشفقة، واللاّعنين لأعدائهم والممتلئين‏ عليهم غيظاً وحنقاً، ألا وإنّ الراضين بقتل الحسين شركاء قتلته، ألا وإنّ قتلته وأعوانهم‏ وأشياعهم والمقتدين بهم براء من دين اللَّه.

إنّ اللَّه ليأمر ملائكته المقرّبين أن يتلقّوا دموعهم المصبوبة لقتل الحسين إلى الخزّان في‏ الجنان، فيمزجوها بماء الحيوان، فتزيد عذوبتها وطيبها ألف ضعفها وإنّ الملائكة ليتلقّون دموع الفرحين الضاحكين لقتل الحسين يتلقّونها في الهاوية ويمزجونها بحميمها وصديدها وغسّاقها وغسلينها فيزيد في شدّة حرارتها وعظيم عذابها ألف‏ ضعفها يشدّد بها على المنقولين إليها من أعداء آل محمّد عذابهم.

 

    ملاحظہ کریں : 1788
    آج کے وزٹر : 13693
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129032527
    تمام وزٹر کی تعداد : 89606271