حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۳ ۔ زیارت کے متن میں علوم و معارف پر توجہ کرنا

۳ ۔ زیارت کے متن میں علوم و معارف پر توجہ کرنا

زیارت کے اہم امور میں سے تیسرا امر ان زیارات کے متن و مطالب  پر توجہ کرنا ہے  تا کہ  اسے وہ اہم معارف حاصل ہو سکیں کہ جو اہل بیت علیہم السلام نے زیارات کے ضمن میں بطور صریح  یا اشارۃً بیان فرمائے ہیں ۔ بیشک زیارات اور دعاؤں میں علوم و معارف کے خزانے پوشیدہ ہیں کہ جن کے اسرار و حقائق کو درک کرنے کے لئے ان پر غور کرنا ضروری ہے ۔  ان میں غور و فکر کرنے سے انسان وہ امور کشف کرتا ہے جن کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ان امور سے آگے دیکھے کہ جنہیں وہ غور و فکر اور معرفت سے پہلے دیکھتا تھا ۔ ہم یہاں کچھ ایسے موارد ذکر کریں گے تا کہ انسان یہ جان لے کہ زیارت کو غور و فکر کے بغیر اور غور و فکر کے ساتھ پڑھنے میں بہت زیادہ فرق ہے ۔

آپ نے متعد زیارات میں پڑھا ہے : ’’السلام عليك يا رسول اللَّه ‘‘ اور اسی طرح دوسرے کئی جملات آپ نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مرتبہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے حرم اور آپ سے منسوب زیارت گاہوں میں  پڑھے ہوں گے ۔ لیکن کیا آپ نے آج تک سوچا ہے کہ ’’ سلام ‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟  اور جب ہم ’’السلام عليك يا رسول اللَّه‘‘ یا  اس مبارک جملے کی طرح دوسرے جملات کہتے ہیں تو اس سے کس چیز کا ارادہ کرتے ہیں ؟ ہم آپ کے لئے اس جملہ کے معنی اسی طرح بیان کریں گے کہ  جس طرح روایات میں وارد ہوا ہے  تا کہ آپ انشاء اللہ  آئندہ زیارات میں توجہ کریں اور اسی کا قصد کریں ۔

ہم یہ کہتے ہیں : ہم پر یہ جان لینا لازم ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے جنّ و انس کو معرفت کے لئے خلق کیا ہے ۔ خداوند حکیم نے فرمایا ہے : «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونَ»[1] ۔ ’’میں (خداوند) نے جنّ و انس  کو  خلق نہیں کیا مگریہ کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ ۔  ہمارے آقا حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں : اس آیت میں ’’عبادت‘‘ سے مراد ’’معرفت ‘‘ ہے ۔  خدا نے انسان کو اس لئے خلق نہیں کیا کہ اس پر جابر و ظالم  مسلط ہو جائیں  بلکہ وہ عبادت نہ کرنے اور  دینی معارف کی معرفت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ظالموں اور جابروں کے سامنے مغلوب ہو جاتے ہیں ۔  خداوند تبارک و تعالیٰ  کا ارشاد ہے : «لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنات وَأَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتَاب وَالمِيزَان لِيَقُومُ‏  النَّاسِ بِالْقِسْط » ۔[2] ’’بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ‘‘  پس رسولوں کو اس لئے بھیجا گیا کہ لوگ عدل و انصاف پر عمل کریں ۔  اور یہ عمل تب تک ممکن نہیں کہ جب تک انسان دینی معارف کا عالم و عامل نہ ہو ۔

پس لوگوں پر ظالموں اور جابروں کے مسلط ہونے کی یہ وجہ ہے کہ لوگ انبیاء اور ائمہ کے احکامات و دستورات پر عمل پیرا نہیں ہوتے  اور اس عمل کا تسلسل ہمارے آقا و مولا حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے واقع ہونے کا سبب بنا ہے  اور غیبت کا یہ سلسلہ اس وجہ سے جاری ہے کہ لوگوں کی طرف سے انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے دستورات  کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے ۔

خداوند تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے وعدہ کیا ہے کہ  وہ ظلم و ستم اور بربریت کا خاتمہ کرے گا  اور اسے نیست و نابود کر دے  گا ، بلکہ خداوند نے پیغمبر ، ان کے وصی ، ان کے اہل بیت، تمام ائمہ اور ان کے شیعوں سے عہد و پیمان  لیا ہے اور ان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کو ان کے سامنے تسلیم کرے گا ۔

نمازوں اور زیارتوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ہمارا سلام  اسی عہد و میثاق کی یاد ہے ۔ اس امید میں کہ خداوند  اس سلام و تسلیم میں تعجیل فرمائے کہ جس کا  ہم سے اور ان سے وعدہ کیا گیا ہے  ۔ ہمارے مولا حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں اسی مطلب کی تصریح فرمائی ہے کہ  جسے داؤد بن کثیر رقی  نے آپ سے نقل کیا ہے ۔

داؤد بن کثیر کہتے ہیں ۔ میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ’’سلام ‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟ آپ نے فرمایا :

إنّ اللَّه تبارك وتعالى لمّا خلق نبيّه ووصيّه وابنته وابنيه وجميع الأئمّة، وخلق شيعتهم.أخذ عليهم الميثاق أن يصبروا ويصابروا ويرابطوا،وأن يتّقوااللَّه.

ووعدهم أن يسلّم لهم الأرض المباركة، والحرم الأمن، وأن ينزّل لهم البيت المعمور، ويظهر لهم السقف المرفوع، ويريحهم من عدوّهم، والأرض الّتي يبدّلها اللَّه من السلام ‏ويسلّم ما فيها لهم «لاشية» فيها قال: لا خصومة فيها لعدوّهم وأن يكون لهم فيها مايحبّون وأخذ رسول اللَّه‏صلى الله عليه وآله وسلم على جميع الأئمّة وشيعتهم الميثاق بذلك.[3]

جب خداوند تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ، ان کے وصی ، ان کی بیٹی اور  ان کے دو بیٹوں  اور دیگر ائمہ اور شیعوں  کو خلق کیا  تو ان سے یہ پیمان لیا کہ وہ (مصیبتوں پر)صبر کریں اور (دشمنوں کے مقابلے میں ) ثابت قدم رہیں اور تقوائے  الٰہی اختیار کریں ۔ اور ان سے وعدہ کیاکہ سرزمین مبارک اور حرم امن ان کے سامنے تسلیم کرے گا اور بیت المعمور کو ان کے لئے نازل کرے گا  اور  ان کے لئے سقف مرفوع (یعنی آسمان ) آشکار کرے گا  اور انہیں دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ اور وہ انہیں وہ زمین  کہ جسے اس نے دگرگوں کر دیا تھا  اور جو کچھ اس میں ہے  ؛ انہیں عطا کرے گا  کہ پھر جس میں کوئی ناسازگاری نہ ہو  اور وہاں ہر وہ جو چیز موجود ہو کہ  جسے وہ پسند کرتے ہوں ۔  اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام ائمہ اور شیعوں سے یہ عہد و پیمان لیا۔

پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام اس امید میں اسی عہد و پیمان کی یاد اور تجدید عہد ہے  کہ خداوند اس میں تعجیل فرمائے  اور  یہ سلام و سلامت اس میں موجود تمام اشیاء کے  ساتھ آپ کو عطا کرنے میں جلدی فرمائے ۔

پس اپنی نماز میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام کہنے والے ہر نمازی  اور  زیارت میں ’’السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ کہنے والے ہر زائر پر  یہ جاننا لازم ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام کہنے کے یہ معنی ہیں کہ : خدا زمین کو دگرگوں کرے  اور آپ کو اس میں موجود تمام اشیاء کے ساتھ سلام و سلامت  عطا کرنے میں تعجیل فرمائے  ، محمد و آل محمد علیہم السلام اور آپ  کے شیعوں کے لئے  بیت المعمور کو نازل فرمائے  اور سقف مرفوع (آسمان ) کو آشکار کرے ۔ اور یہ سب ہمارے مولا حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی کریمانہ اور آفاقی حکومت کے بغیر متحقق نہیں ہو سکتا ۔

ہمارے اس بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ نمازی اپنی نماز اور زائر اپنی زیارت کے دوران رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام کہتے وقت اپنے اس سلام سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کو یاد کرتا ہے ۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام کہنے والے ہر نمازی اور ہر زائر پر لازم ہے کہ  وہ خود کو یوسف زہراء حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی آفاقی حکومت کے لئے  تیار کرے اور اپنے دل کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک کرے ۔

اے کاش ! محترم زائرین !یہ جان لیں کہ  دعاؤں اور زیارات میں سب سے اہم ترین معارف  امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنا  اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے دشمنوں سے انتقام لینا ہے  تا کہ وہ الٰہی حکومت قائم ہو جائے ۔ بہت سی دعاؤں اور زیارات میں اس امر کو کثرت اور صراحت سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے  اور بعض دعاؤں میں اس امر کو بطور اشارہ دیکھا جا سکتا ہے  ، جیسا کہ ہم نے ’’ السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ کے معنی کے بارے میں مذکورہ روایت نقل کی ہے ۔



[1]  ۔ سورۂ ذاریات ، آیت : ۵۶ .

[2]  ۔ سورۂ حدید ، آیت : ۲۵ .

[3] ۔ کافی : ۱ /۴۵۱ ، باب مولد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)  ، بحار الأنوار : ۵۲ / ۳۸۰ ، ح ۱۹۰.

 

    ملاحظہ کریں : 1768
    آج کے وزٹر : 31569
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128970301
    تمام وزٹر کی تعداد : 89575139