حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کرم حسینی

کرم حسینی

ہم یہاں کرمِ حسینی کا ایک عجیب واقعہ نقل کرتے ہیں کہ جو امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام اور  اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بدترین دشمن کے لئے پیش آیا  اور پھر وہ آپ کا بہترین دوست بن گیا  اور پھر  اس کے نزدیک روئے زمین پر کوئی بھی ان دو بزرگوں سے زیادہ  محبوب نہیں تھا ۔

بزرگ محدث جناب شیخ عباس قمی  فرماتے ہیں :

میں نے بعض اخلاقی کتب میں دیکھا کہ عصام بن مصطلق نے اس  طرح سے نقل کیا ہے :

وہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں داخل ہوا اور  میں نے حسین بن علی علیہما السلام کو دیکھا  اور میں آپ کے  وقار ، عظمت  اور ملکوتی چہرے   کو دیکھ کر حیران ہو گیا ۔ انہیں دیکھ کر میرے وجود میں حسد اور بغض و کینے کی آگ بھڑک اٹھی  اور  میں نے اپنے سینے میں ان کے والد کے لئے چھپائے گئے بغض اور کینے کو ظاہر کر دیا ۔ میں نےان سے کہا : تم ابو تراب کے بیٹے ہو ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ۔

میں انہیں اور ان کے والد کو جس قدر بھی برا بھلا کہہ سکتا تھا ، میں نے کہا اور ان کی توہین کی  لیکن انہوں نے میری طرف رأفت و کرم سے دیکھا اور فرمایا :

أعوذ باللَّه مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيْمِ، بسم الله الرّحمن الرّحيم: «خُذِ الْعَفوَوَأْمُر بِالْعُرفِ وَأعرِض عَنِ الْجَاهِلينَ ۔ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطانِ نَزْعٌ‏ فَاسْتَعِذْ بِالله إِنَّهُ سَمِيعٌ عَليمٌ ۔ إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ ‏الشَّيطَانِ تَذَكَّرُوا فَإذَا هُم مُبْصِرُون ۔ وَإخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيّ ثُمّ‏ لاَيُقْصِرونَ» [1]

میں شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ خدائے رحمان و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں ۔ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی غلط خیال پیدا کی اجائے تو تو خدا کی پناہ مانگیں کہ وہ ہر شے کا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔جو لوگ صاحبان تقویٰ ہیں جب خدا کی  طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں ۔اور مشرکین کے برادران شیاطین انہیں گمراہی میں کھینچ رہے ہیں اور اس میں کوئی کاتاہی نہیں کرتے ہیں ۔

پھر انہوں نے مجھ سے فرمایا :  آرام کرو  اور خود کو گرفتار نہ کرو ۔ خدا سے میرے اور اپنے لئے مغفرت طلب کرو ۔ اگر تم ہم سے مدد کا تقاضا کرو تو ہم تمہاری مدد کریں گے ، اور اگر تم عطا و بخشش کے طلبگار ہو  تو ہم تمہیں عطا کریں گے  ، اور اگر تمہیں رہنمائی کی ضرورت ہو تو ہم تمہارے رہنمائی کریں گے ۔

امام حسین علیہ السلام کی باتوں نے مجھے بدل کر رکھ دیا  اور آپ کی باتیں مجھ پر اس طرح سے اثر انداز ہوئیں کہ میرے چہرے پر ندامت اور شرمندگی کے آثار نمایاں ہو گئے  اور امام حسین علیہ السلام نے فہم و فراست سے ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے فرمایا :

«لاَ تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ اليَوْمَ يَغْفِرُ الله لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ» [2]

یوسف نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے ، خدا تمہیں معاف کر دے گاکہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے ۔

امام حسین علیہ السلام نے پوچھا : کیا تم شام کے رہنے والے ہو ؟ عرض کیا : جی ہاں !

فرمایا : ’’شنشنة أعرفها من أخزم ‘‘ ؛ یہ ایک ضرب المثل ہے کہ جس سے امام علیہ السلام نے استفادہ کیا ۔  جس کا ماحصل یہ ہے کہ ہمیں برا بھلا کہنا تو اہل شام کی عادت ہے  ۔ یعنی آپ کے فتنے کی بنیاد  معاویہ ہے  کہ جس نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے  اور اہل بیت علیہم السلام سے بغض اور عداوت کو ان کی عادت بنا دیا ۔ پھر آپ نے فرمایا :

حيّانا اللَّه وإيّاك،انبسط إلينا فى حوائجك وما يعرض لك تجدني عند أفضل ظنّك إن شاء اللَّه‏ تعالى۔

خدا ہمیں اور تمہیں زندگی دے ! اب تمہاری جو بھی مشکل ہے ،ہمیں بتاؤ تا کہ ہم تمہاری مدد کریں ۔ تم ہمیں آرام و اطمینان سے اپنی حاجت بتا سکتے ہو ۔ تم دیکھنا کہ تمہیں تمہاری سوچ سے زیادہ ملے گا ۔ انشاء اللہ ۔

عصام کہتے ہیں : مجھ سے سرزد ہونے والی توہین اور دشنام گوئی کے باوجود امام حسین علیہ السلام کے اخلاق حسنہ اور لطف و محبت کے اظہار کی وجہ سے میں شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا اور شرمندگی کے مارے مجھ پر زمین تنگ ہو گئی تھی ۔  میں چاہتا تھا کہ زمین پھٹے اور میں شرم کے مارے اس میں دھنس جاؤں ۔  میں بہت شرمندہ تھا ۔ میں امام علیہ السلام سے نظریں بھی نہیں ملا سکتا تھا  لہذا میں چپ چاپ وہاں سے نکل گیا اور لوگوں کے ہجوم میں جا کر چھپ گیا  تا کہ آپ مجھےنہ دیکھ سکیں ۔ لیکن اس ملاقات کے بعد  کوئی شخص بھی میرے نزدیک امام ؑ اور ان کے والد گرامی (امیر المؤمنین علی علیہ السلام ) سے زیادہ محبوب نہیں تھا ۔ [3]

عصام بن مصطلق ؛ امیر المؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ہمارے مولا حضرت امام حسین علیہ السلام کا سخت دشمن تھا  لیکن اس کی یہ دشمنی اور عداوت اس کی طینت کی ناپاکی کی وجہ سے نہیں تھی  بلکہ یہ جہالت اور معرفت نہ ہونے کی وجہ سے تھی  کہ جو امام حسین علیہ السلام کی نظرِ لطف و کرم سے بدل گئی  اور پھر وہ اہل بیت علیہم السلام کا بہترین دوست بن گیا ۔

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک دشمن کے ساتھ ایسا سلوک کیا  ، پس  اپنے دوستوں ، محبوں ، زائرین ، اولاد  اور خاندان  میں سے کوئی آپ سے متمسک ہو اور دل کی گہرائیوں سے آپ سےمتوسل ہو تو آپ اس سے کیسے پیش آئیں گے  ؟ !

پس جب وہ ان پر مہر و محبت کی نظر کریں  اور  ان کے نزدیک کرامت کو کامل کر دیتے ہیں اور نیکی و خیرات میں سبقت لیتے ہیں ۔ ہمارے مولا امام محمد باقر علیہ السلام اس آیہ شریفہ ’’فَاسْتبقو الخیرات ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’خیرات ‘‘ سے مراد ولایت ہے ، پس ولایت میں اہل بیت علیہم السلام سب لوگوں پر سبقت رکھتے ہیں ۔

ان کی اسی نظرِ لطف و کرم سے  ہی  خداوند متعال آنحضرت کی محبت کو  اس کے دل کے اعلیٰ مراتب میں قرار دیتا ہے  اور پھر اس کی خواہش ، امام کی خواہش بن جاتی ہے ۔

ہمارے آقا و مولا جواد الائمہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے بعض دوستوں کو لکھا :

أمّا هذه الدّنيا فإنّا فيها مغترفون ولكن من كان هواه هوى صاحبه ودان بدينه فهو معه ‏حيث كان والآخرة دارالقرار. [4]

اور یہ دنیا  کہ جس میں ہم زندہ گزار رہے ہیں ، لیکن جس کی خواہشات اس کے مولا کی خواہشات ہوں اور وہ اسی کے عقیدہ کا پابند ہو  ، پس وہ جہاں کہیں بھی ہو وہ اسی کے ساتھ ہو گا اور آخرت دار القرار ہے ۔

پس حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام سختیوں ، مصیبتوں اور مشکلوں میں اس   کے لئے اسوہ و نمونہ بن جاتے ہیں کہ جس طرح اسماعیل صادق الوعد (جو خود پیغمبر تھے ) بھی امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے اسوۂ و نمونہ قرار دیتے ہیں ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

حضرت اسماعیل کہ جن کے بارے میں خداوند تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ’’ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَاتِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ ‏صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولاً نَبِيّاً ‘‘ [5] اور اپنی کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام ) کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے ۔ وہ اسماعیل ، ابراہیم علیہ السلام کے فرزند نہیں تھے ، بلکہ وہ پیغمبرانِ الٰہی میں سے ایک پیغمبر تھے  کہ جنہیں خدا نے ان کی قوم کی طرف بھیجا اور ان کی قوم نے انہیں پکڑ کر ان کے سر اور چہرے کی کھال کو اتار دیا ۔ خداوند متعال کی طرف سے ان کے پاس ایک فرشہ آیا  اور کہا : خداوند نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے ، آپ جو چاہتے ہیں مجھے حکم دیں تا کہ میں آپ کے حکم پر عمل کروں ۔  فرمایا : لي اسوة بما يصنع بالحسين‏ عليه السلام. [6] میرے لئے امام حسین علیہ السلام اسوہ و نمونہ ہیں کہ جن پر یہ سب بلائیں اور مصائب آئے ، لیکن انہوں نے سب کو قبول کرتے ہوئے برداشت کیا ، میں بھی انہیں قبول کروں گا اور برداشت کروں گا ۔

پس امام حسین علیہ السلام کے دوستوں اور محبوں پر لازم ہے کہ  وہ بھی سختیوں ، مصیبتوں اور  بلاؤں پر صبر  کریں  اور اپنے مولا کی اقتداء کرتے ہوئے خدا پر توکل کریں ۔ 

«وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى الله فَهُوَ حَسْبُهُ ‏إِنَّ الله بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ الله لِكُلِّ شَي‏ءٍ قَدْراً»[7] اور اسی ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا ، خدا اس کے لئے کافی ہے ، بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے ا،اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کر دی ہے ۔


[1] ۔ سورۂ اعراف ، آیات : ۱۹۹ تا ۲۰۲ ۔

[2] ۔ سورۂ یوسف ، آیت : ۹۲

[3] ۔ نفثة المصدور614 ،سفينة البحار : ۲ / 116.   

[4] ۔ 3 بحارالأنوار : ۷۸/ ۳۵۸ .

[5] ۔ سورۂ مریم ، آیت : ۵۴ .

[6] ۔ كامل الزيارات: 137 ح 1، بحار الأنوار : ۴۴ / 227 ح 7. علل الشرايع : ۱ / 78 ح 2.

[7]  ۔ سورۂ طلاق ، آیت : ۳  ۔

 

    ملاحظہ کریں : 1732
    آج کے وزٹر : 33183
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128973528
    تمام وزٹر کی تعداد : 89576753