حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زیارات کے ثواب میں اختلافات کی وجوہات کا بیان

زیارات کے ثواب میں اختلافات کی وجوہات کا بیان

مرحوم شوشتری علیہ الرحمۃ نے خصائص الحسینیہ میں کہا ہے :  بعض روایات میں فرمایا گیا ہے : امام حسین علیہ السلام کی زیارت ایک عمرہ کے برابر ہے  اور بعض روایات میں فرمایا گیا ہے  کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ایک حج ،دو حج  ، دس حج ، بیس حج ، بائیس حج ، اسّی حج، سو حج  اور ایک لاکھ حج کے برابر ہے  ۔ نیز بعض روایات میں فرمایا گیا ہے : زیارت کے لئے جاتے وقت ہر قدم رکھنے کا ثواب ایک حج اور قدم اٹھانے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔  اور بشیر دہان سے نقل ہونے والی روایت  میں فرمایا گیا : تم میں سے اگر کوئی شطِ فرات میں غسل کرنے کے بعد امام حسین علیہ السلام کے حق کی معرفت کے ساتھ آپ کی قبر مطہر کی زیارت کے لئے جائے تو  خداوند کریم اسے ہر قدم رکھنے اور اٹھانے کے بدلے ایک لاکھ مقبول حج اور ایک لاکھ مقبول عمروں کا ثواب عطا کرے گا ۔ نیز بعض روایات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک حج بجا لانے کا ثواب ، بعض میں دو حج ، بعض میں دس حج ،  بعض میں تیس حج ، بعض میں پچاس حج  اور بعض میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ بجا لائے جانے والے سو حج کا ثواب دیا جائے گا ۔

روایات میں یہ  اختلاف  زائرین کے قوتِ ایمان اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، اہل بیت علیہم السلام  اور بالخصوص  امام حسین علیہ السلام کی معرفت میں اختلاف  کی وجہ سے ہے ۔  اور آپ کے فضائل و خصائص کے بارے میں جو یقینی معرفت رکھتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : ’’أنا من حسین ‘‘ ، میں حسین علیہ السلام سے ہوں ۔ [1]

آیت اللہ شیخ جعفر شوستری علیہ الرحمۃ نے زیارات کے ثواب میں جو وجوہات ذکر کی ہیں ؛ وہ دو امر ہیں : 

۱ ۔ معرفت کے لحاظ سے زائرین کے درجات میں اختلاف ۔

۲ ۔   زائرین کو عطا کئے جانے والے اجر و پاداش اور ثواب کے بارے میں ان کے یقین میں اختلاف ۔

اب ہم زائرین کے لئے زیارت  کے ثواب میں برتری کی دیگر وجوہات بیان کرتے ہیں :

امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے ثواب کے بارے میں بعض ایسی روایات وارد ہوئی ہیں کہ جو دیگر زیارات پر اس زیارت کے ثواب کی برتری پر دلالت کرتی ہیں اور ان میں برتری کی وجہ بیان ہوئی ہے ۔  اور بعض روایات میں اس زیارت کی برتری  کی تصریح ہوئی ہے  لیکن ان میں اس زیارت کے ثواب اور برتری کا سبب بننے والی چیز کو بیان نہیں کیا گیا ۔  نیز ممکن ہے کہ زائر اپنی زیارت کے ثواب میں اضافہ کے لئےدو یا دو سے زیادہ وجوہات کو جمع کرے ، مثلاً وہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حق کی معرفت رکھتا ہو  ، زیارت کے لئے پیدل گیا ہو اور اس نے خوف اور خطرے کے عالم میں زیارت کا سفر  طے کیا ہو  ، اس صورت میں یقیناً زیارت کے ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے  اور صرف خداوند متعال  ہی اس زیارت کا اجر عطا کر سکتا ہے  ، ہمارے لئے اس زیارت کے ثواب کو معین کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱ ۔ ممکن ہے کہ زیارت کے ثواب میں برتری اور تفاضل کی وجہ یہ ہو کہ  زائر کے لئے زیارت کا ثواب ہدیہ و عطائے الٰہی ہے  نہ کہ یہ صرف اجر و پاداش ہے ۔  لہذا زائر کے لئے خدا کی طرف سے ہدیہ و عطا مشیتِ الٰہی کے مطابق ہے  ، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے اور عزاداری کرنے کے ثواب میں بھی ایسا ہی ہے  اور اس کے لئے بھی کوئی حد  معین نہیں ہے ۔ ہم امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے  کے اجر کے باب میں اسے تفصیل سے بیان کریں گے ۔

۲ ۔ کبھی زیارت کے ثواب میں اضافہ اور تفاضل زمانہ کی وجہ سے ہوتا ہے  کیونکہ اس میں زمان بھی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ شب قدر یا شب جمعہ یا روز جمعہ کی جانے والی زیارت کا ثواب  ان اوقات سے زیادہ ہے کہ جب کوئی مناسبت نہ ہو ۔

۳ ۔ کبھی زیارت کے ثواب میں تفاضل اور برتری کی کچھ دوسری وجوہات ہوتی ہیں  اور  اس کا زائر کے یقین اور اس کی معرفت کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا  ، یعنی یہ زائر سے مربوط نہیں ہے  ، بلکہ کوئی دوسرا امر ہے کہ جو زیارت کے ثواب میں اضافے اور برتری کے لئے بہت مؤثر ہے ۔ کبھی حرم مطہر میں زائرین کے درمیان اہل بیت اطہار علیہم السلام میں سے کوئی ہستی موجود ہوتی ہے ، یا وہ زائرین کے لئے دعا کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے خداوند متعال تمام زائرین پر نگاہ لطف وکرم کرتا ہے ۔  جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے :

ان فاطمة الزهراءعليها السلام تحضر عند زوّار مولانا أبي عبداللَّه الحسين‏ عليه السلام وتستغفر لهم.

حضرت صدیقۂ کبریٰ فاطمۂ زہراء علیہا السلام ابا عبد الحسین علیہ السلام کے زائرین  کے پاس  جا کر  ان کے لئے طلبِ مغفرت کرتی ہیں ۔

اس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ  امام حسین علیہ السلام کے زائر ہونے کی وجہ سے جس کے لئے سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمۂ زہرا علیہا السلام مغفرت کی دعا کریں   تو اس زیارت کا ثواب  مراتب کے لحاظ سے اس شخص کی زیارت سے زیادہ ہو گا کہ جس کے لئے حضرت  فاطمہ علیہا السلام نے استغفار نہ کیا ہو ۔

۴ ۔  زائرین کے ثواب میں تفاضل و برتری کی ایک اور وجہ کربلا پہنچنے کے لئے راستے میں برداشت کی جانے والی مشکلات اور تکالیف ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیدل جانے والے کے ثواب میں اس امر کی تصریح ہوئی ہے ۔  جو زائرین دور دراز کے علاقوں سے زیارت کے لئے پیدل  چلتے ہیں اور راستے کی سختیوں ، مصیبتوں اور مشکلوں  کو برداشت  کرتے ہیں  ، ان کا اجر و ثواب پیدل نہ جانے والے زائر سے زیادہ ہوتا ہے ۔

یہ واضحات میں سے ہے  کہ تکالیف و مشکلات اور سختیوں کو برداشت کرنا  زائرین کے ثواب میں اضافے کے لئے مؤثر ہے ۔  ہمارے آقا و مولا حضرت امام صادق علیہ السلام سے ابو صامت کی روایت اس مطلب  پر دلالت کرتی ہے ۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ   نے فرمایا :

من أتى قبر الحسين‏ عليه السلام ماشياً كتب اللَّه له بكلّ خطوة ألف حسنة ومحا عنه ألف سيّئة ورفع له ألف درجة...۔ [2]

جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لئے پیدل جائے ، خداوند متعال اس کے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے ہزار گناہ مٹاتا ہے اور اس کے ہزار درجات کو بلند کرتا ہے ۔

اور ہمارے مولا امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام فرماتے ہیں :

ثواب العمل على قدر المشقّة فيه .[3]

عمل کا ثواب اس کی مشقت کے لحاظ سے ہے ۔

ہمارے مولا   امیر المؤمنین علیہ السلام کا یہ فرمان  اس بات پر دلالت کرتاہے کہ ثواب کی مقدار میں عمل کی مشقت مؤثر ہے ۔یعنی سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی  زیارت کی راہ میں جس قدر جسمانی و روحانی مشکلات اور تکالیف زیادہ ہوں  گی ، اس کا ثواب بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا ۔ 

نیز  مولائے کائنات علی علیہ السلام ایک اور روایت میں فرماتے ہیں :

ثواب العمل ثمرة العمل . [4]

عممل کا ثواب ، اس عمل کا ثمرہ ہے ۔

آپ ایک عمل کو فرض کریں کہ جب وہ عمل زیادہ مشقت کے ساتھ انجام پائے گا تو اس کا ثواب بھی زیادہ ہو گا  اور جب عمل کی انجام دہی میں مشقت کم ہو گی تو اس کا ثواب بھی کم ہو گا۔ یہ جسمانی مشکلات  میں ہے اور اگر نفسانی و روحانی مشکلات ہوں  ، مثلاً  خوف و ہراس ہو تو اس صورت میں اس کے ثواب میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔  آپ ’’ خوف کے عالم میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے ثواب ‘‘ کا باب ملاحظہ فرمائیں  کہ جو ہمارے بیان کی تائید کرتاہے ۔ نیز جب خوف و ہراس زیادہ ہو گا تو اس کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہو  گا  ۔ جیسا کہ ہمارے مولا حضرت امام باقر علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں محمد بن مسلم سے فرمایا :

ما كان من هذا أشدّ فالثواب فيه على قدر الخوف...۔

 خوف و ہراس جس قدر زیادہ ہو گا ، زیارت کا ثواب بھی خوف کے اعتبار سے زیادہ ہو گا ۔

ہم نے یہ حدیث ’’ خوف و ہراس  میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جانے والے ‘‘ کے باب میں ذکر کی ہے ۔

۵ ۔ کبھی زیارت کے ثواب میں تفاضل اور برتری زائر کی نیت کی وجہ سے ہے ۔  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ  زیارت کے ثواب میں  نیت کا بڑا عمل دخل ہے ۔  پس زائر کے لئے یہ جان لینا ضروری ہے  کہ  اس کی زیارت کے ثواب میں اس کی نیت بہت مؤثر ہے ۔ پس  اپنی حسنِ نیت کی رعایت کرتے ہوئے اور بہترین نیت سے  اپنی زیارت کے ثواب میں حیرت انگیز اضافہ کر سکتے ہیں ۔

اہل بیت علیہم السلام سے وارد ہونے والی روایات میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے ۔ ہم ان موارد میں سے ایک مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں : جب زائر  یہ نیت کرے کہ وہ اپنی زیارت کا ثواب امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  اور تمام ائمہ اطہار علیہم السلام کی خدمت میں ہدیہ کرے گا  ، تو یہ نیت  اس بات کا باعث بنے گی کہ زائر کو  اس کی زیارت کے ثواب سے زیادہ ثواب دیا جائے ۔ پس یوں اس کی زیارت  زیادہ ثواب کا باعث بنے گی ۔

اس سے پہلے ہم نے یہ بیان کیا کہ ہمارے آقا و مولا حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب عطا اور بخشش الٰہی ہے  اور جس شخص کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنی زیارت کا ثواب امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرے گا ، وہ (یقیناً ) اس عطا کا مستحق قرار پائے گا ۔ پس اس کی زیارت نورٌ علی نور ہو جائے گی  اور اس کا ثواب  عطا پر عطا ہو گا ۔ ہمارے مولا صاحب جود و کرم امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام فرماتے ہیں :

على قدر النيّة تكون من اللَّه العطيّة . [5]

عطاء الٰہی ؛ نیت کی مقدار کے برابر  ہی ہے ۔

پس اس بناء پر اس نیت سے ہمارے مولا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت  نورٌ علی نور  اور اس کا ثواب عطا پر عطا ہو گا ۔  خداوند تبارک و تعالیٰ ہمیں ائمہ اطہار علیہم السلام کے طفیل دنیا و آخرت میں امام حسین علیہ السلام  کی زیارت  نصیب فرمائے ۔

کیونکہ یہ صحیح ہے بلکہ بہتر ہے کہ زیارت کا  ثواب پیغمبر اکرم  ﷺ یا ائمہ اطہار علیہم السلام میں سے کسی ایک کی خدمت میں ہدیہ کیا جائے ۔

شیخ نے اپنی سند سے داؤد صرمی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے عرض کیا : میں نے آپ کے جد بزرگوار کی زیارت  کی ہے اور اس کا ثواب آپ کے لئے قرار دیا ۔ امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا :

لك من اللَّه أجر وثواب عظيم ومنّا المحمدة ۔ [6]

خدا کی طرف سے تمہارے لئے عظیم اجر و ثواب اور ہماری طرف سے تمہارے لئے تعریف و تمجید ہے ۔

اس بناء پر دورِ حاضر میں ہمارے آقا و مولا حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہماری نظروں سے پنہاں ہیں  اور یہ آپ کے ظہور کا زمانہ نہیں ہے  جس کی وجہ سے آپ  کے محبوں  اور چاہنے والوں  کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جب چاہیں آپ کے وجود مقدس سے تعلق رکھنے والے مقدس مقامات  جیسے سرداب مقدس ، مسجد کوفہ ، مسجد سہلہ اور مسجد جمکران سے مشرف ہوں  ، لہذا وہ آپ کی خدمت میں اماکن مقدسہ کی زیارت کا ثواب ہدیہ کرے کے اس نقصان کی تلافی کر سکتے ہیں ۔

نیز یوسف زہراء امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں ان مقدس مقامات کی زیارت کا ثواب  ہدیہ کر کے پروردگار عالم کا تقرب اور عنایات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں ۔

اب تک محبانِ اہل بیت علیہم السلام میں سے کئی افراد کو سرداب مقدس اور دیگر مقدس مقامات پر امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی عنایات حاصل ہوئی ہیں اور  ان کو آپ کا لطف و کرم حاصل ہوا  ہے ۔ہم ان میں سے  کچھ کو اس کتاب میں ذکر کریں گے ۔ [7]



[1]  ۔ الخصائص الحسینیہ : ص ۱۴۹.

[2]  ۔  كامل الزيارات : 254 .

[3]  ۔ شرح غرر الحكم و درر الكلم : ۳/329.

[4]  ۔  شرح غرر الحكم و درر الكلم : ۳/3۵۳.

[5]  ۔ تصنيف غرر الحكم: 92.

[6] ۔ مفتاح الجنّات : ۱/531.

[7]  ۔ صحیفۂ مہدیہ : ۳۶۴ .

 

    ملاحظہ کریں : 1772
    آج کے وزٹر : 20066
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128947297
    تمام وزٹر کی تعداد : 89563636