حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زیارت حسین علیہ السلام میں کتنی تأخیر کرنا جائز ہے ؟

زیارت حسین علیہ السلام میں کتنی تأخیر کرنا جائز ہے ؟

صفوان جمّال کہتے ہیں : ہم مدینہ کے راستے سے مکہ کے قصد سے جا رہے تھے میں نے حضرت  امام صادق علیہ السلام کو  پریشان ، غمگین  اور شکستہ حال دیکھ کر آپ سے اس کی وجہ دریافت کی  تو آپ نے فرمایا : جو میں سن رہا ہوں ، اگر  وہ تم بھی سن رہے ہوتے تو یہ سوال نہ کرتے ۔

میں نے عرض کیا : آپ کیا سن رہے ہیں ؟ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

ابتهال الملائكة إلى‏ اللَّه على قتلة أميرالمؤمنين‏ عليه السلام وعلى قتلة الحسين‏عليه السلام، ونوح الجن عليهما، وبكاء الملائكة الّذين حولهم وشدّة حزنهم، فمن يتهنأ مع هذا بطعام أو شراب أو نوم .

میں ملائکہ کی گریہ و زاری  (کی آواز) ،اور امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر ان کی نفرین  سن رہا ہوں ۔ نیز میں جنّات کا گریہ و شیون اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے گرد فرشتوں  کاگریہ و شیون سن رہا ہوں ۔ اور کون ہے جو ایسی آوازیں سننے کے باوجود کھا، پی اور سو سکتا ہو ؟

 میں نے عرض کیا : جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کے بعد واپس آ جائے  تو وہ  کس وقت دوبارہ زیارت کے لئے رجوع کرے اور کتنے دن کے بعد دوبارہ  زیارت کے لئے جائے  اور  کتنی مدت تک لوگوں کے لئے آپ کی زیارت کو ترک کرنا جائز ہے ؟ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

أما القريب فلا أقل من شهر، وأما بعيد الدار ففي كلّ ثلاث سنين .  فما جازالثلاث سنين فقد عق رسول اللَّه ‏صلى الله عليه وآله وسلم وقطع رحمه الا من علة، ولو يعلم زائر الحسين ‏عليه السلام ما يدخل على رسول اللَّه وما يصل إليه من الفرح وإلى أميرالمؤمنين وإلى ‏فاطمة والأئمّة والشهداء منا أهل البيت وما ينقلب به من دعائهم له وما له في ذلك من‏الثواب في العاجل والاجل والمذخور له عنداللَّه، لاحب أن يكون ماثم داره ما بقي.وان زائره ليخرج من رحله فما يقع فيؤه على شي‏ء الا دعا له، فاذا وقعت الشمس عليه ‏اكلت ذنوبه كما تأكل النار الحطب، وما تبقي الشمس عليه من ذنوبه شيئا فينصرف وماعليه ذنب وقد رفع له من الدرجات ما لا يناله المتشحط بدمه في سبيل اللَّه، ويوكل به‏ملك يقوم مقامه ويستغفر له حتّى يرجع إلى الزيارة أو يمضي ثلاث سنين أو يموت .[1]

جو لوگ نزدیک ہیں ، انہیں ایک مہینے سے زیادہ مدت تک آپ کی زیارت ترک نہیں کرنی چاہئے  لیکن جو لوگ دور ہیں ، انہیں تین سال میں ایک مرتبہ زیارت کے لئے جانا چاہئے ۔ پس  اگر تین سال گزر جائیں  اور (امام حسین علیہ السلام کی ) زیارت کے لئے نہ جائے تو اس نے رسول خدا ﷺ کی نافرمانی کی  اور وہ آنحضرت سے عاق ہو گیا  اور  اس نے آپ سے قطع رحم کیا  ، مگر یہ کہ (زیارت کو ترک کرنے کی ) کوئی وجہ اور عذر ہو ۔ اگر امام حسین علیہ السلام کا زائر یہ جان لے کہ اس کی زیارت سے رسول خدا ﷺ کے قلب مبارک ، امیر المؤمنین علیہ السلام ، حضرت فاطمہ علیہا السلام ، ائمہ علیہم السلام اور ہم اہل بیت علیہم السلام کے شہداء  کے قلوب کو کتنا سرور ملتا ہے  ، ان (ہستیوں ) کی دعاؤں سے کس قدر بہرہ مند ہوتا ہے،  اسے کس قدر دنیاوی و اخروی اجر و پاداش نصیب ہوتی ہے  اور خدا کے نزدیک  اس کے لئے کتنا ثواب ذخیرہ  ہوتا ہے  تو وہ یہ چاہتا کہ اس کا گھر ہی وہاں ہوتا  اور وہ جب تک زندہ ہے ، تب تک وہاں سے جدا نہ ہو۔ جب امام حسین علیہ السلام کا زائر اپنے گھر سے خارج ہوتا ہے تو ہر وہ چیز  اس کے لئے دعا کرتی ہے کہ جس پر بھی اس کا سایہ پڑتا ہے ، اور جب اس پر سورج پڑتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو کھا جاتاہے  کہ جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے  اور سورج اس کے گناہوں میں سے کسی چیز کو باقی نہیں رہنے دیتا ۔ پس جب وہ (زیارت کے بعد ) واپس لوٹتا ہے  تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا  اور مرتبہ کے لحاظ سے  اس قدر بلند ہو جاتا ہے کہ  راہِ خدا میں اپنے خون میں غلطاں ہونے والا بھی اس مقام و مرتبہ تک نہیں  پہنچ سکتا ۔خداوند ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہے کہ وہ اس کا قائم مقام ہو اور اس کے لئے مغفرت طلب کرے  تا کہ وہ دوبارہ زیارت کے لئے آئے  یا اس کی زیارت کو تین سال گذر جائیں  اور یا دنیا سے چلا جائے ۔

اس روایت میں اہم نکات ہیں  کہ جن کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے : ان نکات میں سے ایک یہ ہے کہ رسول خدا ﷺ ، امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام ، سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا ، ائمہ اطہار علیہم السلام اور شہداء امام حسین علیہ السلام کے زائر کے لئے دعا کرتے ہیں  اور وہ ان ہستیوں کی دعا سے بالکل دگرگوں ہو جاتا ہے  ۔

۲۔ علی بن میمون صائغ نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ  نے فرمایا :

يا علي بلغني ان قوماً من شيعتنا يمر باحدهم السنة والسنتان لا يزورون الحسين‏ عليه السلام.

اے علی ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ہمارے کچھ شیعہ ایک یا دو سال گزرنے کے بعد بھی  امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نہیں جاتے ؟

میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ! میں ایسے کئی افراد کو جانتا ہوں کہ جو ایسا کرتے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

أما واللَّه لحظّهم أخطأوا وعن‏ثواب اللَّه زاغوا وعن جوار محمّد صلى الله عليه وآله وسلم تباعدوا.

انہیں جو فائدہ پہنچنا چاہئے وہ انہیں نہیں مل رہا اور وہ ثواب و اجر الٰہی سے محروم ہیں  اور حضرت محمد ﷺ کے جوار سے دور ہیں ۔

میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ! کتنے عرصے میں زیارت کے لئے جانا چاہئے؟ آپ نے فرمایا :

ياعلي ان قدرت أن تزوره في كلّ شهر فافعل.

اے  علی ! اگر توانائی رکھتے ہو تو ہر مہینے آنحضرت کی زیارت کے لئے جاؤ ۔

میں نے عرض کیا : میں ایسا نہیں کر سکتا  کیونکہ میں ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور لوگوں کا کام میرے  ہاتھ میں ہوتا ہے  اور میں حتی ایک دن بھی چھٹی نہیں کر سکتا ۔ امام  علیہ السلام نے فرمایا :

أنت في عذر ومن كان يعمل بيده؛ وإنّما عنيت من لا يعمل بيده‏ممّن أن خرج في كلّ جمعة هان ذلك عليه، أما انّه ما له عنداللَّه من عذر ولا عند رسوله ‏من عذر يوم القيامة.

تم اور تم جیسے ہاتھ سے کام کرنے والے افراد عذر رکھتے ہیں اور میری ایسے افراد ہیں کہ جو ایسے کام نہیں کرتے  اور اگر وہ ہر ہفتے زیارت کے لئے جانا چاہیں تو ان کے لئے یہ آسان اور سہل ہے ۔ ایسے افراد کے پاس قیامت کے دن خدا اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے کوئی عذر نہیں ہو گا ۔

میں نے عرض کیا :اگر کسی کو اپنی طرف سے (یعنی اپنی نیابت میں ) زیارت کے لئے بھیج دیا جائے تو کیا یہ جائز ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا :

نعم وخروجه بنفسه أعظم أجراً وخيراً له ‏عند ربّه، يراه ربّه ساهر اللّيل له تعب النّهار، ينظر اللَّه إليه نظرة توجب له الفردوس‏ الأعلى مع محمّد وأهل بيته، فتنافسوا في ذلك وكونوا من أهله. [2]

جی ہاں ! یہ جائز ہے  لیکن اگر وہ خود (زیارت کے لئے ) جائے تو یقیناً خدا کے نزدیک اس کا زیادہ اجر و ثواب ہو گا   اور جب اس کا پروردگار دیکھے گا کہ وہ راتوں کو بیدار  ہے اور دن زحمت و مشقت میں گزار رہا ہے تو  وہ اس پر نظر  (کرم) کرے گا اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے ہمراہ  اس پر  فردوسِ اعلٰی اور بہشت بریں  واجب کر دے گا ۔ پس اس امر میں ایک دوسرے سے رقابت کرو  اور مقابلہ کرو  اور ان کے اہل میں سے ہو جاؤ ۔

اس روایت سے جو نکتہ استفادہ کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ  اگر کسی وجہ سے مال و دولت رکھنے والے حضرات کے لئے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا ممکن نہ ہو تو  وہ کسی اور کو اپنی نیابت میں زیارت کے لئے بھیجیں ، جیسا کہ راوی نے امام  علیہ السلام سے سوال کیا کہ  اس کے لئے کسی کو اپنی نیابت میں زیارت کے لئے بھیجنا جائز ہے  ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! یہ جائز ہے ۔

۳۔ ابو جارود نے امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل  کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

تمہارے اور حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے درمیان کتنا  فاصلہ ہے ؟ میں نے عرض کیا : اگر سواری پر جائیں تو ایک دن اور اگر پیدل جائیں تو  ایک دن کے بعد دوسرے دن کا بھی کچھ حصہ ۔  امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

کیا  تم ہر جمعہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جاتے ہو ؟

میں نے عرض کیا : نہیں ! لیکن دو جمعہ کے دوران ایک بار [3] امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جاتا ہوں ۔  امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :

تم کتنی جفا کرتے ہو ، اگر امام حسین علیہ السلام کی قبر ہمارے نزدیک ہوتی تو ہم یقیناً ان کی طرف ہجرت کر لیتے۔ [4]

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ  کربلا کو اپنے وطن کے طور پر اختیار کرنا جائز ہے  بلکہ یہ اس کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے ۔



[1] ۔ كامل الزيارات: 495 ح17، بحار الأنوار : ۱۰۱/1۴ ح14، المستدرك: ۱۰/343.

[2]  ۔ كامل الزيارات: 492 ح11، بحار الأنوار: ۱۰۱/1۲ ح1، المستدرك: ۱۰/263.

[3] ۔ کامل الزیارات میں کبھی کا لفظ ذکر ہوا  ہے ۔

[4] ۔ ثواب الأعمال : ۸۸ .

 

    ملاحظہ کریں : 1747
    آج کے وزٹر : 42429
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129090000
    تمام وزٹر کی تعداد : 89635008