حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیدل جانے والے کا ثواب

امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیدل جانے والے کا ثواب

ابو صامت کہتے ہیں : میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

’’ من أتى قبر الحسين‏عليه السلام ماشياً كتب اللَّه له بكلّ خطوة ألف حسنة ومحا عنه ألف سيّئة ورفع له ألف درجة فإذا أتيت الفرات فاغتسل وعلّق نعليك وامش حافيا وامش مشي العبد الذّليل فإذا أتيت باب الحائر فكبّر اللَّه أربعاً ثمّ امش قليلاً ثمّ كبّر أربعاً، ثمّ ائت رأسه فقف‏عليه فكبّر أربعاً وصلّ عنده واسأل اللَّه حاجتك ‘‘ [1]، [2]

جو شخص بھی حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیدل جائے ، خداوند اس کے لئے ہر قدم کے بدلے ہزار نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے نامۂ اعمال  سے ہزار گناہوں کو مٹا دیتا ہے  اور اس کے مقام و مرتبہ کو ہزار درجہ بلند کرتا ہے ۔

جب فرات پر پہنچو تو غسل کرو اور پھر اپنے جوتے اپنے کندھے  پر آویزاں کرو اور بندۂ ذلیل کی طرح پا برہنہ  جاؤ  اور جب حائر (حسینی )  کے دروازے پر پہنچو تو چار مرتبہ تکبیر کہو اور پھر چند قدم چلو اور پھر چار مرتبہ تکبیر کہو  اور پھر امام علیہ السلام کے بالا سر کی طرف جاؤ اور وہاں رک جاؤ اور چار مرتبہ تکبیر کہو  اور وہاں نماز پڑھو  اور خداوند متعال سے اپنی حاجتیں طلب کرو  ۔



[1]  ۔ كامل الزيارات: ۲۵۴ ح۲ ۔

[2]  ۔                                                              اخبار من بلغ

 کلینی نے کتاب کافی میں اپنی سند سے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :’’من سمع شیئاً من الثواب علی شیء فصنعہ ، کان لہ ، و ان لم یکن علی ما بلغہ ‘‘ یعنی ؛  جو شخص کسی کام کو انجام دینے کے ثواب کے بارے میں سنے اور پھر اس کام کو انجام دے ، تو اسے وہی ثواب عطا کیا جاتا ہے ، اگرچہ واقع میں اس طرح نہ ہو کہ جیسے اس نے سنا تھا ۔(کافی : ۲/۸۷ ، ح۳)

نیز انہوں نے اپنی سند سے محمد بن مروان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے امام باقر علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ’’من بلغہ ثواب من اللہ علی عمل فعمل ذلک العمل التماس ذلک الثواب ، اُوتیہ ، و ان لم یکن الحدیث کما بلغہ ‘‘کسی شخص تک خدا کی طرف سے کسی عمل کو انجام دینے کی وجہ سے ثواب پہنچے اور وہ اسی ثواب کی امید میں وہ عمل انجام دے  تو اسے وہی ثواب عطا کیا جائے گا ، اگرچہ حدیث اس طرح سے نہ ہو کہ جیسے اس تک پہنچی ہے ۔

ان دو روایات اور ان جیسی دوسری روایات کو ’’اخبار من بلغ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جب وہ عمل کتاب و سنت میں مستحب شمار کیا گیا ہو لیکن اسے ملنے والا دنیوی یا اخروی ثواب ذکر نہ ہوا ہو ، اور اگر کوئی عمل کتاب و سنت کی رو سے مستحب شمار نہ کیا گیا ہو  تو اسے انجام دینے کی وجہ سے اسے ہرگز اجر و ثواب نہیں دیا جائے گا ۔ اگر اس کے لئے کوئی اجر اور ثواب نہ ہو ۔ اسی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : ’’لا قول الّا بعمل و لا قول و لا عمل الا بنیہ و لا عمل و لا نیۃ الا باصابۃ السنۃ ‘‘(اصول  کافی : ۲/۸۷ ، ح ۱ اور ۲ )انسان کے قول کا عمل کے سوا کوئی اجر و ثواب نہیں ہے ، اور نیت کے سوا اس کے قول و عمل کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہے  اور اس کے قول ، عمل اور نیت کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہے مگر یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔  

 

    ملاحظہ کریں : 1797
    آج کے وزٹر : 4631
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129014410
    تمام وزٹر کی تعداد : 89597209