حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب

 ۱- ابن قولویہ علیہ الرحمۃ نے کتاب «كامل الزيارات» میں بشير الدّهّان سے اور انہوں نے حضرت امام صادق‏ عليه السلام روایت  کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

إنّ الرّجل ليخرج إلى قبر الحسين‏ عليه السلام فله إذا خرج من أهله بأوّل خطوة مغفرة ذنوبه ثمّ لايزال يقدّس بكلّ خطوة حتّى يأتيه فإذا أتاه ناجاه اللَّه تعالى فقال عبدي سلني أعطك‏ادعني أجبك اطلب منّي أعطك سلني حاجة أقضها لك (قال)  و قال أبو عبد اللَّه‏ عليه السلام .

وحقٌّ على اللَّه تعالى أن يعطي ما بذل. [1]

« جو شخص حضرت امام حسین علیہ السّلام کی قبر کی زیارت کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور جب وہ اپنے اہل و عیال سے جدا ہو کر پہلا قدم بڑھاتا ہے تو اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور پھر ہر قدم کے ساتھ وہ مزید پاک و پاکیزہ ہوتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ قبرِ حسین علیہ السلام تک پہنچ جاتا ہے ،  اور جب وہ وہاں پہنچ جائے  تو خداوند متعال اس سے فرماتا ہے : اے میرے بندے ! مجھ سے مانگو تا کہ میں تمہیں عطا کروں ، مجھے پکارو تا کہ میں تمہیں جواب دوں ، مجھ سے طلب کرو تا کہ میں تمہیں عنایت کروں ، مجھ سے اپنی حاجت مانگو تا کہ میں تمہاری حاجت روا کروں»۔

(راوی کہتا ہے ) امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : «اور خداوند متعال پر یہ حق ثابت ہے کہ جو کچھ خرچ کیا ہے ، اسے عطا فرمائے» ۔

۲- کتاب «كامل الزيارات» میں ہی  مالك بن عطيَّة نے حضرت امام صادق ‏عليه السلام نے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

من زار الحسين‏ عليه السلام كتب اللَّه له ثمانين حجّة مبرورة ۔ [2]

جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے ، خداوند اس کے لئے اسّی (۸۰) مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے ۔

3-شیخ صدوق رحمۃ اللہ نے  کتاب  «ثواب الأعمال» میں أبي بصير سے اور انہوں نے  امام  محمد باقر عليه السلام نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

أربعة آلاف ملك شعث غبر يبكون الحسين‏ عليه السلام إلى أن تقوم الساعة فلا يأتيه أحد إلاّ استقبلوه ولا يرجع إلا شيّعوه ولا يمرض إلا عادوه ولا يموت إلا شهدوه. [3]

قیامت تک چار ہزار فرشتے پریشان بالوں اور غبار آلود حالت میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں گے  اور یہ آپ کی زیارت کے لئے آنے والے کا استقبال کریں گے اور اس کے واپس جانے تک یہ اس کے ساتھ رہیں گے ، اور جب وہ (زائر) بیمار ہو جائے تو یہ اس کی عیادت کے لئے جائیں گے اور (اگر)وہ مر جائے تو یہ اس کے مراسم (تکفین و تدفین) میں حاضر ہوں گے ۔

4-  ابن قولویہ رحمۃ اللہ نے « كامل الزيارات» میں ہشام بن سالم سے اور انہوں نے امام صادق ‏عليه السلام سے ایک طولانی حديث نقل کی ہے کہ ایک شخص حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور  عرض کیا : یابن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) ! کیا ہم آپ کے بابا (امام حسین علیہ السلام ) کی زیارت کر سکتے ہیں ؟

آپ نے فرمایا : ہاں ! زیارت کے علاوہ ان کی قبر کے نزدیک نماز بھی پڑھی جائے ،البتہ ان کی قبر کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور ان کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھی جائے (یعنی قبر کی طرف پشت کر کے نماز ادا نہ کی جائے )

اس شخص نے عرض کیا : جو شخص ان کی زیارت کرے ، اسے کیا اجر و ثواب ملے گا ؟

آپ نے فرمایا : اس کا اجر ؛ بہشت ہے ، لیکن اس کی یہ شرط ہے کہ وہ آپ کو امام مانتا ہو اور آپ کی پیروی و اتباع کرتا ہو ۔

اس شخص نے عرض کیا : اگر کوئی ان سے بے اعتنائی کرتے ہوئے زیارت کو ترک کر دے تو اس کی کیا سزا ہو گی ؟

آپ نے فرمایا : اسے روز حسرت ( یعنی روزِ قیامت ) حسرت ہو گی ۔

اس نے عرض کیا : ان کے پاس قیام کرنے والے کو کیا ملے گا ؟

آپ نے فرمایا : ہر دن کے بدلے ہزار مہینہ کا ثواب ملے گا ۔

عرض کیا : جو آپ کی زیارت پر جانے کے لئے خرچ کرے اور آپ کی قبر مطہر کے پاس خرچ کرے ، اسے کیا اجر ملے گا ؟

فرمایا : اسے خرچ کئے گئے ہر درہم کے مقابلے میں ہزار درہم ملیں گے ۔

عرض كیا : جو اس سفر کے دوران وفات پا جائے ، اس کا کیا حکم ہے ؟

آپ  نے فرمایا : فرشتے اسے لے جائیں گے اور اس کے لئے جنت سے حنوط اور لباس لے کر آٗئیں گے اور اسے کفن پہنائے جانے کے بعد اس پر نماز پڑھیں گے ، اور فرشتے اسے پہنائے گئے کفن کے اوپر ایک اور کفن پہنائیں گے اور اس کے نیچے ریحان کا  بستر بچھایا جائے گا اور زمین کو اس کے سامنے سے تین میل دور کر دیا جائے اور اسی طرح اس کے پچھلی جانب اور اسی طرح اس کے سر اور پاؤں کی جانب سے بھی زمین کو تین تین میل دور ڈھکیل دیا جائے گا ۔ اور جنت کی طرف سے اس کی قبر کی جانب ایک دروازہ کھول دیا جائے گا ۔ اس کی قبر میں بہشت کے پھولوں کی خوشبو اور نسیم داخل ہو گی اور قیامت تک  یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔

وہ شخص (راوی) کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا : ان کی قبر کے پاس نماز ادا کرنے والے کو کیا اجر و ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : جو شخص آپ کی قبر مطہر کے پاس دو رکعت نماز پڑھے تو وہ خداوند سے جس چیز کی درخواست کرے گا ، خداوند متعال اسے وہ چیز عطا فرمائے گا ۔

میں ( راوی )  نے عرض کیا : آبِ فرات سے غسل کرنے کے بعد آنحضرت کی زیارت کرنے والے کے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟

آپ نے فرمایا : جو آب فرات سے غسل کرتے وقت آپ کی زیارت کاارادہ رکھتا ہو تو اس کے تمام گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس کی مثال ایسے ہی ہو گی  جیسے وہ ابھی شکم مادر سے پیدا ہوا ہو ۔

وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا : اگر کسی نے ان کی زیارت کی تیاری کی ہو لیکن کوئی مشکل درپیش آنے کی وجہ سے زیارت کے لئے نہ جا پائے تو اس کا کیا اجر ہے ؟

آپ نے فرمایا : اس نے ( زیارت کے لئے ) جو درہم بھی خرچ کیا ہے ، خداوند اسے ہر درہم کے بدلے کوہِ اُحد کے برابر نیکیاں عطا فرمائے گا اور اسے کئی گنا بڑھا دے گا ۔ اور اس پر قطعی طور پر نازل ہونے والی بلاؤں اور مصیبتوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کے مال کی حفاظت کرے گا۔

اس شخص کا بیان ہے ہے کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا : اگر  آپ کے پاس قتل ہو جائے ؛ مثلاً کوئی ظالم و جابر سلطان و حکمران اسے قتل کر دے  ، تو اسے کیا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے خداوند متعال اس کے تمام گناہ بخش دے گا اور وہ جس طینت (مٹی) سے خلق ہوا ؛ فرشتے اسے غسل دے کر اس طرح سے خالص کریں گے کہ جس طرح انبیاء و مخلصین کو پاک و خالص کیا  جاتا ہے اور اس کی مٹی میں اہل کفر کی مٹی سے ملئے گئے اجناس دور اور پاک ہو جائیں گے ۔ اور اس کے قلب کو دھو کر اس کے سینہ کو چاک کیا جائے گا اور اسے ایمان سے بھر دیا جائے گا اور وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ تمام قلبی اور بدنی ملاوٹوں سے پاک اور منزہ ہو جائے گا اور اس کے لئے اس کے اہل خانہ اور ایک ہزار برادرانِ ایمانی کی شفاعت مقرر کی جائے گی ، جبرئیل ، ملک الموت اور تمام فرشتے اس کی نماز جنازہ کی سرپرستی کریں گے اور بہشت سے اس کے لئے کفن اور حنوط لے کر آئیں گے اور اس کی قبر کو وسعت دے کر اس کی قبر میں چراغ جلائے جائیں گے اور اس کے لئے جنت میں ایک دروازہ کھول دیا جائے گا ۔ فرشتے اس کے لئے جنت سے تازہ اشیاء اور تحائف لے کر آئیں گے  اور پھر اٹھارہ دن کے بعد اسے حظیره القدس (بہشت) میں اٹھایا جائے گا اور وہاں وہ اولیاء خدا کے ساتھ رہے گا ۔ اور جب صور پھونکی جائے کہ جس کی وجہ سے کوئی چیز باقی نہیں رہے اور جب دوسری صور پھونکی جائے گی تو اسے قبر سے باہر لایا جائے گا اور یہ وہ پہلا شخص ہو گا کہ جس سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) ، امیر المؤمنین (علیہ السلام) اور اوصیاء (علیہم السلام ) مصافحہ کریں گے اور اسے بشارت دیتے ہوئے کہیں گے : ہمارے ساتھ رہو اور پھر اسے حوض کوثر کے پاس لائیں گے اور وہ اس سے سیراب ہو گا اور جسے چاہے گا سیراب کرے گا ۔

وہ شخص (راوی) کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا : جس شخص کو آپ کی زیارت کی وجہ سے قید کر دیا جائے ؛ اس کے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟

آپ نے فرمایا : وہ جتنے دن بھی قید میں رہا اور غمگین رہا ؛ اس کے ہر دن کے بدلے فرحت اور مسرت مدنظر رکھی جائے گی کہ جو قیامت تک جاری رہے گی اور اگر اسے قید کرنے کے بعد ماریں تو اسے لگنے والی ہر ضربت کے مقابلے میں اسے ایک حور دی جائے گی اور اس کے جسم کو ملنے والے ہر درد کے مقابلے میں اسے ہزار ہزار نیکیاں دی جائیں گے اور اس کے ہزار ہزار گناہ بخش دیئے جائیں گے ، اور اس کے عوض ہزار ہزار درجے بلند ہوں گے اور پھر وہ حساب ختم ہونے تک رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ندیموں میں سے محسوب ہو گا ۔ اور پھر اس سے فرشتگانِ حاملین عرش مصافحہ کریں گے اور اس سے کہیں گے : تم جو چاہتے ہو ، ؛ مانگو ۔ پھر اسے مارنے والے کو حساب کے لئے حاضر کیا جائے گا اور اس سے کوئی سوال کئے بغیر اور اس کا حساب لئے بغیر ہی اسے اس کے بازؤں سے پکڑ کر ایک فرشتے کے سامنے پیش کیا جائے گا جو اسے حميم (جہنم کا گرم پانی ) اور غسلين (جہنمیوں کے بدن سے نکلنے والا گندہ خون اور پیپ) پلائے گا اور پھر وہ اسے آگ کے دہکتے ہوئے ٹکڑے پر رکھ کر کہیں گے : تم نے جس شخص کو مارا ہے ، اس فعل کے بدلے یہ دائمی عذاب کا مزہ چکھو اور تم نے جس کو مارا تھا وہ خدا اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کا مہمان تھا اور جس کو مارا گیا تھا ( یعنی زائر حسین علیہ السلام ) ، اسے جہنم کے دروازے کے پاس لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا : جس نے تم کو مارا تھا ، اسے دیکھو اور اسے ملنے والی سزا کو مشاہدہ کرو ، کیا اب تمہارا دل ٹھنڈا ہوا ہے ؟ اسے تمہارے قصاص کی وجہ سے یہ عذاب ملا ہے ۔ پس وہ کہے گا : حمد خدا کے لئے ہے کہ جس نے میری اور اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی اولاد کی نصرت فرمائی ۔ [4]

 


[1]  ۔  المزار مفيد: ۳۱، كامل الزيارات: ۲۵۳ح ۲.

[2]  ۔  كامل الزيارات : ۳۰۴ ح ۸، بحار الأنوار : ۴۲/۱۰۱ ح ۷۸،  مستدرك الوسائل :۱۰/ ۲۷۴ح۲۶ ،ثواب الأعمال:۹۳ , الوسائل:۱۰/۳۵۰ح۱۲، بحار الأنوار: ۱۰۱/۳۴ح۳۵.

[3] ۔ ثواب الأعمال : ۸۸ .

[4] ۔ كامل الزيارات: ۲۳۹ ح۲، بحار الأنوار : ۷۸/۱۰۱، المستدرك: ۲۷۹/۱۰.

أتاه رجل فقال له: يابن رسول اللَّه هل يزار والدك، قال: فقال: نعم، ويصلّي عنده، ويصلّي خلفه ولا يتقدم عليه، قال: فما لمن أتاه، قال: الجنّة ان كان ‏يأتم به قال: فما لمن تركه رغبة عنه، قال: الحسرة يوم الحسرة، قال: فما لمن أقام‏عنده، قال: كلّ يوم بألف شهر، قال: فما للمنفق في خروجه إليه والمنفق عنده، قال: درهم بألف درهم.قال: فما لمن مات في سفره إليه، قال: تشيعه الملائكة وتأتيه بالحنوط والكسوة من الجنّة وتصلّي عليه اذ كفّن، وتكفّنه فوق ‏أكفانه وتفرش له الريحان تحته وتدفع الأرض حتّى تصور من بين يديه مسيرة ثلاثة اميال، ومن خلفه مثل ذلك، وعند رأسه مثل ذلك، وعند رجليه مثل ذلك، ويفتح له‏ باب من الجنّة إلى قبره، ويدخل عليه روحها وريحانها حتّى تقوم الساعة.

قلت: فما لمن صلّى عنده، قال: من صلّى عنده ركعتين لم يسأل اللَّه تعالى شيئاً إلاّ أعطاه إيّاه، قلت: فما لمن اغتسل من‏ماء الفرات ثمّ أتاه، قال: إذا اغتسل من ماء الفرات وهو يريده تساقطت عنه خطاياه كيوم ولدته أمّه، قال: قلت: فما لمن يجهز إليه ولم يخرج لعلة تصيبه، قال: يعطيه اللَّه بكلّ‏ درهم أنفقه مثل اُحد من الحسنات ويخلف عليه أضعاف ما أنفقه، ويصرف عنه من البلاء ممّا قد نزل ليصيبه ويدفع عنه ويحفظ في ماله.

قال: قلت: فما لمن قتل عنده جار عليه سلطان فقتله، قال: أوّل قطرة من دمه يغفر له بها كلّ خطيئة وتغسل طينته الّتي خلق منها الملائكة حتّى‏ تخلص كما خلصت الأنبياء المخلصين، ويذهب عنها ما كان خالطها من أجناس طين‏أهل الكفر، ويغسل قلبه ويشرح صدره ويملأ ايماناً، فيلقى اللَّه وهو مخلص من كلّ ماتخالطه الأبدان والقلوب، ويكتب له شفاعة في أهل بيته وألف من أخوانه، وتولّى الصلاةعليه الملائكة مع جبرئيل وملك الموت، ويؤتى بكفنه وحنوطه من الجنّة، ويوسّع قبره‏عليه، ويوضع له مصابيح في قبره، ويفتح له باب من الجنّة، وتأتيه الملائكة بالطرف من ‏الجنّة.

ويرفع بعد ثمانية عشر يوماً إلى حظيرة القدس، فلا يزال فيها مع أولياء اللَّه حتّى تصيبه ‏النفخة الّتي لا تبقي شيئاً، فإذا كانت النفخة الثانية وخرج من قبره كان أوّل من يصافحه ‏رسول اللَّه ‏صلى الله عليه وآله وسلم وأميرالمؤمنين‏ عليه السلام والأوصياء، ويبشرونه ويقولون له: الزمنا، ويقيمونه‏على الحوض فيشرب منه ويسقي من أحب.

قلت: فما لمن حبس في اتيانه، قال: له بكل يوم يحبس ويغتم فرحة إلى يوم القيامة، فان ضرب بعد الحبس في اتيانه كان له‏بكلّ ضربة حوراء، وبكل وجع يدخل على بدنه ألف ألف حسنة، ويمحي بها عنه ألف ألف ‏سيّئة، ويرفع له بها ألف ألف درجة، ويكون من محدّثي رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم حتّى يفرغ من‏ الحساب فيصافحه حملة العرش ويقال له: سل ما أحببت.

ويؤتى بضاربه للحساب، فلا يسأل عن شي‏ء ولا يحتسب بشي‏ء، ويؤخذ بضبعيه حتّى ‏ينتهى به إلى ملك يحبوه ۔ [4] ويتحفه بشربة من الحميم وشربة من الغسلين، ويوضع على‏مقال [4]في النّار، فيقال له: ذق بما قدّمت يداك فيما أتيت إلى هذا الّذي ضربته، وهو وفداللَّه ووفد رسوله، ويؤتى بالمضروب إلى باب جهنّم ويقال له: انظر إلى ضاربك وإلى ما قدلقي فهل شفيت صدرك وقد اقتصّ لك منه، فيقول: الحمد للَّه الّذي انتصر لي ولولدرسوله منه .

 

    ملاحظہ کریں : 1795
    آج کے وزٹر : 25324
    کل کے وزٹر : 49009
    تمام وزٹر کی تعداد : 129055789
    تمام وزٹر کی تعداد : 89617902