حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اشعار کی ترویج اور عیسائیت کی تبلیغ

اشعار کی ترویج اور عیسائیت کی تبلیغ

اہلسنت علماء نے اپنی کتابوں میں جو مطالب ذکر کئے ہیں،ان کی بناء پر یہ قابل غور نکتہ سمجھ میں آتا ہے:شعر و شاعری نے صرف مسلمانوں کو قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث سے ہی دورنہیں کیا، بلکہ وہ  شراب نوشی،فساد،فحاشی اور لوگوں کودین سے دور کرنے کا بھی باعث بنی ۔ نیز ان کی یہ شعر و شاعری لوگوں کو  عیسائیت کی طرف راغب کرنے اور مسلمانوں کوعیسائی بنانے کا بھی سبب بنی ۔[1]

اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معاویہ اور بنی امیہ کے دوسرے حکمرانوں کے دربار میں عیسائی شاعروں کا اتنا احترام کیوں تھا اور انہیں کیوں اتنی اہمیت دی جاتی تھی؟!مسلمانوں کے خلیفہ کے دربار میں کیوں ان کا اتنا بلند مرتبہ تھا؟!یہاں تک کہ کبھی مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بھی ان کا بہت عمل دخل ہوتا تھا!

سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں تھیں۔

ابوزبید(جو ایک شراب خور اور ولید کا ہم پیالہ تھا)عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پرمأمور تھا۔حلانکہ ابوزبیدعیسائی تھااور’’الاستیعاب‘‘کے مطابق یہ عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاةجمع کرنے کے لئے  مأمور تھا۔

اس کام سے عمر نے آنے والے افراد کے لئے راستہ کھول دیاتا کہ وہ عیسائیوں اور دین سے خارج افراد کو حکومتی امور  کی ذمہ داریاں سونپیں ، یہاں تک کہ عثمان کے زمانے میں عیسائیوں کے کئی افراد حکومتی منصب پر فائز تھے۔جب عیسائیوں کو حکومتی باگ ڈور  اور حکومت میں اعلیٰ عہدے ملے  تو وہ اشعار کی ترویج میں لگ گئے تا کہ اس کے ذریعہ قرآن پر سے لوگوں کی توجہ کو کم کیا جا سکے اور یہ وہی چیز تھی کہ جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے سے پیشنگوئی کی تھی۔

انہوں نے شعر کی ترویج کو دستاویز قراردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو شراب نوشی اور دین سے روگردانی کی طرف راغب کرتے تھے اور یہ چیز نہ صرف لوگوں کے عقائد کمزور کرنے کا باعث بن رہی تھی ، بلکہ دوسروں کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی راہ میں رکاوٹ تھی ۔

جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے کہ ابن شہاب کی روایت کے مطابق عمر نے ابو موسی کو خط لکھا  اور جس میں لکھا تھا:انہیں شعر روایت کرنے کا حکم دو؛ کیونکہ یہ اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں![2]

پس اس بنا پر عمر نے اپنی  زبان سے شعر کی طرف رغبت دلانا شروع کی  اور معاویہ کے زمانے میں یہ رائج ہوا اور اس کے بعد بنی امیہ نے شعر کی ترویج میں مبالغہ سے کام لیا۔

سعید  ایوب  اپنی  کتاب  میں  لکھتے  ہیں:

’’الاستیعاب‘‘کے مصنف ولیدکے بارے میں لکھتے ہیں:اہل عمل کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ آیۂ شریفہ’’اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ‘‘[3]ولیدکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[4]

اسی طرح ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیۂ شریفہ’’کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کی مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے،ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے‘‘[5]حضرت علی بن ابی طالب  علیہما السلام  کے ایمان اور ولید کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورپھر وہ  اس بارے میں ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں۔[6]

’’الاصابة‘‘ کے مصنف ابوزبید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ زمانۂ جاہلیت میں اپنے ماموں کے پاس بنی تغلب میں زندگی بسر کرتا تھا اور اسلام کے دوران جب ولید کو جزیرہ اور پھر کوفہ کی حکمرانی ملی تو یہ اسی کے ساتھ رہتا  تھا۔[7]

ابن قتیبہ اس بارے میں لکھتے ہیں : ابوزبید ہرگز مسلمان نہیں ہوا تھااور وہ اسی طرح عیسائیت پر باقی رہا اور دنیا سے چلا گیا۔مرزبانی کہتے ہیں کہ اسے طویل عمر ملی اور وہ ایک سو پچاس سال زندہ رہا  ۔ اس نے اسلام کو تو درک کیا لیکن مسلمان نہیں ہوا اور وہ معاویہ کی حکومت کے زمانے تک زندہ تھا۔[8]

اگرچہ قرآن وحدیث کی رو سے ولید فاسق اور اکثر مؤرخین کے مطابق ابوزبید عیسائی تھا۔لیکن عمر نے اس میں عوامی مفاد(!) کو دیکھا اور ولید کو جزیرہ کا حاکم بنا دیا اور ابن حجر کے مطابق عمر نے ابوزبید کو اسی کے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پر مأمور کر دیا اور اس کے علاوہ کسی اور عیسائی کوئی ذمہ داری نہیں دی۔[9] اسی دوران عمر نے حکم جاری کیا اور ابن شہاب کی روایت کی رو سے اس نے ابو موسی اشعری کو خط لکھا، جس میں اس نے یہ فرمان جاری کیا :’’ اپنے اطرافیوں کو حکم دو کہ وہ عربی قواعد سیکھیں جو صحیح گفتگو کے لئے راہنما ہیں اور انہیں حکم دو کہ وہ شعر روایت کریں جو اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں‘‘۔[10]

 شعر؛ روایت کرنا ایک عربی سنت تھی جس کی طرف اسلام نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نہ ہی خدا کی کتاب میں شعر اور شاعروں کی کوئی تعریف کی ہے اور نہ ہی سنت میں انہیں کوئی خاص اہمیت دی گئی ہے۔

منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:قسم ہے اس  ذات کی! جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ،میرے بعد میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب مال ناجائز طریقہ سے لیا جائے گا اور خون بہایا جائے گا اور اشعار ؛ قرآن کی جگہ لے لیں گے۔[11]

یہ کہ شعر روایت کرنے کی طرف دعوت دینا،غیب کی خبر دینا اور حجت قائم کرنا ،اس وقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب شعر ؛قرآن کی جگہ لے لیں گے۔  قبیلۂ بنی تغلب(جن کی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سرزنش کی تھی)، حیرہ کے عیسائیوں(جو عباسیوں کی خلافت کے زمانے تک عیسائیت پر باقی تھے) اور قیساریہ کے اسیروں کے قافلوں(جنہیں معاویہ نے اپنی خلافت میں دالخلافہ کی طرف بھیجا)نے راہ خدا کو بند   کرنے کے لئے لوگوں کو اشعار  روایت کرنے کی دعوت دی۔

عثمان کے دور میں کچھ رکاوٹوں کے برطرف ہو جانے اور کوفہ پر ولید کی حکمرانی سے عیسائیت کو پھیلانے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اسی دور میں حیرہ کے عیسائیوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اس علاقہ کے قافلوں کو کچلا گیا اوردَیْر کے شعروں کو رائج کیا گیاجو مخفیانہ طور پر عقلی ثقافت پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اس کے بعد شراب کے بارے میں اشعار کی باری آئی جو واضح طور پر اسلام کا خیال دل سے نکالنے اور اسے ترک کرنے کے خواہاں تھے۔

ہم نے ان میں سے کچھ موارد اپنی دوسری کتاب’’الانحرافات الکبری‘‘میں ذکر کئے ہیں، لہذا اس کی اصل بنیادوں کو جاننے کے لئے اس  کتاب کی طرف رجوع کریں۔

دیر اور شراب کے اشعار کی فضا میں کوفہ کا حاکم ولید بن عقبہ  اور اس کا درباری ابوزبید  مل کر اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے تھے۔

’’الاستیعاب‘‘کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ولید اور اس کے ہم پیالہ ابوزبید کی شراب نوشی کی خبریں بہت مشہور ہیں۔[12]

بہت سے مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے کہ ولید نے نشہ کی حالت میں صبح کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی اور چار رکعت پڑھنے کے بعد مأمومین سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے دوبارہ سے نماز پڑھوں؟[13]

عثمان بن عفان کے خلاف قیام کا پہلا سبب یہی مسئلہ تھاکہ خلیفہ نے ولید کو معزول کرکے اور اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جان چھڑائی۔لیکن شعر اسی طرح باقی رہے بلکہ  ان میں وسعت آتی گئی،شراب کے بارے میں اشعار ،عاشقانہ شعروں میں اور پھرعیاشی کے اشعار میں تبدیل ہو گئے۔ معاویہ کے دور میں ادبیات عرب اپنے عروج پر تھی اور حزب حاکم کی سیاست کے دامن میں پلنے والے فحاش اشعار کہے گئے  جو قبائلی اختلافات اور عربی تعصب کو ترویج دے رہے تھے۔

بنی امیہ نے اشعار کی ترویج میں مبالغہ کی حد تک کام کیا اور وہ کبھی شعر کے ایک مصرع یا ایک ادبی نکتہ پر ہزاروں دینار سے نوازتے  تھے۔ اس  لئے لوگ بھی اشعار کہنے اور عرب کی جنگوں کے احوال بیان کرنے میں لگ گئے  اور انہوں نے اس کے ذریعے بہت سا مال حاصل کیا۔

شعر اور ادبیات اس حد تک نفوذ کر چکے تھے کہ حتی بہت سے علماء علمی محافل میں عقلی مسائل سے بحث کرتے وقت اپنانظریہ  ثابت کرنے کے لئے کسی شعر یا ضرب المثل  کو بطور نمونہ پیش کرتے تھے۔

اسی دور میں منفی شعر اور راہ خدا سے روکنے والے افراد فتنہ کی تاریک راتوں میں اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے اور شعراء تیزی سے رہبر کے مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے۔ان شاعروں میں سے اخطل کا نام لیا جا سکتا ہے جو حیرہ میں پیدا ہوا ، جس کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور جو اپنے اکثر قبیلہ والوں کی طرح عیسائی تھا۔جب یزید بن معاویہ خلیفہ بنا تو اسے اپنے پاس بلالیا اور وہ اس کا بہت احترام کیا کرتا تھا۔یزید کے بعد دوسرے خلیفہ بھی اس کا بہت احترام کرتے تھے اور اسے بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نوازتے تھے بالخصوص عبدالملک مروان اسے دوسرے شعراء پر ترجیح دیتا تھااور اسے اس کا بہت زیادہ صلہ اور جزاءدیتا تھا۔[14]ان شاعروں میں سے اعشی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عیسائی تھا اور وہ جہاں کہیں بھی جاتا تھا ، وہاں اس کے اشعار کو بہت زیادہ سراہا جاتا تھا۔[15]

فتنہ کی ثقافت اتنی پھیل چکی تھی اور اموی دور میں عیسائیوں کو ایسا مقام مل چکا تھا کہ ان کے بغیر سیاسی تدبیرمیں مشکل پیش آتی تھی۔ان میں سے ایک گروہ کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری تھی اور ان میں سے اکثر کو خلفاء کے نزدیک بلند مقام حاصل تھا۔[16]

شعر،شراب اور فحاشی کی آغوش  سے وجود میں آنے والے فتنہ سے زندیقیوں اور عیسائیوں کے نظریات سامنے آ رہے تھے[17]،اور یحییٰ دمشقی کی زبان پر مرجئہ کے آراء و نظریات جاری تھے جس کا باپ عبدالملک بن مروان کا یار ومددگار تھا۔اسی یحییٰ نے خود عیسائیت کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ یحییٰ دمشقی کے آراء کومرجئہ اور شام کے قدریّہ کے پاس فروغ دیا گیا۔ اس طوفان میں پرانے حالات اور قدیم دنیا پھر سے آہستہ آہستہ آشکارہو گئی ،دولت کو بے مثال طاقت ملی جس نے تمام اقدار کو پامال کیا،ہر چیز مال پر قربان ہونے لگی اور اسے حاصل کرنے کے لئے  سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہرغلط حربہ اختیار کیااور وہ ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مصروف  ہو گئے۔

اس تحریک کے آخر میں کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جو ہر مذہبی چیز کی تحقیر و توہین کرتے تھے ،جو واضح اور گستاخانہ انداز میں اپنے نظریات پیش کرتے تھے  جس کی اس سے  پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شام میں ابوالعلای معری شاعر(٣٦٣-٤٤٩)عقلی نظریات کی آڑ  میں ہر مذہبی چیز پر حملہ کرتا تھااور یوں کہتا تھا:اے گمراہو!ہوش میں آؤ،ہوش میں آؤ ! تمہاری ایمانداری گزرے ہوئے لوگوں کے دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے ، جو اس  کے ذریعے سے دنیا کے مال و منال کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے،وہ اس دنیا سے چلے گئے اوبخیلوں کی سنت دم توڑ گئی۔(!)

وہی کہتا تھا:لوگ پے در پے فساد کے قریب ہو گئے اورسب مذہب گمراہی کے لحاظ سے یکساں ہیں۔[18] پھر ابن راوندی(متوفی سنہ ٢٩٣ھ)کی نوبت آئی جس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اکثم بن صیفی کے کلمات میں قرآن سے بھی خوبصورت کلمات ملتے ہیں۔[19]

اسی طرح ابولعلاء معری کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے مقابلے کے لئے کھڑا ہوا   اور اس نے ’’الفصول والغایات فی محاذاة السور والآیات‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی اور جب اس سے کہا گیا کہ تم نے اچھا لکھا ہے لیکن ان میں قرآنی آیات کی مٹھاس نہیں ہے تو اس  نے جواب دیا:اسے چار سو سال تک محرابوں سے زبان پر جاری رہنے دو تا کہ  یہ چمک جائے ، اورپھر دیکھو کہ یہ کیسی  کتاب  ہے۔[20]

اس طرح  اشعار کو تقویت ملنے کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غیبی پیشنگوئی اس وقت متحقق ہوگئی جب ولید نے اپنا قصر کھولا اور حیرہ کے عیسائیوں نے جزیرہ پر  اپنے قدم رکھے تا کہ وہ تغلب کے عیسائیوں کو گود  لے لیں۔پھر دیر کے شعر ،اس کے بعد شراب کے بارے میں اشعار اور پھر فحاشی پر مشتمل اشعار رائج ہوئے ۔ وہ لوگ عرب کی قدیم جنگوں ،امویوں کے فضائل کا تذکرہ کرکے اور زمانۂ جاہلیت کی اقدار کو ترویج دے کر خود کو خلافت کی کرسی کے قریب لے آئے۔اور جس میدان میں حدیث نہیں تھی وہاں اس کے نتیجہ میں سیاسی دباؤ اور تصوف نے اپنے قدم جما ئے  اور ان واقعات کے مقابلہ میں زندقہ اور مرجئہ کی تعلیمات اور دوسرے واقعات رونما ہوئے۔اس تمام کشمکش کے دوران عیسائی ٹیکس اکٹھا کرنے کی نگرانی کر رہے تھے اور جو بھی وزارت کا خواہشمند ہوتا تھا ،وہ ان کے نزدیک ہو جاتا تھا ،[21]کیونکہ خاردار جھاڑی سے اموال حاصل کرنے کے لئے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے تھے اور شاعروں نے راہ خدا کو بند کرکے دین اور قرآن کے خلاف اس طرح سے اعلان جنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔[22]

 


۴۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:٨١ .

۱۔ کنزالعمال:ج١٠ص٣٣٠.

[3]۔ سورۂ حجرات،آیت:٦ .

[4]۔ الاستیعاب:ج٣ص٦٣٢ .

[5]۔ سورۂ سجدہ،آیت:١٨ .

[6]۔ الاستیعاب:ج٣ص٦٣٣ .

[7]۔ الاصابہ:ج٤ص٨٠ .

[8]۔ الاصابہ:ج٤ص٨٠ .

۲۔  الاصابہ:ج٤ص٨٠.

۳۔ کنزالعمّال:١٠ص٣٠٠ابن الأنباری کی روایت کے مطابق۔

۴۔  کنزالعمال:ج١١ص١٨٧ دیلی کی روایت کے مطابق۔۔

۱۔  الاستیعاب:ج٣ص٦٣٣.

۲۔  الاستیعاب:ج٣ص٦٣٣.

۱۔ تاریخ الأدب العربی:ج١ص۲۰۵.

۲۔ تاریخ الأدب العربی:ج١ص٢٣٨.

۳۔ تاریخ الأدب العربی:ج١ص٢٥٦ .

۴۔ الحضارة الاسلامیة:ج٢ص٦٥ .

۱۔ الحضارة الاسلامیة:١٣٧ .

۲۔ الحضارة الاسلامیة:١٣٩ .

۳۔  الحضارة الاسلامیة:١٤٠ .

۴۔ الحضارة الاسلامیة:ج١ص١٢٧ .

۱۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج١ص٤١٨ .

 

    ملاحظہ کریں : 2941
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 93266
    تمام وزٹر کی تعداد : 133811896
    تمام وزٹر کی تعداد : 92566592