حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

یہودی اور عیسائی دانشور مساجد میں قصہ گوئی کرتے تھے اور عیسائی علماء ان کہانیوں کے ضمن میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔

کتاب’’اسرائیلیات  و  تاٴثیر  آن‘‘میں لکھتے  ہیں:

اہل کتاب کے علماء حکومتی اور سرکاری ہدایات کے زیرسایہ یہ کام انجام دیتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد اور ان میں سے بھی اہم ترین یعنی مدینہ میں مسجد نبوی پر اپنا قبضہ جما لیا تھا تا کہ لوگوں کوبنی اسرائیل کے حالات کے بارے میں ایسی  کہانیاںسنانے میں مشغول رکھیں جو لوگوں کی طبیعت اوران کے اپنے مقاصد سے سازگار  ہوں۔[1]

دوسرے خلیفہ کی نظر میں تمیم داری(تازہ  مسلمان ہونے والا عیسائی) مدینہ کے بہترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا([2])!اس نے عمر سے تقاضا کیاکہ وہ قصہ گوئی کرنا چاہتا ہے۔عمر نے اسے اجازت دے دی اور وہ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں لوگوں کے لئے قصہ گوئی  کیا کرتا تھا۔[3]عمر خود بھی تمیم کی مجلس میں بیٹھتا اور اس کے قصے سنتا تھا![4]

حقیقت میں اسرائیلیات سے قصہ کہانیوں کے جوڑ کی یہی سب سے اہم دلیل ہے کہ تمیم داری (جو پہلے عیسائی تھا)نے سب سے پہلے قصہ گوئی کی اور کعب الأحبار(جو پہلے یہودی تھا)کا شامات میں یہی کام تھا؛حتی کہ اس کا سوتیلا بیٹا (یعنی تبیع بن عامر جس کی پرورش کعب الأحبار کے ذمہ تھی اور جس نے آسمانی کتابیں پڑھیں تھیں)بھی اصحاب کے لئے قصے کہانیاں بیان کیا کرتا تھا!

محققین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ابتدائے اسلام میں قصہ گوئی کرنے کے واقعات اہل کتاب کی ثقافت سے متأثرہ تحریک کا نتیجہ تھے اورصدیوں سے ان کی اصل بنیاد ایسے قصے تھے جنہیں اہل کتاب انبیاء اورددوسروں سے روایت کرتے تھے۔

قصہ گوئی کی تحریک کو اسلامی ثقافت کے ساتھ برابرقرار دیا گیا تھا اور کچھ علماء کی مخالفت کے باوجود بعض خلفاء و محدثین کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے میں پوری طرح  نفوذ کر گئے جس نے اسلامی ثقافت پر بڑے تباہ کن اثرات چھوڑے۔[5]

ڈاکٹر مصطفی حسین لکھتے ہیں:

اسلامی فتوحات کے بعد شام کا ماحول اسلامی ثقافت میں اسرائیلیات کو پھیلانے میں بہت اثر انداز ہوا اور تمیم داری جیسے افراد – جو تازہ مسلمان ہونے والی عیسائیوں میں سے تھا-کا اس تحریک (اسرائیلیات کی ترویج) میں  بہت اہم کردار تھا کیونکہ اصل میں عیسائی ہونے کے باوجود اس کی شخصیت اور روایات پر اسرائیلی ثقافت کے اثرات کسی بھی محقق سے  ڈھکے چھپے نہیں ہیں؛بالخصوص ’’جسّاسہ‘‘کی کہانی کہ جس میں اس کے راویوں نے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و  سلم کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔[6]

ڈاکٹر احمد امین بھی ظہور اسلام کے بعد شام کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں:

شام میں اکثر عیسائی تھے جنہوں نے اپنا مذہب نہ چھوڑا اور وہ جزیہ دیتے تھے۔ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اپنا علمی سرمایہ اسلام میں داخل کر دیا ، جو انہوں نے کیش عیسوی سے لیا تھا۔مساجد ،کلیسا کے ساتھ برابر ہو گئیں تھیں اور وہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کے میل جول تیزی سے بڑھ رہے تھے۔[7]

اس لحاظ سے شام کو ’’اسرائیلیات کے لئے سرسبز زمین‘‘کا نام دیا جا سکتاہے۔

معاویہ نے طاقت کے بل بوتے پر کچھ عیسائیوں کو اپنا مقرب اور مشیر منتخب کیا۔ان میں سے ’’سرجون‘‘وزیراور دربار کے خاص مصنف ، ’’ابن آثال‘‘دربار کےمخصوص طبیب، اوراموی دربار کے خصوصی شاعر ’’اخطل‘‘ کے ناموں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں تھے  جو اپنے مسیحی اعتقادات و افکار سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ وہ اموی دربار میں اتنانفوذ کر چکے تھے کہ ان پر اپنے نظریا ت مسلّط کرتے تھے۔[8]

مؤرخین نے ان عیسائیوں کے معاویہ سے باہمی میل جول کو بیان کرکے بہت سے نکات درج کئے ہیں۔ہم ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔سرجون بن منصور رومی:اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مصنف اور معاویہ کامحرم راز یا اس کے اسرار کا محافظ تھاجو معاویہ کی موت کے بعد یزید کی خدمت گار بن گیا  تھا۔

کتاب’’الأغانی‘‘میں وارد ہواہے کہ وہ یزید کے ساتھ مل کر شراب نوشی کرتا تھا اورجب  مسلم بن عقیل علیہ السلام کے کوفہ پہنچنے کی خبر آئی تو اسی نے یزید سے سفارش کی تھی کہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جائے۔[9]اس کا بیٹا بھی عبدالملک بن مروان کے لئے کتابت کے فرائض انجام دیتا تھا۔[10]

٢۔ابن آثال:مؤرخین کے مطابق یہ  عیسائی معاویہ کا درباری طبیب تھا اور دمشق میں اس کا خصوصی معالج تھا۔

احمد امین کہتے ہیں:معاویہ کو اس سے بڑی ہمدردی تھی اور وہ اس سے بہت عقیدت رکھتا تھا اور  ہمیشہ اس سے گفتگو کرتا تھا۔[11]

یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:سب سے پہلے معاویہ نے ابن آثال کو سر زمین’’حمص‘‘ سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے مأمور کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے عیسائیوں کو ایسی ذمہ داری نہیں سونپی تھی۔[12]

٣۔اخطل:یہ معاویہ کے دربار کا عیسائی شاعر تھا۔جاحظ اموی حکومت کے ساتھ اس کے تقرب کے سبب کے بارے میں لکھتے ہیں: معاویہ انصار کوذلیل و خوار کرنا چاہتا تھاکیونکہ ان میں سے اکثر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے صحابی تھے اور معاویہ  کی خلافت کے مخالف تھے۔اس کے بیٹے یزید نے کعب بن جعیل سے کہا کہ وہ انصار کی برائی کرے لیکن اس نے منع کر دیا اور کہا:میں ایک نصرانی غلام کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی زبان بہت لمبی ہے اور وہ ان کی برائی کرنے میں گریز نہیں کرے گا ،پس اس نے یزید کو اخطل کے بارے میں بتایا۔[13]

’’الأغانی‘‘ میں بھی اس کے ذیل میں وارد ہوا ہے:وہ عیسائی کافر تھا جو مسلمانوں کی توہین کرتا تھااور جب وہ آتاتھا تواس نے  ریشم کا لباس اور گردن میں سونے کی صلیب پہنی ہوتی تھی ، اور اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہوتی تھی اور اسی حالت میں اجازت کے بغیر عبدالملک بن مروان کے پاس جاتاتھا  اور وہ یزید کاہمدم و ہمنشین تھااور اسی کے ساتھ جام سے جام ٹکراتاتھا ۔اسی طرح اس نے ایک شعر کہا تھا جسے انہوں نے مسجد کوفہ کے دروازے پرآویزاں کر دیا تھا۔[14]

اس کے بارے میں دوسرے محققین لکھتے ہیں:اس کے اشعار میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اموی دور میں بھی عربوں میں  بت پرستی کی  کچھ رسومات باقی تھیں۔نیز ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے کے افراد میں کس حد تک مذہبی رواداری پائی جاتی تھی۔

اخطل ان لوگوں کی سخت سرزنش کرتا تھاجنہوں نے طاقتور لوگوں کی قربت کی خاظر، اپنے باپ دادا کا بت پرستی اور عیسائیت کا دین چھوڑ دیا تھا۔اس کے بہترین اشعار بھی وہی ہیں جو اس نے امویوں کی شان میں لکھے ہیں۔مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور ان کا تمسخر کرنے کے باوجود عبدالملک اس کی حمایت کرتا تھا۔[15]

یہ شواہد واضح اور روش دلائل ہیں کہ شام اور معاویہ کا دربارتمام قبیلوں اورقطب کے اکٹھے ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جن کاہدف اور مقصد ایک ہی تھااور وہ ہدف اسلام کے تن آور درخت کی جڑوں کو کھوکھلاکر نے کی کوشش کرنااور اسلامی اقدار کے خلاف جنگ کرناتھا۔معاویہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے تمام ذرائع  استعمال کرنا جائز سمجھتا تھا۔اس نے تازہ مسلمان ہونے والے یہودی  اور عیسائی علماء (جو ظاہراً مسلمان ہوئے تھے)اور تما م ہوس پرست اور نقلی حدیثیں گھڑنے والوں کی جعلی اور من گھڑت روایات سے بہت استفادہ کیا اور یہ سب معاویہ کی سرپرستی  میں ہو رہا تھا۔[16]

 


۲۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم:ج١ص١٢٢-١٢٤(تلخیص).

۳۔  الاصابة فی تمییز الصحابة:ج١ص٢١٥ .

۴۔  الاصابة فی تمییز الصحابہ:ج١ص١٨٣،١٨٤ اور ١٨٦۔نیز الصحیح من سیرة النبی الأعظم:کی پاورقی کے تمام حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

۵۔ القصاص و المذکرین:٢٩ .

۱۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:٦٣ .

۲۔ اسرائیلیات فی الفتاث الاسلامی:٧٩ اور ٨٠ .

۳۔ فجر الاسلام:١٨٩ .

۱۔ معالم المدرستین:ج١ص٥٠ اور ٥١ .

۲۔  الاغانی:ج١٦ص٦٨ ،’’معالم المدرستین ‘‘سے اقتباس:ج٢ص٥٠،نیز رجوع کریں''تاریخ طبری: ج٣ص٢٢٨ اور ٢٣٩،الکامل فی التاریخ :ج ٤ ص ١٧''.

۳۔ التنبیہ الاشراف:٢٦١،معالم المدرستین:سے اقتباس:ج٢ص٥٠ .

۴۔ فجر الاسلام:١٦٢ .

۵۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۲۲۳ .

۱۔ البیان والتبیین:ج١ص٨٦،معالم المدرستینسے اقتباس:ج٢ص٥٠ .

۲۔ الأغانی:ج٨ص٢٢٩ ،٣٢١اور ج١٦ص٦٨معالم المدرستین سے اقتباس:ج٢ص٥٠ اور ٥١ .

۳۔ انتقال علوم یونانی  بہ عالم اسلام(دلیس اولیری):٢١٦ .

۴۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:٧٤ .

    ملاحظہ کریں : 2836
    آج کے وزٹر : 38247
    کل کے وزٹر : 89459
    تمام وزٹر کی تعداد : 131362909
    تمام وزٹر کی تعداد : 91087746