حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار

 

قبلہ کابیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہونایہودیوں کے غضبناک کا بہت اہم سبب تھا۔ یہودی بیت المقدس کا بڑا احترام کرتے تھے اور وہ کسی بھی سرزمین کو اس کے مقابلہ میں لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔قبلہ کا تبدیل ہونا ان کے لئے بہت ہی اہم اور انہیں غضبناک کرنے والا امر تھا۔

اس واقعہ سے ان کو اتنی شدید نفرت تھی کہ وہ بعد کی صدیوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں  اپنے غصہ کا اظہار کرتے رہے۔

اسی وجہ سے بعض غاصب اموی خلفاء  یہودیوں کا دل خوش کرنے اور اسلام و مسلمین کو شکست دینے کے لئے کوشاں رہے کہ بیت المقدس کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت دے دی جائے اور وہ معنوی اعتبار سے مسجد الحرام کے برابر یااس سے بھی افضل و برتر ہو جائے۔

اس بارے میں غاصب اموی خلفاء میں سے جس نے سب سے زیادہ کوشش کی وہ عبدالملک تھا۔عبدالملک نے اس راہ میں جن عوامل کی وجہ سے کوشش کی ان میں سے ایک یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے اس کے دورحکومت میں قیام کیا تھا اور اموی خلیفہ سے مکہکو چھینلیا تھا ۔عبدالملک  لوگوں کو خانۂ خدا کی طرف جانے سے روکنے کے لئے یہ کوششیں کر رہا تھا کہ ان کے لئے بیت المقدس کی عظمت کو زندہ کرے تا کہ لوگ مکہ میں جانے اور وہاں خانۂ خدا کی زیارت کرنے سے گریز کریں اور انہیں بیت المقدس کی طرف کھینچا جا سکے۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء سیاست کی وجہ سے مذہبی حقائق کو تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔اس بناء پر اگر وہ اسلام اور دین کے نام پر حکومت کا دم بھرتے تھے تو اس کی وجہ دینی اعتقادات نہیں بلکہ سیاست اور طاقت کا حصول تھا۔

کتاب''پیغمبرۖو یہود و حجاز''میں لکھتے ہیں:

تغییر قبلہ سے یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو استقلال ملنے کے علاوہ عربوںکے اسلام کی طرف آنے میں بھی مدد ملی ۔ چونکہ وہ کعبہ کی بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے۔ اگرچہ مسلمان تغییر قبلہ سے پہلے بھی کعبہ کو اہمیت دیتے تھے اوراس بارے میں قرآن کی کچھ آیات بھی موجود ہیں ۔ یہ واقعہ یہودیوں اور مسلمانوں میںجدائی کا پہلا مرحلہ شمار کیا جاتا ہے جس سے اس قوم (جو اسلام اور پیغمبرۖ کی برتری کا اعتراف کرتی تھی) کے بغض میں مزید اضافہ ہوا۔

تاریخ اسلام میں یہودیت سے اسلام لانے والے  مسلمان بیت المقدس کو کعبہ پر برتری دینے کی کوشش کرتے رہے کہ جن کی کتابیں اسرائیلیات سے بھری پڑی ہیں۔کعب الأحبار نے ایک حدیث گھڑی کہ جس میں آیا ہے: کعبہ ہر صبح بیت المقدس پر سجدہ کرتا ہے۔

امام باقر علیہ السلام نے اس بات کوجھوٹ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:خدا کے نزدیک روئے زمین پر کعبہ سے زیادہ محبوب کوئی جگہ نہیں ہے۔([1])

غاصب اموی حکمران اپنے سیاسی اہداف سے استفادہ کرنے کے لئے ایسی ہی روایات سے استفادہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب مکہ عبداللہ بن زبیر کے پاس تھا عبدالملک نے لوگوں کو حج پر جانے سے روکنے کے لئے زہری سے ایک حدیث کو ترویج دیا جس میں پیغمبرۖ کی طرف یہ بات منسوب کی گئی:

تین مساجد کے علاوہ کسی کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا: مسجد الحرام۔مسجد النبی اور مسجد بیت المقدس کہ جس کا مقام و مرتبہ کعبہ کی طرح ہے۔([3]،[2])

 


[1]۔ الکافی:ج ٤ص٢٤٠

[2] ۔  حدیث ''لا تشدّ الرجال'' کے بارے میں: صحیح مسلم: ج١ص٦٣٦، صحیح البخاری: ج٢ص٥٦۔ البتہ اس کتاب میں یہ جملہ''وھو یقوم مقام الکعبة'' نہیں ہے ۔اس حدیث سے عبدلملک کے استفادہ کرنے کے بارے میں ۔تاریخ سیاسی اسلام: ج٢ص٧٤٦ (سیرۂ خلفائ) اور تاریخ طبری سے منقول۔

[3]۔  پیغمبرۖ و یہود و حجاز:٥٦

 

 

    ملاحظہ کریں : 1974
    آج کے وزٹر : 56434
    کل کے وزٹر : 98667
    تمام وزٹر کی تعداد : 133934456
    تمام وزٹر کی تعداد : 92628428