امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
دنیا کا مستقبل اور عالمی جنگ

دنیا کا مستقبل اور عالمی جنگ

ماضی اور حال میں دنیا کی معروف ترین شخصیات دنیا کی نابودی اور تباہی  وبربادی سے خوفزہ تھیں اور اب بھی ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں ہی نے دنیا کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ایسے ہی افرد میں سے ایک'' آئن اسٹائن'' بھی ہے۔

'' رسل '' کہتا ہے کہ ایٹم بم اور اس سے بھی بڑھ کر ہائیڈروجن بم سے انسانی معاشرے کی تباہی کے خوف وہراس میں اور زیادہ اضافہ ہوا ہے  اکثر علمی ترقی انسان کوموت کے منہ میں دھکیلنے کا سبب بنی ہے حتی کہ اس میں بعض جید شخصیات اور صاحب نظر حضرات کہ جن میں سے ایک آئن اسٹائن ہے۔([1])

'' دکنت دونوئی '' کہتا ہے :آج دنیا ایٹمی توانائی کے نتیجہ میں مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑی  ہے۔دنیا اب متوجہ ہوئی ہے کہ ان کی نجات کا واحد راستہ انسان کا اخلاق حسنہ ہے۔انسانی تاریح میں پہلی بار انسان اپنے ہوش وحواس سے کئے گئے کام پر بھی شرمندہ ہے۔([2])

جی ہاں!اب بہت سے یورپی سیاست دان انسان اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔ انہیں نہیں معلوم کہ ان اسلحوں سے استفادہ کرنے سے کیا دنیا پوری طرح تباہ ہوجائے گی یانہیں؟

دنیا کے مستقبل کے لئے خطرے اور عالمی جنگ کا بہانہ بننے والے اسباب میں سے ایک بعض ممالک کا دوسرے ممالک کو جدید جنگی آلات فروخت کرنا ہے۔سیاست دان زیادہ دولت کمانے اور دوسرے مملک میں نفوذکرنے کے لئے ایسے کام انجام دیتے ہیں ۔ دوسرے ممالک کو جنگی سامان کی فروخت بڑے ممالک کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔اسی لئے ہر روز بازار میں جدید ترین اسلحہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر دن ایک سے بڑھ کر ایک ہتھیار بنایا جاتا ہے۔ اب آپ  یہ رپورٹ ملاحظہ کریں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساقی پر گرائے گئے ایٹم بموں نے بہت زیادہ تباہی پھیلائی۔حلانکہ نائیٹروجن بم ،ایٹم بم کی بہ نسبت سوئی کی نوک کے برابر بھی تباہی نہیں پھیلاتا۔اس کے پھٹنے کی قوّت بھی بہت کم ہوتی ہے۔کیونکہ اس کی اسّی فیصد توانائی نائٹروجن کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔یہ شعاعیںجس جنگی میدان یا علاقہ پر پڑیںتو یہ وہاں کی تمام موجودات حتی کہ خوردبین سے دکھائی دینے والے موجودات و مخلوقات کو نابود کردیتی ہیں۔

''ساموئل کوین'' اپنی ایجاد کی خوبیاں اور خامیاں یوں بیان کرتا ہے۔

نائٹروجن بم میں دو بڑی خامیاں ہیں۔ایک یہ کہ وہ شہروں اور عمارتوںکی نقصان نہیں پہنچاتا ، ممکن ہے کہ دشمن ان پر قبضہ کر لیں یا یہ کہ انہیں تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم کا استعمال کریں۔اس بم کی دوسری خامی یہ ہے کہ یہ بم اپنے تھوڑے سے عمل سے تمام موجودات حتی کہ خوردبین سے دکھائی دینےوالے موجودات   و مخلوقات کو نابود کردیتا ہے اور بہت بڑے شہر کو ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ سے پہلے خاموش قبرستان میں تبدیل کردیتا ہے۔اس سے تمام مخلوقات فناہو جاتی ہیں ۔ لیکن میرے خیال میں نائٹروجن بم، ایٹم بم کی بہ نسبت قدرے بااخلاق ہے۔ کیونکہ ایٹم بم ایٹم سے بنایا جاتا ہے اور یہ بم ہزاروں لاکھوں اموات کے علاوہ بہت سے لوگوں  کو اندھا،بہرا اور معزور کردیتا ہے۔ حلانکہ نائٹروجن بم اپنی اتنی طاقت کے باوجود کسی کو معزورباقی نہیں چھوڑتا۔([3])

نائٹروجن بم بہت سی چیزوں کی حکایت کرتا ہے جیسے کہ آدم کشی ارزشوں میں شمار ہو گی۔اگر کوئی ایسا بم بنایا جائے کہ جس سے دنیا میں کوئی انسان بھی باقی نہ رہے تو یہ بہت زیادہ بااخلاق بم ہوگا۔

جی ہاں!جو انسان خداسے دور ہوچکا ہو اور جس نے اخلاقی اقدار کو چھور دیا ہو ۔اس کاانجام ایسا ہی ہو گا۔([4])

''برتراند راسل'' علم کے بارے میں یہ سخت تلخ اور مایوس بیان دیتے ہوئے کہا:

شاید ہم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیںکہ جوبنی نوع انسان کے فناہونے کا زمانہ ہے۔اگر ایسا ہوا تو اس کا گناہ علم پر ہوگا۔([5])

١٩٦٠ ء  کی دھائی میں نوجوانوں اور بالخصوص پڑھے لکھے اور یونیورسٹییوں کے نوجوانوں  میں علم دشمنی رواج پائی کیونکہ انسان کے یہ تمام مصائب و مسائل علم وفنون کی ترقی سے وجود میں آئیں ہیں ۔ ([6])

مغربی تمدن نے جس طرح علم کو غیر انسانی اور حقیرانہ منافع سے آلودہ کیااسی طرح انہوں نے ڈیموکریسی کو بھی اپنے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب اس تمدن کی تقدیر اس کی پیدائش اور اس کے مصرف کے بارے میں سوچیں اور انسان کی بے بسی، درماندگی ،بے اعتدالی اور خود بیگانگی کے موجبات کو پہچانیں اور ان کا راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ البتہ علم کو چھوڑ کر، توہمات کی بناء پر نہیں بلکہ عقل مندی سے ان کے لئے چارہ جائی کریں اور ایک دوسری دنیا اور نیا انسان بنائیں۔([7])

١٩٤٥ء کے بعد سے دنیا تباہی،بربادی اور موت کے منہ میں کھڑی ہے۔کئی بار اس تو اس کے انجام تک بات جا پہنچی ۔ایٹمی اسلحوں کی وجہ سے ہمیشہ سب جاندار وں کے سروں پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔فوج اور اسلحہ کی دوڑ میں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہے۔اس مقابلہ سے زمین اور اس کی فرہنگ و ثقافت کی بربادی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔جو فوج اور سیاست دانوں کی قدرت سے کچھ سال پہلے تک طرف مقابل کو ایٹم بم سے ڈراتے اور دھمکاتے تھے ان میں سے دانشوروں نے ایٹمی اسلحہ کے خلاف آواز اٹھائی۔حلانکہ اسے بنانے اور ایجاد کرنے میں البرٹ آئن اسٹائن اور   لئو اسزیلارد  کا اہم کردار تھا۔

١٩٦٢ ء  میں ایٹمی ماہرین طبعیات نے ایٹمی تجربات کے بارے میں خبردار کیا اور باقاعدہ اعلان کیا کہ ایٹمی تجربات کی وجہ سے ایک سال میں دولاکھ معذور اور ناقص الخلقت بچے پیدا ہوئے ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے وجود میں آنے والا'' سزیوم ١٣٧ ''مستقیم حمل پر اثر انداز ہوتا ہے،جس سے بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔جن

کی چھ انگلیاں ہوتی ہیں یا وہ بدشکل  اور لنگڑے پیداہوتے ہیں۔

ژان روستان ،ڈاکٹر دلونی اور زیست شناسی میں انعام پانے والے امریکی پروفیسر مولر نے رسمی طور پر اپنی پریشانی کا اعلان کرتے ہوئے خبردا رکیا کہ ایٹمی دھماکوں کو بارہا تکرار کرنے سے زندگی کو اور بہت سنگین مشکلات لاحق ہو سکتی ہیں۔اس کے بعد دنیا کے بے شمار دانشور  ان کے ہمراہ ہوگئے۔

١٩٦٢ ء  میں دنیا میں زیست شناسی کے سینکڑوں مشہور ماہرین نے ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس کا  عنوان تھا''ہم سب ایٹمی تجربات سے مر جائیں گے اگر.....''

اس اجلاس میں فرانس کے مشہور ماہر طبیعات'' ژان روستان'' نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں خبردار کیا :رادیو آکٹیو کے مواد سے جانداروں کے سرو ںپر ہمیشہ موت کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔جو نابودی کا پیغام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئندہ نسل اندھی، بہری، گونگی، معذور اور پاگل پیدا ہو گی۔([8])

دنیا میں ایٹمی دھماکوں اور ایٹمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والی نسل ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ بڑی نہیں ہوگی۔

 


[1]۔ آیت الکرسی پیام آسمانی توحید:٢١٣

[2]۔ آیت الکرسی پیام آسمانی توحید:٢١٣

[3]۔ روزنامہ کیہان:٥ شھریور:١٣٦٠ صفحہ ٥

[4]۔ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب:٤٦٥

[5]۔ علم،قدرت،خشونت:٨٧

[6]۔ روان شناسی ضمیر ناخود آگاہ:٧٣

[7]۔ روان شناسی ضمیر ناخود آگاہ:٨٩

[8]۔ تاریخ ناشناختہ بشر:١٦٩

 

    بازدید : 7671
    بازديد امروز : 58585
    بازديد ديروز : 92721
    بازديد کل : 131587836
    بازديد کل : 91259389