امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
علم دنیا کی رہبری نہیں کر سکتا

علم دنیا کی رہبری نہیں کر سکتا

اگرچہ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں حاصل ہونے والی علمی ترقی کی بدولت بہت سے دانشوریہ گمان کر رہے تھے کہ ایک ایسا دن بھی آئے گا کہ جب علم دنیا کہ رہبری و قیارت کرے گا اور علم سے استفادہ کرکے وضع کئے گئے قوانین کے سائے میں یہ دنیا کو غم والم سے نجات دے گا۔لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے جو کچھ سوچا تھا حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

کیونکہ علمی ترقی نہ صرف دنیا کو بے عدالتی اور مصائب سے نجات نہیں دے سکتی بلکہ اس نے معاشرے کی مشکلات و تکالیف اور مصائب میں مزید اضافہ کر دیاہے۔

تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ اب تک کی علمی ترقی سے لاکھوں افرد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افرد بے سروسامانی کے عالم میں پڑے ہیں۔یہ سب صرف اس وجہ سے ہے کہ علم نے ترقی کی ہے۔ اس سیانسان کی انسانیت میں تقویت نہیں آئی۔حلانکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی ہونی چاہئے نہ کہ کسی ایک شعبہ میں۔علم اس صورت میں معاشرے کو تکامل کی طرف لے جا سکتا ہے کہ جب وہ عقل و انسانیت کے ہمراہ  ترقی کرے۔لیکن اگر علم ان کے بغیر ترقی کرے تو تو وہ بشریت کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔

چودزدی با چراغ آید     گزید ہ تر برد کالا

نظام خلقت صحیح تکامل کی بناء پر قرار دیا گیا ہے۔یعنی جس روز تمام مخلوقات نباتات، حیوانات اور انسان خلق ہوئے، اسی دن سے ان کے تکامل کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی اسی حالت پر باقی رہیں کہ جو خلقت کے پہلے دن تھی تو پھر دنیا کا کیا حال ہو گا؟

اس بناء پر اس معنی میں تکامل زندگی کی حتمی شرائط میں سے ہے ۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جسمانی تکامل ،روحانی و فکری تکامل کے ساتھ ہونا چاہیئے

یعنی جس طرح بچہ جسمانی اعتبار سے رشد پاتاہے اسی طرح انہیں فکری و روحانی اعتبار سے بھی رشد پانا چاہیئے ۔ اگربچہ جسمانی طور پر تو رشد پائے لیکن جسمانی و روحانی طور پر رشد نہ پائے بلکہ اس کے بچپن کے افکار میں کوئی تبدیلی  پیدا  نہ ہوتو معاشرہ کس حال تک پہنچ جائے گا؟

پس انسان کا جسمی تکامل ان کے فکری تکامل اور عقلی رشد کے ساتھ ہونا چاہیئے اور یہ ہمراہی زندگی کے تمام شعبوں میں برقراررہنی چاہیئے ورنہ اگر انسان ایک اعتبار سے تکامل کی منزل تک پہنچ چکا ہو اور دوسری جہت سے تنزلی کی طرف جا رہا ہو یا اسی طرح ہی متوقف رہے تو اس معاشرے سے  تعادل منتفی ہو جائے گاکہ جو معاشرے کی تباہی کا سبب بنے گا۔

اس بناء پر جس طرح معاشرہ علم و صنعت کی راہ میں کوشش کررہا ہے اور علم وصنعت کے تکامل اور مادی امور کی پیشرفت میں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔ وہا ں اسے معنوی و روحانی مسائل میں بھی تکامل کی طرف گامزن رہنا چاہیئے ورنہ روحانی و معنوی مسائل میں توجہ کئے بغیر علمی و صنعتی ترقی خطرناک اور تاریک مستقبل کے علاوہ کچھ نہیں دیتی۔

اگر انسانی معاشرہ اور دنیا کی ترقی کے خواہاں جہاں دنیا کو ترقی و تکامل کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں انہیں فکری و معنوی اور روحانی تکامل کی بھی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ فقط کچھ مادی  آلات و وسائل بنانے ہی میں مگن رہیں ۔ سب سے پہلے انسان کے وجود میں شخصیت، افکار اور نظریات کے اعتبار سے بدلاؤ اور تکامل ایجاد ہونا چاہیئے تاکہ صنعت و تمدن میں واقعی پیشرفت وجود میں آئے ورنہ کسی ایک شعبہ میں ترقی دنیا کو نابودی کے سواء کچھ نہیں دے سکتی۔

 

    بازدید : 7198
    بازديد امروز : 46378
    بازديد ديروز : 92721
    بازديد کل : 131563443
    بازديد کل : 91234975