امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
امام حسین علیه السلام کی خاک قبر شفاء ہے

امام حسین علیه السلام کی خاک قبر شفاء ہے

ابن قولویه نے کامل الزیارات میں اپنی سند سے عبد الله بن ابی یعفور سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا :میں نے حضرت امام صادق علیه السلام سے عرض کیا :

ایک شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی خاک اٹھاتا ہے اور  خداوند متعال اسے اس سے فائدہ عطا کرتا ہے ، اور دوسرا شخص وہاں سے  خاک حاصل کرتا ہے لیکن اسے اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا  ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

لا و الله الّذي لا إله إلاّ هو؛ ما يأخذه أحد، وهو يرى أنّ الله ينفعه به إلاّ نفعه‏ الله به .[1]

ایسا نہیں ہے ،   اس خدا کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ؛ جو شخص بھی اس یقین  کے ساتھ یہ خاک  اٹھائے کہ  خدا اس کے ذریعہ اسے فائدہ پہنچائے گا  تو خدا اسے ضرور فائدہ پہنچاتا ہے ۔

نیز کامل الزیارات میں محمّد بن مسلم نے روایت ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:

میں بیماری کی حالت میں مدینہ گیا ۔ کسی نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ محمد بن مسلم بیمار ہیں ۔ آپ نے اپنے غلام کے ہاتھ پینے کے لئےشربت  بھیجا جو اوپر سے رومال کے ساتھ ڈھکا ہوا تھا ۔ غلام نے مجھے وہ شربت  دیا اور کہا کہ اسے پی لو ، کیونکہ امام باقر علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہ جاؤں  جب تک تم یہ شربت نہیں پی لیتے  ۔ میں نے وہ شربت لیا تو اس سے مشک کی خوشبو آ رہی تھی ، وہ خوش ذائقہ اور ٹھنڈا شربت تھا ۔ جب میں نے وہ شربت پی لیا تو غلام نے مجھ سے کہا : میرے مولا نے فرمایا ہے : جب تم یہ شربت پی لو تو میرے پاس آ جاؤ ۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے میں اپنے پاؤں پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا لیکن امام علیہ السلام نے مجھے حکم فرمایا ہے تو گویا یہ شربت پینے کے بعد میری بیماری برطرف ہو گئی ہے ۔ میں امام باقر علیہ السلام کے بیت الشرف پر حاضر ہوا اور دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت طلب کی تو امام باقر علیہ السلام نے مجھے آواز دی کہ شفا یاب بدن کے ساتھ اندر داخل ہو جاؤ ۔ میں گریہ کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوا ، سلام کیا اور آپ کے دست مبارک اور سر اقدس کو بوسہ دیا ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا : اے محمد ! تم کیوں رو رہے ہو ؟

 میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں !  میں اپنی غربت ، آپ سے دور رہائش  اور  آپ کے پاس کھڑے ہوکر آپ کا دیدار کرنے کے کم مواقع پر رو  رہا ہوں ۔

امام باقر علیه السلام نے فرمایا : أمّا قلة القدرة، فكذلك جعل الله أولياءنا وأهل مودّتنا وجعل البلاء إليهم‏ سريعاً، وأمّا ما ذكرت من الغربۃ ، فإنّ المؤمن في هذه الدنيا غريب، وفي ‏هذا الخلق المنكوس حتّى يخرج من هذه الدار إلى رحمة الله، وأمّا ما ذكرت من بُعد الشقّة، فلك بأبي عبدالله ‏عليه السلام اُسوة بأرض نائية عنّا بالفرات، وأمّا ما ذكرت من حبك قربنا والنظر إلينا، وأنّك لاتقدر علی ذلك، فالله ‏يعلم ما في قلبك وجزاؤك عليه.

جہاں تک قدرت کی کمی  کی بات ہے تو ہاں ،  خدا نے ہمارے اولیاء اور ہمارے اہل محبت کو اس طرح ہی قرار دیا ہے ، ان کی طرف بلائیں اور مصیبتیں بہت تیزی سے آتی ہے (اور وہ آزمائشوں میں گھرے رہتے ہیں) ، اور تم نے جو غربت کا ذکر کیا ہے تو بیشک مؤمن اس دنیا میں غریب ہے اور اس  مخلوق میں منکوس (وارونہ) ہے ، یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحمت خدا کی طرف روانہ ہو جائے ۔ اور تم نے جو دور رہائش  کا ذکر کیا ہے تو تمہارے لئے ابو عبد اللہ علیہ السلام کی مثال ہے جو ہم سے دور فرات کے کنارے آباد ہیں ۔  اور جو تم نے ہماری قربت اور ہمیں دیکھنے کی بات کی ہے کہ تم اس پر قادر نہیں ہو  تو تمہارے دل کا حال جانتا ہے اور وہ ہی تمہیں اس کا  اجر و ثواب دے گا ۔

پھر آپ  نے مجھ سے فرمایا : کیا تم امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے پاس جاتے ہو ؟

میں نے عرض کیا : جی ہاں ! خوف اور وحشت کے عالم میں ۔

امام باقر علیه السلام نے فرمایا :

ما كان في هذا أشدّ فالثواب فيه على قدر الخوف، ومن خاف ‏في إتيانه أمن الله روعته يوم يقوم الناس لربّ العالمين، وانصرف بالمغفرة وسلمت عليه الملائكة، وزاره النبي ‏صلى الله عليه وآله وسلم وما يصنع، ودعا له، إنقلب‏ بنعمة من الله وفضل لم يمسسه سوء، واتّبع رضوان الله.

اس راہ کو طے کرنا جس قدر سخت اور دشوار ہو تو خوف میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کے اجر و ثواب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ جس کسی کو بھی (وہاں) جانے میں خوف ہو تو خداوند اسے اس دن خوف سے نجات دے گا جس دن سب رب العالمین  کے پاس حاضر ہوں گے  اور اسے امان میں رکھے گا ، اس کے گناہوں کو بخش دے گا ، اور ملائکہ اس پر سلام کریں گے ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے اور اس کے عمل کو دیکھ رہے ہوں گے  اور آپ اس کے لئے دعا کریں گے ، پس وہ  خدا کا فضل و کرم لے کر پلٹے گا کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہو گی  اور انہوں نے رضائے الٰہی کا اتباع کیا ہے ۔

پھر آپ  نے مجھ سے فرمایا : تمہیں وہ شربت کیسا لگا ؟

میں نے عرض کیا : میں گواہی د یتا ہوں کہ آپ اہل بیت رحمت ہیں ، آپ وصی الأوصیاء ہیں ، آپ نے غلام کے ہاتھ جو شربت  بھیجا ، اس میں ایسی تأثیر تھی کہ مجھ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بھی طاقت نہیں تھی ، اور میں خود سے مأیوس ہو چکا تھا ، اس نے مجھے وہ شربت دیا ، اور وہ شربت پیتے ہیں گویا میری زندگی واپس آ گئی ، آج تک میں نے نہ تو ایسی خوشبو سونگھی تھی ، اور نہ ہی آج تک ایسا  مزہ اور ذائقہ چکھا تھا ، اور نہ ہی میں نے اس سے زیادہ کوئی لذیذ چیز دیکھی تھی ، جب میں نے وہ شربت پیا تو غلام نے مجھ سے کہا : میرے مولا نے مجھے حکم دیا کہ میں تم سے کہوں : جب تم یہ شربت پی لو تو میرے پاس چلے آؤ ۔ مجھے اپنے درد کی شدت کا علم تھا لیکن میں نے خود سے کہا کہ چاہے  میری جان بھی چلی جائے لیکن  میں پھر میں امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوں گا ، پس میں آپ کی جانب روانہ ہو گیا ، اور گویا مجھے بیماری سے نجات مل گئی ۔ حمد و ثنا خدا کے لئے ہے جس نے آپ کو آپ کے شیعوں کے لئے رحمت قرار دیا ۔

پھر آپ  نے فرمایا : اے محمد ! تم نے جو شربت پیا تھا ، اس میں تھوڑی سی مقدار میں امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی خاک تھی اور یہ وہ بہترین چیز ہے کہ جس کے ذریعہ شفا پائی جائے ، اور کسی بھی چیز کو اس کے برابر مت سمجھو ، بیشک ہم یہ اپنے بچوں اور عورتوں پلاتے ہیں اور اس میں ہر خیر و خوبی نظر آتی ہے  ۔

راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں  ! کیا ہم بھی اس سے شفاء طلب کر سکتے ہیں ؟

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : جب کوئی شخص خاک  لینے کے بعد حائر سے نکلتا ہے اور اس نے اسے کھلا  رکھا ہوتا ہے  تو اس صورت میں  جب وہ کسی بیماری میں مبتلا کسی جنّ یا کسی آفت میں گرفتار کسی حیوان یا کسی دوسری مخلوق کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ اسے سونگھتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں اس کی برکت زائل ہو جاتی ہے اور اس کی برکت دوسروں کو حاصل ہو جاتی ہے ۔ لیکن ہم جب قبر حسین علیہ السلام کی جس خاک سے  اپنی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں ، وہ ایسی  نہیں ہے ۔ اور اگر ایسا  نہ ہو کہ جسے میں نے تمہارے لئے ذکر کیا  ہے ( یعنی خاک کو کھلا نہ رکھا جائے) تو کوئی بھی بیمار اسے کھانے کے بعد فوراً شفایاب ہو جائے گا ۔ یہ خاک؛ حجر الأسود کی مانند ہے کہ جس کے پاس صاحبانِ کفر و جاہلیت ، بیمار اور آفات میں گرفتار افراد آتے ہیں اور اسے مس کرنے سے ان کے عیب اور مرض دور ہو جاتے ہیں ۔ وہ پہلے سفید یاقوت کی طرح صاف و شفاف  تھا اور پھر  آہستہ آہستہ سیاہ ہو کر موجودہ حالت میں آ گیا کہ جسے تم دیکھ رہے ہو ۔

راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ! میں کس طرح اس پر عمل کروں ؟

امام باقر علیه السلام نے فرمایا : تم ایسا نہ کرو جیسا دوسرے لوگ کرتے ہیں اور اسے کھلا رکھتے ہیں اور اسے اہمیت نہیں دیتے ہیں اور  حتی کبھی اسے اپنی خروجین میں یا دوسری کثیف اور گندی چیزوں کے ساتھ رکھ دیتے ہیں ، جس سے اس کا وہ اثر زائل ہو جاتا ہے  جس کی وہ امید رکھتے ہیں ۔

میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ! آپ نے سچ فرمایا ۔

امام باقر علیه السلام نے فرمایا : کوئی شخص بھی یہ تربت نہیں لیتا مگر یہ کہ وہ اسے اخذ کرنے  کے طریقے اور اسے رکھنے کے آداب سے جاہل ہے ۔

میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ! میں کس طرح اسے حاصل کر سکتا ہوں ،جس سے میں نے اسے آپ کے طریقہ  کے مطابق حاصل کیا ہو  ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا میں تمہیں اس کی کچھ مقدار دے دوں ؟

میں نے عرض کیا : جی ہاں !

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : جب تم اسےلے لو گے تو کیا کرو گے ؟

میں نے عرض کیا : میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : اسے کس چیز میں رکھو گے ؟  میں نے عرض کیا : اسے اپنے لباس میں رکھوں گا ۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : تم دوبارہ وہی کرو گے جیسا پہلے کرتے تھے  ۔ تم ہمارے پاس اپنی ضرورت کے مطابق ہی لے لو اور تم اسے  اپنے ساتھ باہر نہیں لے جا سکتے  کیونکہ یہ تمہارے لئے سالم نہیں رہے گی ۔

پھر امام باقر علیہ السلام نے دوبارہ مجھے وہ شربت پلایا   جس کے بعد میں جو درد اور بیماری محسوس کر رہا تھا ؛ وہ  مکمل طور پر برطرف ہو گی اور میں بالکل صحت یاب ہو گیا  ۔ اور پھر میں وہاں سے واپس آ گیا ۔ [2]

حضرت امام صادق علیہ السلام سے امام حسین علیہ السلام کی تربت اور اس کے وسیلہ سے شفاء طلب کرنے کے بارے میں ایک طولانی حدیث روایت ہوئی کہ اس کی وجہ سے  شیاطین اور جنّ ؛ بنی آدم سے حسد کرتے ہیں اور وہ حائر میں داخل نہیں ہو سکتے ۔ پس جب کوئی انسان امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر سے خاک لے کر آتا تو وہ اسے مسح کرنے کی کوشش  کرتے  ہیں جس سے اس کا اکثر فائدہ زائل ہو جاتا ہے  اور اگرتربت حسینی ان سے سلامت رہے  تو جب کوئی اس سے اپنا علاج  کرتا ہے تو اسے فوراً شفا ملتی ہے ۔ پس جب بھی وہاں سے خاک لو تو اسے ڈھانپ دو اور اس پر زیادہ ذکر خدا کرتے رہو  ۔

اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ  لوگ تربت لینے کے بعد اسے خچروں اور  گدھوں  کی بوریوں  ، یا برتنوں ، یا خورجین وغیرہ میں رکھ دیتے ہیں ۔پس جس شخص کا یہ حال ہو وہ کیسے شفاء پانے کی توقع رکھ سکتا ہے ، نیز جس دل میں اس خاک کی تأثیر کا یقین نہ ہو اور وہ اس چیز کو سبک خیال کرتا ہو  ، جس میں اس کی بہتری اور صلاح ہو تو اس سے عمل فاسد اور خراب کر دیتا ہے ۔ [3]

شیخ طوسی قدّس سرّه نے کتاب ’’مصباح‘‘ میں محمّد بن سلیمان بصری سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت امام صادق علیه السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

في طين قبر الحسين ‏عليه السلام الشّفاء من كلّ داء، وهو الدّواء الأكبر.[4]

امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی خاک میں ہر بیماری کے لئے شفا ءہے اور یہ سب سے بڑی دوا ہے ۔ 

حسین بن ابی العلاء نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

حنّكوا أولادكم بتربة الحسين‏ عليه السلام، فإنّها أمان.[5]

اپنی اولاد کے گلے امام حسین علیہ السلام کی تربت سے دور کرو (یعنی اپنے بچوں کے حلق میں تربت امام حسین علیہ السلام ملو ) کیونکہ یہ تربت امان ہے ۔

ہم نے دیکھا ہے کہ بزرگ علماء اور شیعہ مراجع صرف نورانی و مقدس اسماء سے ہی استفادہ نہیں کرتے بلکہ ان کی تربت سے بھی تبرک پاتے ہیں اور اس کے ذریعہ درد اور بیماریوں کا علاج کرتے ہیں ۔ 

مرحوم محدّث قمی لکھتے ہیں :

مرحوم سید نعمت الله جزائری فقر اور تنگدستی کی وجہ سے مطالعہ کے لئے کوئی چراغ بھی نہیں خرید سکتے تھے ، اس لئے وہ چاند کی روشنی میں مطالعہ کرتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں بہت زیادہ کمزور ہو گئی تھیں ، لہذا آپ نے امام حسین علیہ السلام اور عراق میں دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کی مقدس  تربت کو آنکھوں سے مسح کیا جس سے آپ  کی آنکھوں کے نور  اور بینائی میں اضافہ ہو گیا ۔

اس کے بعد آپ لکھتے ہیں : میری بھی یہی حالت تھی اور جب بھی لکھنے اور مطالعہ  کرنے کے بعد میری نظریں کمزور ہو جاتی تھیں تو میں ائمہ اطہار علیہم السلام کی تربت سے استفادہ کرتا تھا اور کبھی ائمہ اطہار علیہم السلام سے روایت ہونے والی احادیث کو اپنی آنکھوں سے ملتا تھا ، انہیں آنکھوں پر رکھتا تھا اور الحمد للہ خدا کا شکر ہے کہ  میری نظر قوی ہے اور وہ کمزوری میں مبتلا نہیں ہے اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ دنیا و آخرت میں میری آنکھیں اہل بیت علیہم السلام کے نور اور ان کی برکات سے منور رہیں ۔ [6]

 


[1] ۔ کامل الزیارات: ص460 ح1، بحارالانوار: 95/123 ح3.

[2] ۔ کامل الزیارات: ص462 ح7، بحارالانوار: 98/120 ح9، وسائل الشیعة: 14/526.

[3] ۔ مصباح  الزائر: ص258، کامل الزیارات: ص470 ح5.

[4] ۔ مصباح المتهجد: 2/732، کامل الزیارات: ص275 ح4.

[5] ۔ مصباح المتهجد : 2/732 ،کامل الزیارات: ص278 ح2، صحیفه باقریه وصادقیه جامعه: ص238.

[6] ۔ اسرار النجاح: 2/103، فوائد الرضویه، محدث قمی: ص695.

    بازدید : 814
    بازديد امروز : 23144
    بازديد ديروز : 72293
    بازديد کل : 129517939
    بازديد کل : 89938741