حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
سقیفہ سے دشمنی کا آغاز

سقیفہ  سے دشمنی کا آغاز

اميرالمؤمنين علی علیه السلام کی خلافت کو غصب کرنے سے دین کے دشمنوں کے ظلم و ستم امام حسین علیہ السلام کے شہادت کا باعث بنے ؛ جیسا کہ آپ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے اور اسی طرح حضرت زینب کبریٰ علیہا السلام نے بھی اس حقیقت کو آشکار کیا ہے ۔ اہل بيت رسول‏ خدا صلّی الله علیه وآله و سلم پر ہونے والا ہر ظلم وستم سقیفہ میں خلافت کو غصب کرنے کی وجہ سے ہے ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے جنازے میں ایک کنیز چیخ چیخ کر یہ فریاد کر رہی تھی کہ امام عسکری علیہ السلام آج کے دن نہیں بلکہ دوشنبہ کے دن (یعنی سقیفہ کے دن) شہید ہوئے ہیں ۔

ہر ظلم و ستم اور بربریت کی بنیاد سقیفہ ہے اور روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے ۔ سقیفہ میں اہل بیت اطہار علیہم السلام پر ظلم و ستم کا آغاز ہوا اور کربلا میں اس میں اس طرح سے شدت آ گئی جس طرح سردیوں میں درختوں کے پتے سوکھ جاتے ہیں ، اسی طرح اس واقعہ سے شجر امامت سوکھ گیا ۔

اور جس طرح خزاں میں سوکھ جانے والے درخت بہار کے موسم  میں پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے ہیں ، اور صرف بہار کے موسم سے ہی ان کی شادابی واپس آ سکتی ہے ، اسی طرح عاشورا کے دن امامت کا سوکھ جانے والا شجر صرف بہار انسانی یعنی ربیع الانام ، منتقم آل محمد علیہم السلام کے ظہور سے ہی سرسبز ہو سکتا ہے ۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کے لئے خلوص اور صدق دل سے آنسو بہانے والے اور سینہ زنی کرنے والے عزاداروں کو چاہئے کہ وہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ خدایا ! یوسف زہرا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور اور خون حسین علیہ السلام کے انتقام سے امامت کے خشک شدہ درخت کو پھر سے ہرابھرا اور سرسبز و شاداب کر دے ۔

حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی آفاقی حکومت میں دنیابھر کے افراد ولایت اہل بیت علیہم السلام کی نعمت سے استفادہ کریں گے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے صدر اسلام سے ہی سقیفہ کے کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح سے اجاگر نہیں کیا گیا ، جس طرح انہیں اجگر کرنے کی ضرورت تھی، اسی وجہ سے مسلمان اس کے آثار اور اثرات سے ضروری آگاہی نہیں رکھتے ۔

***

سقیفہ کےاہم آثار اور نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ سقیفہ کی وجہ سے بنی امیہ اور بنی عباس برسراقتدار آ گئے ۔ اگر سقیفہ تشکیل نہ پاتا تو حکومت ؛ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے اختیار میں ہوتی اور کسی بھی صورت میں بنی امیہ اور بنی العباس کو قدرت و طاقت نہ ملتی اور وہ خلافت کی کرسی پر براجمان نہ ہوتے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل سے دوری کرنے اور انہیں حکومت سے دور کر دینے کی وجہ سے صدیوں تک بنی امیہ اور بنی العباس نے لوگوں پر حکومت کی ، جس کی وجہ سے انہوں نے خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے اپنی دشمنی کو آشکار کیا  ، حلانکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارہا ان کے بارے میں فرمایا تھا :

انّى تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي۔

میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری اہل بیت ۔

لیکن اس تاکید کے باوجود انہوں نے نہ صرف یہ کہ عترت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام نہیں کیا بلکہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کو شہید کرنے کا حتمی ارادہ کیا اور  پھر اپنے اس غیر انسانی ارادے کو عملی جامہ پہنایا ۔ ہمیں اس نکتہ پر توجہ کرنی چاہئے کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام ، امام حسن ، امام حسین اور دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کو شہید کر کے وہ ان کی نسل کو منقطع کرنا چاہتے تھے تا کہ بقیۃ اللہ الأعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت کو روک سکیں اور اپنی ظالمانہ و جابرانہ حکومت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں ۔

ملاحظہ کریں : 294
آج کے وزٹر : 371
کل کے وزٹر : 49009
تمام وزٹر کی تعداد : 129005897
تمام وزٹر کی تعداد : 89592950