حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۱۳ ۔ ہر روزظہرکی نماز کے بعدحضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے لئے دعا

 (١٣)

 ہر روزظہرکی نماز کے بعد حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے لئے دعا

کتاب’’ فلاح السائل ‘‘ میں ذکر ہوا ہے :حضرت امام صادق علیہ السلام کی پیروی میںنمازظہر کی اہم تعقیبات میں سے ایک حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے لئے دعا ہے ،وہ امام جن کے آنے کی خوشخبری حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے صحیح ترین روایات میں بیان فرمائی ہے اور آخری زمانے میں ان کے ظہور کا وعدہ دیا ہے کہ حضرت آخری زمانے میں ظہور فرمائیں گے۔

محمد بن رہبان دبیلی نے روایت کی ہے:

ابو علی محمد بن حسن بن محمد بن جمہور قمی کہتے ہیں:

میرے باپ نے اپنے باباب محمد بن جمہور سے اور انہوں نے احمد بن حسین سکّری سے اور انہوں نے عباد بن محمد مداینی سے نقل کیا ہے :میں مدینہ منورہ میںحضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا ، میں نے دیکھا کہ آنحضرت ظہرکی نماز تمام کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے کہہ رہے ہیں:

يا سامِعَ كُلِّ صَوْتٍ ، يا جامِعَ (كُلِّ فَوْتٍ) ، يا بارِئَ كُلِّ نَفْسٍ بَعْدَ الْمَوْتِ ، يا باعِثُ ، يا وارِثُ، يا سَيِّدَ السَّادَةِ ، يا إِلهَ الْآلِهَةِ ، يا جَبَّارَ الْجَبابِرَةِ ، يا مَلِكَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا رَبَّ الْأَرْبابِ ، يا مَلِكَ الْمُلُوكِ . يا بَطَّاشُ ، يا ذَا الْبَطْشِ الشَّديدِ ، يا فَعَّالاً لِما يُريدُ ، يا مُحْصِيَ عَدَدِ الْأَنْفاسِ وَنَقْلِ الْأَقْدامِ ، يا مَنِ السِّرُّ عِنْدَهُ عَلانِيَةٌ ، يا مُبْدِئُ ، يا مُعيدُ . أَسْأَلُكَ بِحَقِّكَ عَلى خِيَرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ ، وَبِحَقِّهِمُ الَّذي أَوْجَبْتَ لَهُمْ عَلى نَفْسِكَ ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ السَّلامُ،وَأَنْ تَمُنَّ عَلَيَّ السَّاعَةَ السَّاعَةَ بِفِكاكِ رَقَبَتي مِنَ النَّارِ،  وَأَنْجِزْ لِوَلِيِّكَ وَابْنِ نَبِيِّكَ الدَّاعي إِلَيْكَ بِإِذْنِكَ ، وَأَمينِكَ في خَلْقِكَ ، وَعَيْنِكَ في عِبادِكَ ، وَحُجَّتِكَ عَلى خَلْقِكَ ، عَلَيْهِ صَلَواتُكَ وَبَرَكاتُكَ وَعْدَهُ .أَللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِنَصْرِكَ ، وَانْصُرْ عَبْدَكَ ، وَقَوِّ أَصْحابَهُ وَصَبِّرْهُمْ ، وَاجْعَلْ لَهُمْ مِنْ لَدُنْكَ سُلْطاناً نَصيراً ، وَعَجِّلْ فَرَجَهُ ، وَأَمْكِنْهُ مِنْ أَعْدائِكَ وَأَعْداءِ رَسُولِكَ ، يا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ .

اے ہر آواز سننے والے، اے (ہرنابود ہونے والے کو جمع کرنے والے،اے موت کے بعد ہر نفس و جان کو خلق کرنے کرنے والے،اے باعث،اے وارث،اے آقاؤں کے آقا،اے معبودوں کے معبود،اے غلبہ پانے والوں پر غالب،اے دنیا و آخرت کے بادشاہ،اے اے پالنے والوں کے پالنے والے،اے بادشاہوں کے بادشاہ،  اے بہت زیادہ سختی گیری کرنے والے ،اے اپنے ارادہ کے مطابق انجام دینے والے،اے نفوس کی تعداد اور قدموں کی نقل و حرکت کو شمار کرنے والے،اے وہ ہ جس کے سامنے مخفی بھی آشکار ہیں،اے خلقت کا آغاز کرنے والے،اے پلٹانے والے،میںتیری مخلوقات میں سے تیری برگزیدہ بندوں پر تیرے حق کے طفیل تجھ سے مانگتا ہوں،اور     اس حق کے طفیل کہ جو تو نے ان کے لئے خود پر لازم کیا ہے کہ محمد  اور آپ کی اہلبیت (ان پر سلام ہو)پر درود بھیج،اور اسی ساعت ،اسی ساعت مجھ پر احسان فرما کر مجھے آگ سے نجات دے،اپنے ولی اور تیرے اذن سے تیری طرف دعوت دینے والے نبی کے فرزند کے لئے اپناوعدہ پورا فرما کہ جو تیری مخلوق میں سے تیرا امانتدار،تیری بندوں میں سے تیری آنکھ،تیری مخلوقات پر تیری حجت ہے ،ان پر تیرا    درود اور برکات ہوں۔پروردگارا!اپنی نصرت سے ان کی تائید فرما ،اور اپنے بندے کی نصرت و مدد فرما،اور اس کے اصحاب کو قوت عطا کراور انہیں صبر عنائت فرما،اور ان کے لئے اپنی طرف سے نصرت کرنے والی قدرت قرار دے،اور اسے جلد راحت عطا فرما،اوراسےاپنے اور اپنے رسول کے دشمنوں پر قدرت عطا فرما،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

 میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جائوں! کیاآپ نے اپنے لئے دعا فرمائی؟

آنحضرت نے فرمایا :نور آل محمد علیہم السلام کے لئے اور جو  ان میں غائب ہے اور جوخدا کے حکم سے ان کے دشمنوں سے ان کا انتقام لے گا ۔

میں نے عرض کیا : میں پ پر قربان جاؤں!آنحضرت کب قیام کریں گے ؟

آنحضر ت نے فرمایا : جب خدا وند چاہے کہ جس کے ہاتھ میں خلقت اور امور ہیں ۔

میں نے عرض کیا :کیا ان کے قیام و خروج کی کچھ علامات اور نشانیاں ہیں ؟

حضرت  امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ہاں!اس کی مختلف نشانیاں ہیں۔

میں نے عرض کیا:وہ کون سی نشانیاں ہیں؟

آپ نے فرمایا:زمین کے مشرق اور مغرب سے ایک پرچم بلند ہوگا اور اہل’’ زوراء‘‘  کو فتنہ پوری طرح گھیر لے گا اور میرے چچا حضرت زید کے بیٹوں میں سے ایک شخص یمن سے قیام کرے گا اور خانہ کعبہ کا پردہ تاراج ہوگا[1]  ١  اور جو خدا کی مشیت کا تقاضا ہوگا، وہی ہوگا ۔[2]

کتاب’’مکیال المکارم‘‘ میں ذکر ہوا ہے: اس دعا سے چند چیزیں استفادہ کی جاتی ہیں:

١۔حضرت حجت صلوات اللہ علیہ کے حق میں دعاکرنا  اور ظہر کی نماز کے بعد آپ کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنامستحب ہے ۔

٢حضرت حجت صلوات اللہ علیہ کے لئے دعا کرتے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا مستحب ہے۔

٣۔حاجت طلب کرنے سے پہلے ائمہ اطہار علیہم السلام کو اپنا شفیع قرار دینا اور ان کے حق میں دعا کرنا مستحب ہے۔

٤۔دعا کے آغاز میں خداکی حمد و ثناء کرنا مستحب ہے۔

٥۔حاجت طلب کرنے سے پہلے محمد و آل محمد علیہم السلام پر صلوات بھیجنا مستحب ہے۔

٦۔استغفار کے ذریعہ خود کو گناہوں سے پاک کرنا تا کہ پاکیزہ دل کے ساتھ اجابت دعا کے لئے آمادہ ہو۔اس مطلب کی دلیل و شاہد دعا کا وہ فقرہ ہے جس میں امام نے بخشش،مغفرت اور آگ سے رہائی کے لئے درخواست کی ہے۔

٧۔ائمہ اطہار علیہم السلام کے کلام میں ’’ولی مطلق‘‘( جب یہ کسی قید و اضافہ کے بغیر ہو)سے مراد حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔

٨۔آنحضرت کے اصحاب و انصار کے حق میں دعا کرنا بھی مستحب ہے۔

٩۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہمارے اعمال کے شاہد ہیں  اور اس مطلب پر یہ جملہ’’ آپ کی نگاہیں آپ کے چاہنے والوں پر ہیں‘‘دلالت کرتا ہے۔

١٠۔حضرت حجت صلوات اللہ علیہ کے القابات میں سے ایک لقب نور آل محمد علیہم السلام ہے۔ اس بارے میں متعدد روایت بھی موجود ہیں اور محقق نوری نے ان میں سے بعض روایات کو اپنی کتاب’’نجم الثاقب‘‘میں ذکر کیا ہے۔

١١۔امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف امیر المؤمنین علیہ السلام،امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے علاوہ بقیہ ائمہ اطہار علیہم السلام سے افضل ہیں اور بعض روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔

١٢۔خداوند عالم نے ان کو محفوظ رکھا ہے اورخدانے اپنے اور اپنے پیغمبروں کے دشمنوں سے انتقام لینے کے لئے ان کے ظہور میں تاخیر کی ہے۔اس بارے میں بھی متواتر روایات موجود ہیں۔

١٣۔حضرت حجت صلوات اللہ علیہ کے ظہور کا وقت اسرار الٰہی میں سے ہے ،یہ مصلحت الٰہی کا تقاضا ہے اور اس بارے میں بھی متواتر روایات موجود ہیں۔

١٤۔مذکورہ علامتیں اور نشایناں حتمی نہیں ہیں کیونکہ اپنے کلام کے آخر میں فرماتے ہیں ’’مشیت الٰہی جس بات کا تقاضا کرے گی ،وہی ہو گا‘‘۔[3]

 


[1] ۔ بحار الأنوار:ج ۸۶ ، ص ٦٢، فلاح السلائل : ١٧٠ ،المصباح :٤٨ ،البلد الأمین: ٢٧.

[2] ۔ مکیال المکارم :ج ۲ ، ص ۱۱.

[3] ۔ مکیال المکارم :ج ۲ ، ص ۱۱.

ملاحظہ کریں : 186
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 110543
تمام وزٹر کی تعداد : 138576702
تمام وزٹر کی تعداد : 95145373