حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کعب الأحبار اور عمر

کعب الأحبار اور عمر

 

کتاب’’پیغمبر(ص) و  یہود  حجاز‘‘میں  لکھتے  ہیں:

کعب الأحبار  کا نام کعب بن ماتع تھا اور جس کا تعلق یمن اور قبیلۂ حمیر سے تھا۔وہ عمر کے زمانے میں اسلام قبول کرنے کے بعد مدینہ آ گیا۔ عمر کے نزدیک اسےصحابہ بلکہ صحابہ سے بھی بڑھ کر مقام حاصل تھا۔[1]عمر کو اہل کتاب سے علم حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر غضبناک ہوئے تھے۔[2]لیکن اپنی خلافت کے زمانے میں اس نے اپنی یہ خواہش پوری کی اور  اس نے اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لئے اہل کتاب میں سے تازہ مسلمانوں سے زیادہ استفادہ کیا۔اسی وجہ سے وہ کعب کو اپنے پاس لے گیااوروہ مختلف موضوعات کے بارے میں اس سے سوال پوچھا کرتا تھا۔

ابن ابی الحدید نے کعب کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منحرفین میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام  کعب کو جھوٹا کہتے تھے۔[3]کعب الأحبار(جو سنہ٣٢ھ میں شہر حمص میں  ہلاک ہو ا[4])   صدیوں سے مورد وثوق اور قابل اطمینان تھا اور تفسیری و تاریخی کتابیں اس کی روایات سے بھری پڑی ہیں ،لیکن دور حاضر میں جدید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابہامات و اشکالات کے ضخیم پردے کے پیچھے  کعب الأحبار کا (مکروہ) چہرہ پوشیدہ  ہے جس نے اہلسنت کی دین شناس اور علماء رجال کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔[5] چاند اور سورج کی خلقت کے موضوع کے بارے  میں طبری نے کعب سے منقول اسرائیلیات کے کچھ نمونے بیان کئے ہیں۔اس تاریخی دستاویز میں ابن عباس، کعب کی باتوں پر نارض ہوئے اور تین مرتبہ کہا: کعب نے جھوٹ بولا ہے،اور اس کے بعد مزیدیہ کہا:یہ بات یہودیوں کی ہے جسے کعب اسلام میں   داخل کرنا چاہتا ہے۔[6]،[7]

عمر کا کعب سے مشورہ لینا صرف دینی واعتقادی امور میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ کچھ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے سیاسی و حکومتی نقطۂ نظر کے پیچھے بھی جناب کعب کے مشورے شامل تھے۔!

امالی میں ابوجعفر محمد بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

 اپنی خلافت کے آخری زمانے میں  جب عمر پر ناتوانی حاکم ہو گئی اور وہ لوگوں کے امور چلانے سے عاجز ہو گیا تو وہ خدا سے موت کی دعا کیا کرتا تھا۔ ایک دن جب میں اس کے پاس موجود تھا ، اس نے کعب الأحبار سے کہا:مجھے میری موت نزدیک دکھائی دے رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعد خلافت کسی ایسے شخص کو سونپ کر جاؤں جو اس مقام کے لائق ہو۔علی علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟اس بارے میں تمہیں اپنی کتابوں میں کیا کچھ ملا ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے تمام واقعات تمہاری کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں!

کعب نے کہا:میرے خیال میں علی علیہ السلام اس کام کے لائق نہیں ہیں!کیونکہ وہ شخص دین پر استوار ہے اور کسی بھی غلطی سے چشم پوشی نہیں کرتا اور اپنے اجتہاد پر بھی عمل نہیں کرتا،اس طریقۂ کار سے وہ لوگوں پر حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن مجھے اپنی کتابوں میں جو کچھ ملا وہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے بیٹوں کو حکومت نہیں ملے گی اور اگر انہیں حکومت مل بھی گئی تو شدید افراتفری پھیلے گی!

عمر نے پوچھا:کیوں؟

کعب نے کہا:چونکہ اس نے خون بہایا ہے!اور خدا نے ایسے افراد پر حکومت کو حرام قرار دیاہے! جس طرح داؤد نے جب بیت المقدس کو بنانے کا ارادہ کیا تو خدانے اس سے فرمایا:تم اس کام کے لائق نہیں ہو کیونکہ تم نے خون بہایا ہے؛بلکہ یہ کام سلیمان کے ذریعہ انجام پائے گا!

عمر نے کہا:لیکن کیا علی علیہ السلام نے یہ خون حق پر نہیں بہایا؟

کعب نے جواب دیا:اے امیرالمؤمنین!لیکن کیا داؤدنے بھی وہ خون حق پر نہیں بہایا تھا؟!

عمر نے کہا:پس مجھے یہ بتاؤ کہ حکومت کسے ملے گی؟

کعب نے کہا:ہمیں یہ ملتا ہے کہ صاحب شریعت اور ان کے دو صحابیوں کے بعد حکومت انہیں ملے گی جن کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اصل دین پر جنگ کی ہے(یعنی بنی امیہ)۔

یہ سننے کے بعد عمر نے کئی بار آیت استرجاع پڑھی اور ابن عباس کی طرف دیکھ کر کہا:میں نے اسی سے ملتے جلتے مطالب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے سنے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیں گے،میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے منبر پر بندر بیٹھے ہیں اور ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:

’’وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ‘‘۔[8]،[9]

یہ واقعہ کئی اعتبار سے قابل غور ہے:اس واقعہ سے کعب کی امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے شدید دشمنی اور بغض کا پتہ چلتا ہے اور اس کی دلیل بھی بہت ہی واضح ہے کیونکہ جزیرة العرب میں امیر المؤمنین علی علییہ السلام ہی کے طاقتوار ہاتھوں سے یہود کی شان و شوکت خاک میں ملی اور کعب یہ جانتا تھا کہ اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت و رہبری ملی تو ہمیشہ کے لئے یہودیوں کانام ونشان مٹ جائے گا۔اسی وجہ سے کعب کی یہ درینہ خواہش تھی کہ خلافت امویوں کو ملے کیونکہ ان کے لئے اسلام کی تکریم  کی کوئی اہمیت نہیں ہے  اور ان کا ہدف و مقصد صرف دنیا ہے۔[10]،[11]

 


[1]۔  کعب الأحبار اور دوسرے خلیفہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں  تاریخ سیاسی اسلام:ج٢ص٨٩ کے مابعد کا حصہ ملاحظہ کریں۔

[2]۔  المصنف:ج٦ص١١٢ .

[3]۔  شرح نہج البلاغہ:ج٤ص٧٧،کعب پر ابوذر کے اعتراض کے بارے میں بھی وہی منبع:ج٣ص٥٤ .

[4]۔  الطبقات الکبری:ج٧ص٣٠٩ .

[5]۔  تاریخ سیاسی اسلام:ج٢ص٨٩ .

[6]۔  تاریخ الطبری:ج١ص٤٤اور ٥١ .

[7]۔  پیغمبر(ص) و یہود حجاز:٤۹ .

[8]۔ سورۂ اسراء،آیت:٦٠ .

[9]۔  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج١٢ص٨١ .

[10]۔ شیعہ و تہمت ھای ناروا:٦٧ .

[11]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:٩٠ .

 

    ملاحظہ کریں : 2158
    آج کے وزٹر : 31349
    کل کے وزٹر : 109951
    تمام وزٹر کی تعداد : 132119282
    تمام وزٹر کی تعداد : 91595628