حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو

۱- سلّام بن مشکم اور۔۔۔

کتاب’’پیامبر(ص)و  یہود حجاز‘‘  میں  لکھتے  ہیں:

تاریخ اسلام کے منابع میں یہودی سربراہوں میں سے کچھ نام دوسروں سے نمایاں نظر آتے  ہیں۔جیسے کعب بن اشرف،ابو رافع(سلّام١ بن ابی حقیق)اور ابو حقیق کا خاندان کہ جن میں کعب بن اسد،حیی بن اخطب اور اس کا خاندان، مخیریق،سلّام[1] بن مشکم،عبداللہ بن سلّام،محمد بن کعب قرظی اور کعب الأحبار۔

کعب بن اشرف بنی نضیر کے شاعروں میں سے تھا  جو اسلام،مسلمانوں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف اپنے پروپیگنڈوں اور سازشوں کی وجہ سے آنحضرت کے اصحاب کے ہاتھوں مارا گیا۔حکومت مدینہ کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں ابو رافع کا بھی بہت اہم کردار تھا اور آخر میں اسے اسی کی سزا ملی تھی ۔

کنانہ بن ربعی بن حُقیق ؛ جسے کبھی کنانہ بن ابی حقیق کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جوخیبر کے بزرگوں میں سے تھا اور وہ ان کاصاحب کنز تھا۔[2]وہ خیبرکی جنگ میں مارا گیا۔اس سے پہلے مدینہ کے خلاف جماعتوں کی تحریکوں میں بھی اس کا نام نظر آتا ہے۔

حیی بن اخطب،جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسےمعاہدے  پر دستخط لینے کے لئے بنی نضیر کا نمائندہ تھا اور اسلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا۔وہ اس قبیلہ کا بزرگ شمار کیا جاتا تھا،عہد وپیمان توڑنے کی وجہ سے اسے مدینہ سے نکال دیا گیا اور وہ خیبر چلا گیا۔جنگ احزاب میں اس نے کعب بن اسد(جو بنی قریظہ کا بزرگ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاہدہ میں مدّ مقابل تھا) سے بہت اصرار کیا اور اسے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے کئے گئے معاہدےکو توڑنے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں سے مل جانے پر مجبور کیا۔ان دونوں افراد  کا انجام یہ ہوا کہ یہ دونوں بنی قریظہ کے واقعہ میں مارے گئے۔

مخیریق ؛ یہ وہ تنہا یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا اور اس پر ثابت قدم رہا۔ان کا شماربنی قینقاع کے بزرگوں اور عالموں  میں ہوتا تھاجو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کئے گئے معاہدے میں یہودیوں کے تیسرے گروہ کے نمائندہ تھے۔جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ احد کے لئے مدینہ سے باہر گئے تو مخیریق نے اپنی قوم سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اس لئے ان کی مدد کرنی چاہئے ۔یہودیوں نے کہا:آج ہفتہ کا دن ہے اور وہ ان کے ساتھ نہ گئے۔مخیریق نے اسلحہ اٹھایااور احد پہنچ گئے اور مسلمانوں سے مل کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:یہودیوں میں سے مخیریق بہترین تھے۔[3]

سلّام بن مشکم اگرچہ اسلام کے دشمنوں میں سے تھا لیکن اس کے باوجود اپنے یہودی کیش اور علماء کورسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرنے اور عہد و پیمان توڑنے سے خبردار کیا کرتاتھا اور آنحضرت کی رسالت کا  معترف تھا۔[4]غزوۂ سویق میں بھی اس یہودی کا نام ملتا ہے۔بدر کی شکست کے بعد ابو سفیان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرنے کی نذر کی تھی  جس کے لئے وہ مشرکین کے ایک گروہ کے ساتھ چھپ کر مدینہ آیا تھا اور بنی نضیر کے پاس گیاتھا ۔سلّام بن مشکم نے (جواس وقت بنی نضیر کا بزرگ اور ان کاصاحب کنز تھا )ابوسفیان کی بات مان کر اسے مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مشرکوں نے مدینہ کے اطراف میں  انتشار پھیلایا اور وہ ستّوؤں کووہیں چھوڑ کراس جگہ سے چلے گئے۔جب مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا تو انہیں وہی ستّو ملے جو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا زاد راہ تھا، اس وجہ سے اسے غزوۂ سویق کہا جاتا ہے۔[5]سلّام بن مشکم مدینہ سے نکل جانے کے بعد خیبر میں زندگی گزارتا تھا۔بنی قریظہ کے واقعہ اور حیی بن اخطب کے مارے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر یہودیوں کی قیادت سنبھالی اور جنگ خیبر میں قتل ہو گیا جب کہ وہ بستر مرگ پر تھا۔[6]جنگ خیبر کے بعد جس عورت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زہر دیا تھا وہ اسی سلّام کی بیوی تھی کہ جس کاباپ اور چچا بھی جنگ میں مارے گئے تھے۔[7]

عبداللہ بن سلّام وہ دوسرا یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا لیکن مخیریق کے برعکس آخر میں یہ امویوں کا آلۂ کار اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کا مخالف بن گیا۔یہی موضوع اور اس کا اسرائیلیات سے آگاہ ہونا باعث بنا کہ اس سے نقل ہونے والی روایات یااس کے بارے میں نقل ہونے والی گزارشات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔مثلاً اس کے اسلام قبول کرنے کے زمانے کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس نے ہجرت کے پہلے سال اسلام قبول کیا۔[8]

ابن اسحاق نے خود عبداللہ سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ میں داخل ہوتے وقت اس نے اسلام قبول کیا کہ جب آنحضرت قبا میں رہتے تھے۔[9]لیکن اس کے اسلام لانے کے بارے میں ایک دوسری خبر یہ ہے کہ اس نے سن آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا۔[10]معاصر مؤرخ جعفر مرتضی عاملی دوسرے قول کو قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں:اس روایت کی طر ف توجہ نہ کرنے کی وجہ اس کے راویوں میں سے ایک کا شیعہ ہونا ہے۔[11]

دوسرا مورد اختلاف موضوع اس کے بارے میں نازل ہونے والی کچھ آیات کا شان نزول ہے۔انہیں آیات میں سے ایک سورۂ احقاف کی آیت  ہے ، جس میں ارشاد ہوتا ہے:’’کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا جب کہ بنی اسرائیل کاایک گواہ ایسی ہی بات کی گواہی دے چکا ہے اور وہ ایمان بھی لایا ہے اور پھر بھی تم نے غرور سے کام لیا ہے، بیشک اللہ ظالمین کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے‘‘۔[12]

بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ یہ آیت عبداللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[13] لیکن بعض کہتے ہیں چونکہ سورۂ احقاف مکی ہے  اور عبداللہ نے مدینہ میں اسلام قبول کیا تھا ، اس لئے اس آیت سے عبداللہ مراد نہیں ہو سکتا۔[14]

علامہ طباطبائی سورہ کے مکی اور آیت کے مدنی ہونے کے اشکال کو ردّ کرتے ہوئے متعدد روایات کی بنیاد پر عبداللہ کو ہی اس آیت کا مصداق سمجھتے ہیں۔نیز وہ ان روایات کو بھی اشکال سے خالی نہیں سمجھتے۔[15]

عبد اللہ کو جن دوسری آیات کا مصداق شمار کیا جاتا ہے ،وہ یہ ہیں:سورۂ آل عمران آیت١٩٩، سورۂ رعد آیت٤٣ اور سورۂ شعراء کی  آیت١٩٧۔[16]

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اہل کتاب میں سے اسلام قبول کرنے والوں  کی تعداد بہت کم تھی[17]،  اس لئے راویوں اور مفسروں نے اہل کتاب کے ایمان لانے کی طرف اشارہ کرنے والی آیات عبداللہ بن سلّام پر منطبق کی ہیں۔البتہ ان تین آیتوں کے بارے میں دوسروں کے نام بھی ذکر کئے  گئے ہیں۔

ان سب کے باوجود شعبی نے کہا ہے:’’کوئی آیت بھی عبد اللہ کی شأن میں نازل نہیں ہوئی ہے۔([18])  دلچسپ تو یہ ہے کہ ایک رپورٹ میں ان شأن نزول کا راوی بھی خود عبداللہ ہے!

عسقلانی کہتے ہیں:جب ابن سلّام عثمان کا دفاع کرنے کے لئے لوگوں سے بات کر رہا تھا تو اس نے اشارہ کیا کہ میرے بارے میں آیۂ’’شَھِدَ شَاھِدٌ‘‘اور ’’مَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ‘‘ نازل ہوئی ہے۔[19]ابن سلّام کے بارے میں  دوسرا قابل توجہ موضوع کچھ روایات ہیں جن میں اسے ’’عشرۂ مبشرہ‘‘[20] میں سے قرار دیا گیا ہے۔[21]

ان متعددروایتوں(جنہیں نقل کرنے کے سلسلہ میں عبداللہ بن سلّام  کا نام بھی ہے) کے علاوہ جس مورد میں اس کا نام منابع میں نقل ہوا ہے وہ عثمان کے محاصرہ کا واقعہ ہے۔ اس بارے میں مؤرخین کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سلّام نے  عثمان کا محاصرہ کرنے والوں کو دور کرنے اور انہیں خلیفہ کا خون بہانے سے روکنے کی کوشش کی۔

عبداللہ کے جواب میں مخاطبین نے کہا:

’’اے یہودی زادہ!ان امور سے تمہارا کیا سروکار؟‘‘[22]

ابن شبّہ نے اپنی کتاب میں عبداللہ کی جانب سے عثمان کا دفاع کرنے کے بارے میں ایک باب لکھا ہے[23] اور ابن سعد نے عثمان کی حمایت میں اس سے روایات نقل کی ہیں اور لکھا ہے:

عبداللہ بن سلّام نے عثمان کے قتل کے دن کہا:’’ آج عرب نابود ہوگئے‘‘۔[24]

یہ تازہ مسلمان یہودی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی![25] اور جو سنہ  ٤٣ ھ میں اس دنیا سے چلا گیا۔[26]

 


[1] ۔ منابع میں ان یہودیوں کا نام تشدید کے نقل ہوا ہے اور اگر مؤرخین نے اس کی طرف توجہ نہ بھی کی ہو تو پھر بھی محققین نے اس کی تاکید کی ہے۔سہیلی’’عبداللہ بن سلّام‘‘کے نام کے ذیل میں کہتے ہیں:چونکہ سلام(تشدید کے بغیر)خدا کے اسماء میں سے ہے اس لئے مسلمانوں میں یہ نام نہیں ہے بلکہ یہودی اس طرح(سلام ،تشدید کے بغیر)نام رکھتے تھے۔لیکن سہیلی کے قول پر بہت سے اعتراضات ہوئے کہ جن میں سے ایک یہی مورد ہے۔

[2] ۔ آل ابی حقیق کا کنز یہودیوں کے مال کا خزانہ تھا ۔اونٹ کی کھال میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، جو اس خاندان کے بزرگ کے پاس ہوتا تھا۔مکہ کی شادیوں کے لئے یہ خزانہ کرائے پر دیا جاتا تھا اور کبھی ایک مہینہ کے لئے یہ مکہ والوں کے پاس ہوتا۔ ’’المغازی: ج۲ص٦۷۱‘‘.

[3]۔ سیرۂ ابن ہشام:٥١٨١،المغازی:ج۱ص۲٦۲ .

۲۔ المغازی:ج١ص٣٦٥،٣٦٨ اور ٣٧٣.

[5]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج٢ص٤٤،المغازی:ج١ص١٨١.

[6]۔ المغازی:ج١ص٥٣٠ اورج٢ص٦٧٩ .

[7]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج٢ص٣٣٧ اور ٦٧٩ .

[8] ۔ تاریخ خلیفہ:١٩،دلائل النبوة:ج٢ص٥٢٦۔بیہقی نے اس کتاب میں ایک مخصوص باب تشکیل دیا ہے ، جس میں عبداللہ کے اسلام قبول کرنے کی روایت کو ذکر کیاہے۔

[9] ۔سیرۂ ابن ہشام:ج١ص٥١٦.

[10]۔ الأصابہ:ج٤ص١١٨ .

[11]۔ الصحیح:ج٤ص١٤٥ .

[12]۔ سورۂ احقاف،آیت:١٠ .

[13]۔ صحیح البخاری:ج٤ص٢٢٩،الطبقات الکبری:ج٢ص٢٦٩،مجمع البیان:ج٥ص١٢٦.

[14]۔ الدر المنثور:ج٧ص٣٨٠ .

[15]۔ المیزان:ج١٨ص١٩٩ اور ٢٠٣ .

[16]۔ ان تین آیتوں کے بارے میں بالترتیب :المغازی:٣٢٩١،مجمع البیان:٤٦٢٣،الطبقات الکبری:٢٦٩٢ .

[17]۔  ابن اسحاق نے صرف مخیریق اور عبداللہ بن سلّام کا نام ذکر کیا  ہے کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا(سیرۂ ابن ہشام:  ج۱ص۵۱٦)   البتہ کہا جاتا ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ دوسرے افراد نے بھی اسلام قبول کیا تھا ،(سبل الہدی:ج۳  ص۳۷۸)  لیکن بہ ہر حال ان کی تعداد کم ہے۔

[18] ۔  الدر المنثور:ج۷ص۳۸۰۔جعفر مرتضی عاملی بھی ان قرآنی آیتوں کو عبداللہ پر منطبق کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور اس روایت کو تقویت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بعید نہیں کہ معاویہ نے ابن سلّام کے لئے فضیلت گھڑی ہو ،بالخصوص آیۂ رعد کے مصداق امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں ۔ وہ کتاب سلیم کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں قیس بن سعد آیت کو حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ اسے عبداللہ سے تفسیر کرتا ہے۔(الصحیح :ج۴ص۱۴۸ اور ١٥٠).

[19]۔ الأصابة:ج۴ص۱۲۰ .

[20]۔ وہ دس افراجن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے!

[21]۔ صحیح البخاری:ج۴ص۲۲۹،الطبقات الکبری:ج۲ص۲٦۹.

[22]۔ انساب الأشراف:ج٦ص١٩٢ اور ٢٢١،تاریخ الطبری:ج٣ص٤٥٢ .

[23]۔ تاریخ المدینہ:ج٢ص١١٧٥.

۳۔ الطبقات الکبری:ج٣ص٥٩ .

۴۔ مروج الذہب:ج٢ص٣٦١،شرح نہج البلاغہ:٩٤،تاریخ الطبری:ج٣ص٤٥٢ .

۵۔ تاریخ خلیفہ:١٢٦ .

    ملاحظہ کریں : 3448
    آج کے وزٹر : 27038
    کل کے وزٹر : 109951
    تمام وزٹر کی تعداد : 132110662
    تمام وزٹر کی تعداد : 91587006