حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
غور و فکرسے کام کرنا

غور و فکرسے کام کرنا

سعی و کوشش،جستجو اور زیادہ کام کرنا مومنوں کی خصوصیات میں سے ہے۔وہ ایمان اور یقین کامل کی وجہ سے کبھی فارغ نہیں بیٹھتے  بلکہ ہمیشہ کام اور فعالیت کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس حقیقت کو بیان کرنے والے ایک مقام پر فرماتے ہیں:

''اَلْمُؤْمِنُ قَلِیْلُ الزَّلَلِ کَثِیْرُ الْعَمَلِ''([1])

مومن کم غلطی کرتا ہے لیکن وہ بہت زیادہ کام انجام دیتاہے۔

باایمان شخص زیادہ کام کرنے کے باوجودبھی بہت کم خطاؤں کا مرتکب ہوتاہے اور اس سے بہت کم لغزش سرزد ہوتی ہیں ۔یہ چیز خود اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مومن شخص میںتدبّر کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت امام علی مرتضٰی علیہ السلام اپنے ایک کلام میں فرماتے ہیں:

''اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْفِعْلِ یُؤْمِنُ الْعِثٰارَ''([2])

کام کو انجام دینے سے پہلیاس کے بارے میں تدبّر انسان کو خطاؤں سے محفوظ رکھتاہے۔

ایک دوسری روایت میں آنحضرت انسانوں کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکَ وَ أَنْ تَعْمَلْ عَمَلاًبِغَیْرِ تَدْبِیْرٍ وَ عِلْمٍ''([3])

کسی کام کو تدبیر اور آگاہی کے بغیر انجام دینے سے پرہیز کرو۔

آپ اجتماعی کاموں کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

''اِجْعَلْ لِکُلِّ اِنْسٰانٍ مِنْ خَدَمِکَ عَمَلاً تَأْخُذُہُ بِہِ،فَاِنَّہُ اَحْریٰ اَلاّٰ یَتَوٰاکَلُوا فِیْ خِدْمَتِکَ''([4])

اپنے خدمت کرنے والوں میں  سے ہر ایک کے لئے کام معین کرو  اور اس سے وہی کام لو، کیونکہ ایسا کرنا اس لئے مناسب ہے کہ وہ تمہاری خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں۔

اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اجتماعی کاموں میں تدبّر اور غور و فکرکے لئے ہر ایک فرد کے لئے اس کے کام کو معین کر دیا جائے اور اس سے وہی کام لیاجائے تاکہ ان کے پاس اپنا کام دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کا کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔

لیکن انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اگر انسان کو توفیق ملے تو اس میں خودبینی ایجاد نہیں ہونی چاہئے  اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہ جو بھی کام انجام دے رہا ہے وہ اس کی اپنی توانائی ،قدرت اور شخص ارادے کی وجہ سے ہے ۔کیونکہ انسان میں ارادہ ،خدا کی توفیق سے ہی پیدا  ہوتاہے۔

اس بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''فَاجْتَھِدُوا فِی طٰاعَةِ اللّٰہِ اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تَکُوْنُوا مُؤْمِنِیْنَ حَقًّا حَقًّا وَ لاٰ قُوَّّةَ اِلاّٰ بِاللّٰہِ''([5])

اگر تم واقعاً چاہتے ہوکہ تمہارا شمار حقیقی مومنوں میں ہو تو خدا کی اطاعت کی کوشش کرو اور اس کام کی  قوت فقط خدا کے وسیلے سے ہی ملتی ہے۔

اگر انسان کو بہت زیادہ توفیق میسر ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ نیک اور مشکل کام انجام دینے چاہئیں اور کبھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہئے  اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے جو عبادات انجام دی ہیں وہ اس کی اپنی توانائی ہی تھی۔کیونکہ جس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ قُوَّةَ اِلاّٰ بِاللّٰہِ''

یعنی کاموں کو انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہے مگر خدا کے وسیلہ سے۔

پس یہ خدا کا لطف ہے جو کہ حقیقی مومنوں اور اولیاء خدا کے شامل حال ہے  اور وہ توفیق کی وجہ ہی سے سخت عبادی کاموں کو آسانی سے انجام دیتے ہیں  نہ کہ ان کی شخصی توانائی عبادت کو انجام دینے کی قدرت کا سبب بنی۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:

"مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِکَ"([6])

تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔

کیونکہ جس طرح تمام خوبیوں کا اصلی منشاء خداوند عالم ہے  اور تمام برائیوں کا سرچشمہ انسان کا نفس ہے جو خواہشات نفس اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرتاہے۔

 


[1]۔ شرح غرر الحکم: ج١ص٣٨٣

[2]۔ شرح غرر الحکم: ج١ص٣٨٤

[3]۔ شرح غرر الحکم: ج٢ص٢٢٠

[4]۔ بحار الانوار: ج٧٤ص١٤٣، نہج البلاغہ ،مکتوب:٣١

[5]۔ بحار الانوار: ج٧٨ص٢٠٠

[6]۔ سورۂ نساء، آیت:٧٩

 

 

    ملاحظہ کریں : 2208
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 71877
    تمام وزٹر کی تعداد : 131807979
    تمام وزٹر کی تعداد : 91408402