حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
تقویٰ کو ترک کرنے کی وجہ سے تبدیلی

تقویٰ کو ترک کرنے کی  وجہ سے تبدیلی

کبھی روحانی حالات بعض مسائل کے درپیش آنے کی وجہ سے نابود ہو جاتے ہیں اور کبھی نابود نہیں ہوتے لیکن یہ دوسری حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس کی وضاحت کے لئے ہم یوں کہتے ہیں :کبھی خداوند کریم گناہوں کو بخش دیتاہے اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتا ہے اور کبھی خدا انہیں نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔لہذا  خدا کو پکارتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

پہلی صورت میں گناہ کسی دوسری حالت میں تبدیل ہونے کے بجائے بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں  اور دوسری صورت میں گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔تقویٰ کا بھی یہی حال ہے کیونکہ تقویٰ کبھی گناہوں کی وجہ سے ختم ہو جاتاہے اور کبھی شہوت اور کسی دوسری معصیت کے غلبہ کی وجہ سے فاسد ہو جاتاہے لیکن نابود نہیں ہوتا بلکہ یہ شیطانی حالات میں تبدیل ہو جاتاہے ۔

مولائے کائنات علی علیہ السلام  فرماتے ہیں: 

''لاٰیُفْسِدُ التَّقْویٰ اِلاّٰ غَلَبَةُ الشَّہْوَةِ''([1])

تقویٰ کو شہوت کے غلبہ پانے کے علاوہ کوئی چیز فاسد نہیں کرتی۔

 

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت  نے یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ کو شہوت کے غالب آنے کے علاوہ کوئی چیز ختم نہیں کرتی بلکہ فرمایا:تقویٰ کو شہوت کے غلبہ کے علاوہ  کوئی چیز فاسد نہیں کرتی  اور یہ تعبیر تغیر و تبدل کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تقویٰ ایک خاص قسم کی حالت ہے جس کے روحانی ومعنوی پہلو ہیں اور یہ اسی صورت میں فاسد ہوتا ہے جب اس میں موجود معنویت ختم  ہو جائے۔

جب کوئی شخص اپنی روحانی حالت کھو بیٹھے تو اس کی روحانی حالت شیطانی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے  اس بناء پر با تقویٰ شخص پر شہوت کا غلبہ ہو جانے اور تقویٰ کے فاسد ہو جانے کی وجہ سے اس میں روحانی روپ میں ایک شیطانی حالت ایجاد ہوتی ہے ۔

اس بناء پر اگر کسی باتقویٰ شخص  پر کسی مقام و منصب کی شہوت غالب آ جائے تو یہ اس منصب تک پہنچنے والے عام شخص سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

رحمانی حالات کا شیطانی اور شیطانی حالات کا رحمانی حالات میں تبدیل ہونا مسلّم ہے۔جن کا تذکرہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات میں بھی  ہے۔

انسان جستجو ،تلاش،کوشش اور انجام دیئے جانے والے اعمال کی وجہ سے روحانی و معنوی توانائیاں کسب کرتا ہے ۔روحانی حالات اس میں نفوذ کرکے اس کے دل و جان میں راسخ ہو جاتے ہیں  اور اس میں مادّی حالات اور طبعی کیفیات کم ہو جاتی ہیں اور اس پر معنوی و روحانی حالات کا غلبہ ہو جاتاہے۔

جس انسان میں روحانی و معنوی حالات پیدا ہو جائیں اور اگر فرض کریں کہ اس میں کوئی تبدّل وتغیّر پیدا ہوجائے تو پھر وہ ایک عام اور طبیعی انسان نہیں رہے گا بلکہ بہت سے مقامات پر اس کے روحانی و رحمانی حالت  شیطانی حالات میں تبدیل ہو جائیں گے۔

جس طرح سالہا سال سے انجام پانے والے بہت سے گناہوں اور خدا کی نافرمانی  کی وجہ سے اس میں شیطانی حالات راسخ ہو جاتے ہیں  اور وہ ارواح خبیثہ اور شیاطین کے ساتھ مل جاتاہے  لیکن توبہ کی وجہ سے نہ صرف وہ خدا کی طرف پلٹ آتاہے بلکہ اس کے حالات ،رحمانی حالات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبھی توبہ کرنے کی وجہ سے گناہگاروں کے گنا ہ بخش دیتاہے اور کبھی نہ صرف یہ کہ ان کے گناہوںکو بخش دیتاہے بلکہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

خدا کے اسماء میں سے ایک ایسا اسم ہے جو گناہگاروں اور معنویت کے قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور وہ یہ  ہے:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

اے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے ۔

گناہوں کا نیکیوں میں تبدیل ہو جانا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کے آثار بھی تبدیل ہو جائیں۔

 


[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج٦ص۳۷٦

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 1961
    آج کے وزٹر : 62792
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131789825
    تمام وزٹر کی تعداد : 91399317