حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

اب ہم  آپ  کے سامنے رسول اکرم ۖ کی بہت اہم روایت پیش کرتے ہیں تا کہ تقویٰ و پرہیزگاری کے عظیم آثار کے بارے میں آپ کے علم و آگاہی میں مزید اضافہ ہو۔

''قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہ:.....قَدْ أَجْمَعَ اللّٰہُ تَعٰالٰی مٰا یَتَوٰاصی بِہِ الْمُتَوٰاصُوْنَ مِنَ الْأَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ فِ خَصْلَةٍٍوٰاحِدَةٍ وَ ھَِ التَّقْویٰ،قٰالَ اللّٰہُ جَلَّ وَ عَزَّ: ( وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّٰہَ )([1])وَ فِیْہِ جِمٰاعُ کُلِّ عِبٰادَةٍ صٰالِحَةٍ،بِہِ وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَی الدَّرَجٰاتِ الْعُلیٰ ،وَالرُّتْبَةِ الْقُصْویٰ،وَ بِہِ عٰاشَ مَنْ عٰاشَ مَعَ اللّٰہِ بِالْحَیٰاةِ الطَّیِّبَةِ وَالْاِنْسِ الدّٰائِمِ، قٰالَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ: (ِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَنَہَرٍ ،،فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ)[3][2])

اولین وآخرین میں سے وصیت کرنے والوں نے جس چیز کی وصیت کی خدا نے اسے ایک ہی خصلت میں جمع کر دیا اور وہ تقویٰ ہے۔

خداوند کا ارشاد ہے: اور ہم نے تم سے پہلے اہلِ کتاب کو اور اب تم کو یہ وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو (یعنی تقوی اختیار کرو)

تقویٰ تمام عبادت صالح کے لئے سرچشمہ ہے اور جس نے بھی بلند درجات تک رسائی حاصل   وہ تقویٰ کے ذریعے سے ہی ہے اور جو بھی خدا کے ساتھ پاک حیات اور دائمی انس رکھتا ہو  اسے اسی کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے۔

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:بے شک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے ، اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے۔

اس بناء پر جو لوگ بلندمعنوی مقامات  و مراتب تک پہنچنے کے خواہاں ہوں وہ خدا کی دی ہوئی پوری زندگی میں خدا اور اولیائے خداکے ساتھ ہی انس رکھیں اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریںکہ اس سے بہتر کوئی اور خزانہ نہیں ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ التَّقْویٰ أَفْضَلُ کَنْزٍ''([4])

بیشک تقویٰ بہترین خزانہ ہے۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے اس خزانے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں اور اس کی حفاظت کریں ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ فِ الْغَیْبِ وَالشَّھٰادَةِ''([5])

تم پرخلوت اور جلوت میں تقویٰ الٰہی کے ساتھ رہنا لازم ہے۔

 

''شریک ''کے برخلاف کچھ لوگوں نے لقمہ ٔ حرام سے پرہیز کیا،تنہائی اور آشکار دونوں صورتوں  میں تقویٰ کا خیال رکھاجس کے نتیجہ میں عالی معنوی مقامات تک پہنچ گئے۔

اب ہم جو واقعہ بیان کر رہے ہیں ،وہ اسی کا ایک نمونہ ہے:

تبریز کے ایک بہت مالدار تاجر کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہورہاتھا۔اس نے بہت سے ڈاکٹروں اور حکیموںکی طرف رجوع کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ وہ نجف اشرف چلا گیا اور وہاں امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں توسل کیا اور استجارہ کے عمل میں مشغول ہو گیا۔گذشتہ زمانے میں اور اب بھی یہ رائج ہے کہ نجف کے صالح افراد ،یا مسافرین چالیس ہفتوں تک ہر بدھ کی رات مسجد سہلہ جاتے ہیںاور وہاں نماز اور مسجد کے اعمال انجام دینے کے بعد مسجد کوفہ چلے جاتے ہیںاور رات سے صبح تک  وہیں رہتے یہاں تک کہ وہ اسی مدت یا پھر آخری رات امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت سے مشرّف ہوتے۔اگرچہ ان میں سے بہت آنحضرت  کو اس وقت نہ پہچانتے اور پھر بعد میں متوجہ ہوتے۔

اب تک بہت سے افراد نے اس عمل کو انجام دیاہے اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔تبریز کے تاجر نے بھی بدھ کی چالیس راتوں تک یہ عمل انجام دیا اور آخری رات اس نے خواب اور بیداری کے عالم میں ایک شخص کو دیکھا جو اس سے فرما رہے ہیں کہ محمد علی جولایی دزفولی کے پاس جاؤ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی اور اس نے کسی اور کو نہ دیکھا۔

وہ کہتاہے:میں نے اب تک دزفول کا نام نہیں سنا تھامیں نجف آیا اور میں نے دزفول کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے اس کا پتہ بتا دیا ۔میں  اپنے نوکر کے ہمراہ اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جب میں شہر میں پہنچا تو میں نے اپنے نوکر سے کہا:ہمارے پاس جو سامان ہے تم لے کر جاؤ ،میں تمہیں بعد میں ڈھونڈ لوںگا۔

وہ چلا گیا اور میں محمد علی جولایی کو تلاش کرنے لگا۔لوگ اسے نہیں پہچانتے تھے  بالآخر ایک شخص ملا جو جولایی کو جانتا تھا ۔اس نے کہا:وہ کپڑے بُنتاہے اور فقراء میں سے ہے جو آپ کی حالت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔میں نے ان کا پتہ لیا اور ان کی دکان کی طرف چلا گیا اور آخر کار وہ مجھے مل ہی گیا:

میں نے دیکھا کہ انہوں نے کرباس سے بنی شلوار قمیض پہن رکھیہے اور ایک چھوٹی تقریبا ڈیڑھ میٹر کی دکان میں کپڑے بننے میں مشغول ہیں۔جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً کہا: حاج محمد حسین تمہاری حاجت پوری ہو گئی ۔میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔میں ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی دکان میں داخل ہواغروب کا وقت تھا انہوں نے اذان کہی اور نماز ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ان سے کہا:میں مسافر ہوں اور آج رات آپ کا مہمان ہوں ۔انہوں نے قبول کر لیا۔

رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک کاسہ میرے سامنے رکھا ۔اگرچہ مجھے لذیذ غذائیںکھانے کی عادت تھی لیکن میں ان کے ساتھ کھانا کھانے لگا ۔پھر انہوں نے مجھے کھال کا ایک ٹکڑا دیا اور مجھ سے کہا :تم میرے مہمان ہو اس لئے تم اس پر سو جاؤاور خود زمین پر سو گئے ۔

صبح کے قریب وہ نیند سے بیدار ہوئے ،وضو کرنے کے بعد انہوں نے اذان کہی اور صبح کی نماز ادا کرنے میں مصروف ہو گئے اس کے بعد انہوں نے مختصر سی تعقیبات انجام دیں ۔اس کے بعد میں نے ان سے کہا:میرے یہاں آنے کے دو مقصد تھے ایک کو آپ نے بیان کر دیا اور دوسرا یہ ہے کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بلند مقام کس طرح سے حاصل ہوا کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے میرا کام آپ پر چھوڑ دیا  اور آپ کو کس طرح میرے نام اور ضمیر و باطن کا علم ہے؟

انہوں نے کہا:یہ کیسا سوال ہے؟تمہاری حاجت تھی جو پوری ہو گئی ۔

میں نے ان  سے کہا :جب تک میں یہ نہ سمجھ لوںمیں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور چونکہ میں آپ کا مہمان ہوں لہذا مہمان کا احترام کرتے ہوئے آپ مجھے یہ ضرور بتائیں۔

انہوں نے بات کاآغازکیا اور کہا:میں اس جگہ کام میں مصروف تھا میری دکان کے سامنے ایک ظالم شخص رہتا تھا اور ایک سپاہی اس کی حفاظت کرتا تھا ایک دن وہ سپاہی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا:تم اپنے لئے کھانے کا انتظام کہاں سے کرتے ہو؟

میں نے اس سے کہا:میں سال میں گندم کی ایک بوری خریدکر ا س کا آٹا پسوا لیتا ہوں جسے میں کھاتا ہوں اور نہ ہی تو میری کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ۔

اس نے کہا:میں  یہاں محافظ ہوں ۔مجھے اس ظالم کے اموال سے استفادہ کرنا پسند نہیں ہے ۔ اگر تم زحمت قبول کرو تو میرے لئے بھی جو کی ایک بوری خرید لو اور ہر دن دوروٹیاں مجھے بھی دے دو ۔ میں نے اس کی بات مان لی  اور وہ ہر دن آتا اور مجھ سے دوروٹیاں لے کر چلا جاتا ۔پھر ایک دن وہ نہ آیا میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے اور مسجد میں سو رہا ہے ۔میں نے سوچا کے اس کے لئے طبیب اور دوا لے جاؤں تواس نے کہا:اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں آج رات اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔جب آدھی رات ہوگی تو ایک شخص تمہاری دکان میں آئے گا اور تمہیں میری موت سے  باخبرکر دے گا۔تم ان کے ساتھ آنا اور وہ تم سے جو کچھ کہیں اسے انجام دو اور بقیہ آٹا بھی اب تمہاری ملکیت ہے۔

میں نے چاہا کہ رات اس شخص کے ساتھ گذاروں لیکن انہوں نے اجازت نہ دی اور کہا:تم چلے جاؤ میں نے بھی ان کی بات مان لی ۔آدھی رات کے وقت کسی نے میری دکان پر دستک دی اور فرمایا:محمد علی باہر آؤ ۔میں دکان سے باہر آیا اور ان کے ساتھ مسجد میں چلا گیا ۔میں نے دیکھا کہ وہ محافظ اب اس دنیامیں نہیں  ہے ۔اس کے پاس دو افراد بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس کے جسم کو نہر کی طرف لے چلو میں اس کا بدن نہر کے کنارے لے گیا ،ان دو افرادنے اسے غسل وکفن دیا اور اس پر نماز پڑھی ۔پھر اسے لا کر مسجد کے دروازے کی جگہ دفن کر دیا ۔

میں دکان کی طرف واپس چلا گیا ۔کچھ راتوں کے بعد کچھ لوگوں نے میری دکان پر دستک دی ۔کسی نے کہا:باہر آؤ میں دکان سے باہر آیا ۔میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا کہ  آقا نے تمہں بلایا ہے تم میرے ساتھ چلو ۔میں ان کی بات مان کر ان کے ساتھ چلا گیا ۔وہ مہینے کی آخری راتیں تھیں ۔لیکن صحرا چاندنی راتوں کی طرح روشن اور زمین سبز و خرم تھی لیکن چاند کہیں دکھائی نہیں  دے رہا تھا ۔میں سوچنے لگا اور تعجب کرنے لگا ۔اچانک میں صحرائے نو(نو،دزفول کے شمال میں ایک شہر کا نام  ہے) میں پہنچ گیا۔

میں نے دو بزرگ شخصیتوں کو دیکھا کہ جو ایک ساتھ تشریف فرما ہیں  اور ایک شخص ان کے سامنے کھڑا تھا ۔اس مجمع میں ایک شخص سب سے اوپر اور سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ۔ان کو دیکھتے ہی مجھ میں ایک عجیب خوف وہراس  اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔

جو شخص میرے ساتھ تھا اسنے مجھ سے کہا:کچھ آگے آ جاؤ ۔میں کچھ آگے چلا گیا  تو جو شخص ان میں سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ،انہوں نے ان میں سے ایک شخص سے فرمایا:اس سپاہی کا منصب اسے دے دو اور مجھ سے فرمایا:تم  نے میرے شیعہ کی جو خدمت کی اسی کی وجہ سے میں تمہیں  اس سپاہی کا عہدہ دینا چاہتا ہوں۔میںنے سوچا کہ شاید یہ مجھے اسی سپاہی کی  جگہ محافظ قرار دینا چاہتے ہیں ۔لیکن میں محافظ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔میں نے ان سے کہا:میں کپڑے بنتا ہوں ،مجھے سپاہی اور محافظ بننے سے کیا مطلب؟

ان میں سے ایک نے کہا:ہم سپاہی  کا عہدہ تمہیں دیتے ہیں  اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم سپاہی بنو،ہم نے اس کا عہدہ تمہیں دے دیا،اب تم جاؤ۔

میں واپس لوٹا اور دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ اب وہ صحرا بہت تاریک ہے  اور صحرا میں روشنی، سبزی اور خرمی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

اس رات کے بعد مجھے میرے آقا حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے احکامات ملتے ہیں ۔آنحضرت (عج) کے احکامات و دستورات میں سے ایک تمہاری حاجت کا پورا ہونا تھا۔ ([6])

اس سپاہی نے حرام مال  سے پرہیز کرکے اپنے لئے یہ مقام خود بنایا ۔ان کا عباسی خلیفہ کے دربار کے قاضی''شریک ''سے مقائسہ کریں جس نے خود کو حرام مال کھانے کے نتیجے میں آلودہ کیا۔

ان دونوں میں سے کس کی راہ بہتر ہے؟امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں حاضر ہونا یا عباسی خلیفہ کی خدمت میں ؟!

یہ بزرگان دین کی زندگی کا منشور رتھا ۔تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات نے تقویٰ اختیار کیا اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کاآئین اپنی مذہبی ذمہ داری کے مطابق تشکیل دیا۔اسی وہ بلند مقامات تک پہنچ گئے۔

 


[1]۔ سورۂ نساء ،آیت:١٣١

[2]۔ سورۂ قمر ،آیت:٥٤،٥٥

[3]۔ کشف الغمہ:ج٢ص٣٦٨، بحار الانوار:ج٧٨ص٢٠٠

[4]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۳۷٦، امالی مرحوم شیخ طوسی:ج۲ص۲۹٦

[5]۔ بحار الانوار:ج۷ ٧ص۲۹۰، تحف العقول:٩٢

[6]۔ زندگی و شخصیت شیخ انصاری:٥٢

 

 

    ملاحظہ کریں : 2204
    آج کے وزٹر : 71051
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131806327
    تمام وزٹر کی تعداد : 91407576