حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

عرفانی مسائل کی طرف متوجہ ہونے والے افراد غیر متعارف اور استثنائی حالات میں گرفتار ہونے سے نجات کے لئے عرفانی حالات میں تعادل اور ہماہنگی کا خیال رکھنے کی کوشش کریں۔

اس لئے بزرگان نفرت اور محبت کو ہماہنگ کرتے ہیں کیونکہ نفرت ایک منفی چیز ہے لہذا یہ منفی چیزوں کے لئے ہونی چاہئے اور محبت ایک مثبت چیزہے لہذا یہ مثبت چیزوں میں ہونی چاہئے ۔کیونکہ  معنوی امور میں ترقی و پیشرفت کا لازمہ تعادل اور ہماہنگی ہے۔

جیسا کہ ایک بلب کے روشن ہونے کے لئے مثبت اور منفی برقی شعاعوں کا ہونا ضروری ہے اسی طرح معنوی روشنی کے لئے بھی مثبت اور منفی حالات ہماہنگ اور متعادل ہونے چاہئیں اور دونوں سے ان کے اپنے مورد میں استفادہ کیا جائے۔

پس جس طرح ہمارے دل میں ولایت اہلبیت علیھم السلام کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ہمارے دل میں  ولایت اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری اور ان کے لئے نفرت بھی ہونی چاہئے۔

جس طرح ہمارے دل میں ظالموں اور جابروں کے لئے نفرت ہونی چاہئے اسی طرح نیک اور صالح افرادکے لئے محبت بھی ہونی چاہئے ۔اسی لئے حقیقی عرفاء دنیا اور معاشرے کی صورت حال سے    تنفر کو معنوی امور سے ہماہنگ اور متعادل کرتے ہیں ۔

اسی وجہ سے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام شوق کو عرفا ء کے شخصی حالات سے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 

''اَلشَّوْقُ خُلْصٰانُ الْعٰارِفِیْنَ''([1])

شوق عرفا ء کی صفات میں سے  ہے ۔

 

اگران کا  متنفر مسائل سے واسطہ پڑھ جائے کہ جو ان کی لطیف روح کواذیت پہنچائیں تو وہ روحانی کسالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن وہ اسے خود سے شوق و نشاط کے ذریعے اسے خود سے دور کرتے ہیں اور اسی وسیلہ سے وہ خود میں تعادل و ہماہنگی ایجاد کرتے ہیں۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ہمّام سے مومن کی اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

''تَرٰاہُ بَعِیْداً کَسِلُہُ ، دٰائِمًا نَشٰاطُہُ''([2])

تم اس(مومن) سے کسالت کودور دیکھو گے اور ہمیشہ اسے با نشاط دیکھو گے۔

 

 اسی وجہ سے مکتب اہلبیت علیھم السلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم گناہوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناامیدی کا نشاط کے ذریعے یعنی خداوند کریم کیرحم و بخشش کی طرف توجہ کرکے جبران کریں۔جمعہ کے دن منقول دو رکعت نماز کے بعد کی دعا میں ہے: 

''اِنْ اَقْنَطَتْنِ ذُنُوْبِ نَشَّطَنِ عَفْوُکَ''([3])

اگر میرے گناہ مجھے ناامید کر دیں تو تیری بخشش مجھے امید و نشاطکی طرف ابھارتی ہے۔

 

روحانی و عرفانی حالات میں  بسط و قبض نفس (دو عرفانی اصطلاحاتیعنی نفس پر قابو رکھنا) جیسے مسائل  بہت  اہم ہیں اور ان کی طرف توجہ کرناضروری ہے۔

گناہ کی وجہ سے انسان اپنے نفس پر قابو نہیں رکھھ سکتا  لیکن خدا کی رحمت و بخشش سے باپنے نفس پر ابو پا لیتاہے ہے کیونکہ خداوند کی بخشش  نشاط کا باعث ہے۔

اس بناء پر گناہ کے وقت توبہ اور خدا کی بخشش کی طرف متوجہ رہیں تا کہ بسط و قبض نفس کی حالت میں تعادل و ہماہنگی ایجاد ہو سکے ۔خدا کیبخشش کی طرف توجہ سے قبض نفس کی حالت زائل ہو جاتی ہے  اور نفس کے لئے بسط کی حالت ایجاد ہوتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''اَلسُّرُوْرَ یَبْسِطُ النَّفْسَ وَ یَثِیْرُ النَّشٰاطَ ''([4])

سرور و مسرت نفس کو بسط کی حالت دیتا ہے اور نشاط میں اضافہ کرتا ہے۔

 

پس اگر کوئی گناہ کا مرتکب ہو تو گرفتگی و قبض کی حالت کو سرور (خدا کی بخشش سے حاصل ہونے والا سرور) سے متعادل کرے تا کہ ناامیدی اور گناہ کی تکرار نہ ہو۔

 اب جب کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ روحانی حالات میں تعادل کا خیال رکھنا ضروری ہے  تو اس بناء پر جو افراد روح کی پرواز کی طرف مائل ہیں انہیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ پرواز ہمیشہ دو پروں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر گرنا اور سقوط حتمی ہوتاہے۔پس دو پروں سے استفادہ کرنے کے لئے دو متقابل حالتوں میں تعادل و ہماہنگی ایجاد کریں۔

 


[1]۔ شرح غررالحکم: ج۱ص۲۱۴

[2]۔ بحار الانوار:ج٦۷ص۳٦۷

[3]۔ بحار الانوار:ج ۸۹ص۳۷۰ مصباح المتہجد:٢٢٣

[4]۔ شرح غررالحکم:ج۲ص۱۱۳

 

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2204
    آج کے وزٹر : 43554
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131751393
    تمام وزٹر کی تعداد : 91380079