حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
خودشناسی اور مکاشفہ

خودشناسی اور مکاشفہ

خود شناسی کے اہم ترین رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ نفس اضداد کا مجموعہ ہے ،جس طرح معاشرہ اچھے اور برے لوگوں سے مل کر بنتا ہے اسی طرح نفس میں بھی خوبیاں اور برائیاں موجود ہوتی ہیں۔ نفس ایک شخص  یا کسی ایک موضوع سے دوستی یا دشمنی کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ہے اور اپنے اندرصحیح اور غلط افکار کو جمع کر سکتاہے۔

اس بناء پر اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد جب تک نفس اعلی مراحل تک اور تکامل کی منزل تک نہ پہنچ جائے تب تک  اس کے تمام آثار کو صحیح نہیں سمجھ سکتے ۔  اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں:

نفس کے آثار اور مکاشفات کو کلی طور پر تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتاہے

١۔ رحمانی مکاشفات

٢۔ شیطانی مکاشفات

٣۔ نفسانی مکاشفات

١۔ رحمانی مکاشفات

یہ ملائکہ کے الہام سے وجود میں آتے ہیں اگرچہ یہ بہت کم ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت رکھتے ہیں اور صحیح ہیں۔

٢۔ شیطانی مکاشفات

یہ مکاشفات کی دوسری قسم ہے جسے شیطانی عوامل ایجاد کرتے ہیںاور اگر فرض کریں کہ یہ کسی مقام پر کوئی صحیح خبر دیں تو اس پرتوجہ نہیں کرنی چاہئے ورنہ یہ آہستہ آہستہ انسان میں نفوذ پیداکرکے انسان پر حاوی و مسلط ہو جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ایسے مکاشفات کا عادی ہو جاتاہے اور شیطان ایسے مکاشفات کیذریعے حاوی ہو جاتا ہے۔

بعض اوقات بہت سے انسان علم و آگاہی خاندان وحی علیھم السلام کے حیات بخش فرامین سے دوری کے نتیجہ میں خود کو ایسے مکاشفات و خیالات میں مبتلا  کر لیتاہے  اور وہ اس خیال خامی میں اپنی عمر برباد کر دیتاہے کہ اسے بزرگ معنوی و روحانی حالات پیدا ہوئے ہیں۔

٣۔ نفسانی مکاشفات

مکاشفات کی تیسری قسم نفسانی مکاشفات ہیں۔ایسے مکاشفات کا صحیح و غلط ہونا نفس کی نورانیت سے مربوط ہے اگر کوئی سلمان و ابوذر کی طرح کمال کے درجہ تک پہنچ جائے تو اس کے تمام مکاشفات صحیح ہوں گے ۔لیکن اگر تکامل کے درجہ تک نہ پہنچا ہو  اور چونکہ اس کے نفس میں موجود افکار ،سوچ و بیچار اور اعتقادات اس کے مکاشفات اور نفسانی چیزوں کے حصول میں مؤثر ہوتے ہیں ۔اس لئے مکاشفات کا صحیح ہونا افکار و عقائد کی اہمیت سے وابستہ ہوتا ہے ۔

اس بناء پر جب تک انسان اپنے وجود سے غلط افکار و خیالات اور اعتقادات کو دور نہ کرے تب تک وہ مکاشفات کی صحت کو اخذنہیں کر سکتا کیونکہ بہت سے موارد میں نفسانی مکاشفات انہی چیزوں سے پیدا ہوتے ہیں کہ جو نفس میں موجود ہوں کیونکہ جو نفس تکامل کی حد تک نہ پہنچا ہو وہ حق و باطل اور صحیح و غلط کا مجموعہ ہوتاہے لہذا ہر قسم کے مکاشفہ پر اعتبار و اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ایسے مکاشفات و الہامات کی طرف توجہ سے بہتر ہے کہ انسان اہلبیت عصمت وطہارت علیھم السلام کے فرامین کی روشنی میں خودسازی اور  تکامل کی سعی کرے کیونکہ اہلبیت علیھم السلام تمام اسرار و رموز سے آگاہ ہیں۔

اس بناء پر جو کوئی بھی ایسے مکاشفات کے حصول کا پیاسا ہو،اس پر لازم ہے کہ وہ مکتب وحی کے فرامین کی بنیاد پر خودسازی کی کوشش کرے تا کہ خواہشات نفسانی اور ہواوہوس پر اثر انداز نہ ہوں۔

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2010
    آج کے وزٹر : 50462
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131765209
    تمام وزٹر کی تعداد : 91386987