حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
خودشناسی یا راہ تکامل

خودشناسی یا راہ تکامل


وہی شخص اپنی اندرونی عجیب اور حیرت انگیز روحانی قدرت و طاقت سے استفادہ کر سکتا ہے جسے ان کے ہونے کا علم ہواور وہ ان توانائیوں کو بروئے کار لانے کی جستجو بھی کرتا ہوورنہ وہ کس طرح ان سے استفادہ کر سکتا ہے؟اس لئے انسان کو چاہئے کہ روحانی اور معنوی مقامات کے حصول کے لئے پہلے خو دکو پہچانے اوراس کے لئے اپنی اندر موجود ان توانائیوں کو پروان چڑھانے کے طریقہ کار سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے۔

بہت سے نوجوان فطرت کے حسن سے آشناہونے کے لئے دوردراز کے ممالک کی سیاحت کے لئے نکل پڑتے ہیں  اور بہت سی زحمتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔اگر ایسے کام صحیح پروگرام کے تحت ہوں اور دوسروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے ان کا اثر نہ لیا جائے تو اس سے انہیں تازگی ملے گی۔لیکن دنیا کی سیاحت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انسان خود کو تلاش کرنے کا سفر کرے اور یہ جان لے کہ اپنے وجود کے اسرار و رموز سے آگاہی ،دوردرزا کے علاقوں کو پہچاننے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ خود شناسی اور ہمارے اندر مخفی قوتیں ہماری خودسازی اور تکامل میں  ا ہم اور بنیادی کردارکی حامل ہیں تو ہم انہیں ہی زیادہ اہمیت دیتے۔

خودشناسی نہ صرف ترقی اور تکامل کے لئے بہت ضروری ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں:روحانی اور معنوی مقامات کے حصول کے لئے معرفت کی تمام قسموں میں سے  یہ سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔

اسی لئے امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''مَعْرِفَةُ النَّفْسِ أَنْفَعُ الْمَعٰارِفِ''([1])

نفس کی معرفت تمام معارف سے زیادہ مفید ہے۔

کیونکہ کہ نفس کی معرفت سے انسان اپنے اندر موجود ایسے عوامل سے آشنا ہو جاتا ہے جو اس کی ترقی اور تکامل میں بہت مؤثر ہوتے ہیں اور وہ معارف کو حاصل کرنے،ترقی،تکامل اور نجات کی راہ میںحائل موانع سے بھی آشنا ہو جاتاہے۔یوں اسے تمام متقاضیات اور موانع معلوم ہو جاتے ہیں۔ترقی اور پیشرفت کے متقاضی امور کی شناخت اور اسی طرح راہ کے تمام موانع کو جاننا روحانی تکامل کے لازمی شرائط میں سے ہے۔

انسان ان کی شناخت سے اپنے لئے نور کے دریچہ کھول لیتاہے  اور مقتضیات کو انجام دینے اور موانع کو برطرف کرنے سے نجات کے سب سے بڑے راستہ تک پہنچ جاتا ہے۔

 امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''نٰالَ الْفَوْزَ الْأَکْبَرَ مَنْ ظَفَرَ بِمَعْرِفَةِ النَّفْسِ''([2])

جو نفس کو پہچاننے میں کامیاب ہو جائے وہ نجات اور کامیابی کی سب سے بڑی راہ تک پہنچ جاتاہے۔

اس بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ نفس کی پہچان اور اپنے اندر پوشیدہ عظیم قوتوں سے آگاہی تکامل کی حتمی اور لازمی شرائط میں سے ہے اور نفس کی طاقت سے آشنائی بہت ضروری ہے چاہے  نفس کی یہ طاقت تعمیری ہو یا تخریبی۔

انسان کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اس کے نفس کو کن چیزوں نے جکڑ رکھا ہے اور وہ کس طرح ان سے رہائی حاصل کر سکتاہے تا کہ انسان ان کی قید سے آزاد ہو کر اپنے اندر پوشیدہ توانائیوں کو بیدار کر سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ایسے شخص کو عارف کہتے ہیں جو اپنے نفس اور نفسانی حالات سے آشنا ہو اور فرماتے ہیں:

''أَلْعٰارِفُ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَاَعْتَقَھٰا وَ نَزَّھَھٰا عَنْ کُلِّ مٰا یَبْعُدُھٰا وَ یُوْبِقُھٰا''([3])

عارف وہ ہے جواپنے نفس کو پہچانتاہو ،اور پھر  اپنے نفس کو آزاد کرے اور وہ اسے ہر اس چیز سے پاک کرے جو اسے (خدا)سے دور کرے۔

آنچہ در علم پیش می آید                  دانش ذات خویش می یابد

این بدان کایت شرف این است          نسخہ سرّ من عرف این است


غور و فکر،سوچ و بیچار ،پختہ ارادہ ،ایمان اور یقین آپ  کے نفس کی طاقتور توانائیاں ہیں انہیں سستی و کاہلی سے پاک رکھیں اور انہیں خوبیوں اور نیکیوں کی طرف پرواز کے لئے پروں کی طرح استعمال کرے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ النَّفْسَ جَوْھَرَة ثَمِیْنَة مَنْ صٰانَھٰا رَفَعَھٰا وَ مَنْ اِبْتَذَلَھٰا وَضَعَھٰا''([4])

بیشک نفس ایک قیمتی گوہر ہے ۔جو اس کی مخالفت کرے وہ اسے بلند کرے گا اور جو اس کو آزاد چھوڑ دے گا نفس اسے پست کردے گا۔

اس بناء پر اپنے نفس کے قیمتی گوہر کو بلندیوں پر لے جائیں اور اسے آلودگیوں سے پاک کریں  تا کہ معنوی و روحانی مقامات تک پہنچ سکیں۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ تَجَرَّدَ''([5])

جو اپنے نفس کو پہچان لے ،وہ مجرد(یعنی برائیوں سے دور رہے گا) ہو جائے گا۔

اس صورت میں نہ صرف نفس انسان کو برے کاموں کی طرف ورغلاتا ہے بلکہ اس کی راہنمائی بھی کرتا ہے ۔اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لا تَعْصِ نَفْسَکَ اِذٰا ھَِ أَرْشَدَتْکَ''([6])

جب بھی تمہارا نفس تمہاری راہنمائی کرے تو اس کی مخالفت نہ کرو۔

 



[1] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۴ص۱۴۸

[2) ۔ شرح  غرر  الحکم:ج٦ص۱۷۳

[3] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۲ص۴۸

[4] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۲ص۲۲۵

[5] ۔ شرح  غرر  الحکم:ج۵ص۱۷۵

[6]۔ شرح  غرر  الحکم:ج٦ص۲۸۲

 

 

    ملاحظہ کریں : 1973
    آج کے وزٹر : 54852
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131773990
    تمام وزٹر کی تعداد : 91391378