حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یہ ہے راہ حق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدائے واحد کی حمد و ثناء کے بعد محمد(ص) درود و سلام بھیجتا ہوں  کہ  جنہیں خدا وند کریم نے دنیا اور دنیا والوں کے لئے رحمت  بنا کر بھیجا۔یعنی حضرت محمد(ص)،آپ کی اہلبیت اطہار علیھم السلام اور آپ کے مطیع و فرمانبردار اصحاب پر درود و سلام ہو۔

یہ جو کتاب آپ کے سامنے ہے  اس کا نام ہے''علماء بغداد کی کانفرنس ''باد شاہ سلجوقی نے بزرگ عالم دین جناب وزیر نظام الملک کی زیر نظارت میں وہاں کے تمام شیعہ سنّی علماء کو اس کانفرنس میں مدعو کیا۔

یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ وہاں کا بادشاہ متعصب اور بے خبرشخص نہیں تھاکہ جو تعصب،تنگ نظری سے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید اور پیروی کر لیتا۔بلکہ وہ ایک محقق، کامیاب و کامران شخص تھا جومحققین ،علم و دانش اور دانشوروںکو پسند کرتا تھا البتہ ان سب کے باوجود وہ سیر و تفریح اور شکار کا بھی شوقین تھا۔

ان کا وزیر ''نظام الملک''عقل مند،مدبر،صاحب اثر و رسوخ،نیک کاموں کو پسند کرنے والا،نیکی کرنے والا اور حقیقت و واقعیت کی جستجو کرتا تھا اور وہ خاندان رسالت علیھم  السلام  سے محبت کرتا تھاانہوں نے بغداد میں ''مدرسہ نظامیہ''کی بنیاد رکھی اور انہو ں  نے محققین کے لئے باقاعدہ تنخواہ مقرر کر رکھی تھی۔نیز وہ فقراء اور مساکین کے ساتھ بھی بہت محبت سے پیش آتے تھے۔

ایک بار علماء میں سے حسین بن علی علوی  کے نام سے  ایک بزرگ عالم دین (جو بزرگ شیعہ عالموں اور دانشوروں میں سے تھے)باد شاہ کے پاس آئے وہ بادشاہ سے ملاقات کے بعد واپس جا رہے تھے کہ ایک درباری نے ان کا مذاق اڑایا۔

بادشاہ نے پوچھا:تم نے ان کا مذاق کیوں اڑایا؟

اس نے کہا:بادشاہ سلامت!کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ کافروں میں سے ہے کہ جن پر خدا غضبناک ہوا ہے اور جن پر خدا نے لعنت کی ہے؟!!

بادشاہ نے حیرت سے پوچھا:کیوں؟مگر کیا یہ مسلمان نہیںہیں؟

اس شخص نے کہا :نہیں !ہرگز نہیں!حقیقت یہ ہے کہ وہ شیعوں میں سے ہے۔

بادشاہ نے کہا:شیعہ کا کیا مطلب ہے؟کیا شیعہ مسلمانوں کا ایک فرقہ نہیں ہے؟!

اس شخص نے جواب دیا:نہیں !ہرگز نہیں!حقیقت تو یہ ہے کہ شیعہ،ابوبکر،عمر اور عثمان کو رسول خدا (ص)کا خلیفہ و جانشین نہیں مانتے۔

بادشاہ نے کیا:کیا کوئی ایسا مسلمان بھی ہے جو ان تینوں کو خلیفہ نہ مانتا ہو؟

اس نے کہا:جی ہاں!صرف شیعوں کا ہی یہ عقیدہ ہے۔

بادشاہ نے کہا:اگر شیعہ ان صحابہ کو خلیفہ نہیں مانتے تو پھر لوگ انہیں مسلمان کیوں کہتے ہیں؟!

اس نے کہا:اسی لئے تو میں  نے عرض کیا کہ یہ  شخص کافروں میں ہے۔

بادشاہ سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہا:میرے وزیر نظام الملک کو بلایا جائے تا کہ میں دیکھوں کہ حقیقت کیا ہے۔

بادشاہ نے اپنے وزیر نظام الملک کو بلا لیا اور ان سے شیعوں کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہیں ؟

وزیر نے ان کے جواب میں کہا:اس بارے میں سنیوں میں آپس میں اختلاف ہے ؛ کچھ انہیں مسلمان سمجھتے ہیںکیونکہ یہ خدا کی وحدنیت اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور نماز و روزہ بھی بجا لاتے ہیں؛اور کچھ سنی انہیں کافر کہتے ہیں۔

بادشاہ نے پوچھا:شیعوں کی کتنی تعداد ہے؟

وزیر نے کہا:مجھے ان کی تعداد معلوم نہیں ہے لیکن تقریبا آدھے مسلمان شیعوں پر مشتمل ہیں۔

بادشاہ نے کہا:کیا آدھے مسلمان کافر ہیں؟

وزیر نے کہا:بعض علماء انہیں کافر قرار دیتے ہیں لیکن میں انہیں کافر نہیں سمجھتا۔

بادشاہ نے کہا:کیا تم شیعہ اور سنّی علماء کو ایک جگہ اکٹھا کر سکتے ہو۔

وزیر نے جواب میں کہا:یہ کام بہت مشکل ہے اور میں بادشاہ اور مملکت کے لئے ڈرتا ہوں۔

بادشاہ نے کہا:وہ کیوں؟!

وزیر نے کہا:کیونکہ شیعوں اور سنیوں کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ حق و باطل کا  معاملہ ہے اور جس پر بہت خون بہایا جا چکا ہے ،جس کی وجہ سے بہت سے کتاب خانوں کا نذر آتش کر دیا گیا،عورتوں کو قیدی بنایا گیا ہے۔اس بارے میں بہت سی کتابوں اور دائرة المعارف میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور جس پر بہت سی خونی جنگیں بھی ہو چکی ہیں؟!

بادشاہ اس موضوع کی وجہ سے حیرت میں مبتلا ہو گئے اورکچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے وزیر سے کہا:اے وزیر!تم اچھی طرح جانتے ہو کہ خدانے مجھے یہ بہت وسیع حکومت عطا کی ہے اور ایک بہت بڑا لشکر میرے اختیار میں قرار دیا ہے ؛لہذا مجھے چاہئے کہ میں  ان نعمتوں کے بدلے میںخدا کا شکر بجا لاؤں۔

میں خدا کا شکر اس طرح سے کر سکتا ہوں کہ حقیقت کو تلاش کرو  ں  اور گمراہوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کروں۔ان دونوں فرقوں (شیعہ اور سنّی) میں سے ایک حق ہے اور دوسرا باطل۔ پس ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ حق کو تلاش کریں اور حق کی پیروی کریں اور باطل کو پہچان کر اسے چھوڑ دیں۔

جب تم اس کانفرنس کا انعقاد کرو تو شیعہ اور سنّی علماء کو بھی بلاؤ۔امن و امان کے لئے لشکر اور حکومتی راویوں کو بھیحاضر کرو اور اگر ہم دیکھیں کہ حق سنیوں کے ساتھ ہے تو زبردستی شیعوں کو سنی ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔

وزیر نے کہا:اگر شیعوں نے سنّی مذہب کو قبول نہیں کیا تو آپ کیا کریں گے؟

بادشاہ نے کہا:پس تم ہی بتاؤ کہ اس کا راہ حل کیاہے؟

وزیر نے کہا:اس کا راہ حل یہی ہے کہ اس کام کو رہنے دیا جائے۔

بادشاہ اور اس کے حکیم و دانا وزیر کے درمیان یہ گفتگو ختم ہوئی لیکن بادشاہ اس رات سوچتا رہا اور جب اگلی صبح پریشانی کے عالم میں  بیدار ہوا تو آنکھ کھولتے ہی نظام الملک کو بلایا اور ان سے کہا:

مجھے تمہاری رائے پسند آئی ؛ہم شیعہ اور سنّی  علماء کو دعوت دیں گے اور ان کی بحث اور اختلافات ومناقشات سنیں گے اور یہ دیکھیں گے کہحق کس کے ساتھ ہے۔اگر حق سنیّوں کے ساتھ ہوا تو ہم شیعوں کو شائستہ طریقے اور حکمت سے حق کی طرف دعوت دیں گے اور انہیں مال و دولت اور مقام کے ذریعے اپنی طرف مائل کریں گے ۔جس طرح رسول اکرم (ص) نے کافروں کے ساتھ برتاؤ کیا تا کہ ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہو جائیں۔ہم اس کام سے اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت کر سکتے ہیں۔

وزیر نے کہا:یہ ایک اچھی رائے ہے لیکن میں اس سے بہت خوفزدہ ہوں۔

بادشاہ نے کہا:تم کس لئے ڈر رہے ہو؟

وزیر نے جواب دیا:مجھے ڈر ہے کہیں شیعہ جیت گئے اور ان کے دلائل ہم سے محکم ہوئے تو لوگ شک و شبہ میں گرفتار ہو جائیں گے۔

بادشاہ نے کہا:کیا اس چیز کا امکان بھی ہے کہ شیعہ جیت جائیں؟

وزیر نے کہا:جی ہاں!کیونکہ شیعوں کے پاس قرآن مجید اوراحادیث شریف سے اپنے مذہب کی حقانیت پر بہت محکم دلائل و برہان ہیںجن کے ذریعے وہ اپنے عقائد کو ثابت کرتے ہیں۔

بادشاہ اپنے وزیر کے جواب سے قانع نہ ہوا اورکہا:دونوں گروہوں کے علماء کو حاضر کیا جائے تا کہ ہم پر حق واضح ہو سکے اورحق کو باطل سے تشخیص دے سکیں۔

آخر کار وزیر نے ایک مہینہ کی مہلت مانگی لیکن بادشاہ نے اسے قبول نہ کیا .....مگر آخر میں بادشاہ نے وزیر کو پندرہ دن کی مہلت دے دی۔

اس پندرہ دن کی مدت میں وزیر نے اہل سنت کے دس بزرگ علماء کو اکٹھا کیا جو کہ تاریخ،فقہ،حدیث،اصول اور مناظرہ میں مورد وثوق تھے اسی طرح انہوں نے دس شیعہ علماء کو بھی جمع کیا۔

پہلی بار یہ بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں شعبان کے مہینہ میں ایک ساتھ جمع ہوئے اور اس نشست میں یہ طے پایا کہ بادشاہ کی دعوت پر ہونے والی کانفرنس ان شرط و شروط پر منعقد ہو گی۔

١۔اس کانفرنس میں بحث صبح سے شام تک جاری رہے گی جس میں نماز ،کھانے پینے اور آرام کے علاوہ کوئی وقفہ نہیں ہو گا۔

٢۔تمام گفتگو اور تقاریر قابل اعتماد  مدارک اور منابع کی بنیاد پرہو ں  اورمعتبرکتابوں سے ہوں نہ کہ ان کی بنیاد سنی سنائی باتیں۔

٣۔اس کانفرنس میں کی گئی ہر تقریر اور ساری گفتگو کو قلم بند کیا جائے گا۔

اس کانفرنس کے انعقاد کے دن بادشاہ، تمام وزراء، انتظامی اور حکومتی امور کے تمام سربراہ بیٹھ گئے ،سنّی عالم ان کے دائیں اور شیعہ علماء ان کے بائیں طرف بیٹھ گئے ۔کانفرنس کے آغاز میں وزیر''نظام الملک''نے اپنی بات کاآغاز کچھ اس طرح کیا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت محمد مصطفی(ص)،ان کے پاک خاندان اور باوفا اصحاب پر درود و سلام کے بعد یہ کہ یہ بحث اور گفتگو کسی بھی ذاتی غرض سے پاک رہے اور اس کانفرنس کا مقصد صرف حق تک رسائی ہے ۔لہذا رسول اکرم(ص)کے صحابیوں کے بارے میں کسی طرح کی کوئی بدکلامی نہ کی جائے۔

سنّی علماء کے سربراہ شیخ عباسی نے کہا:میں کسی ایسے مذہب کے افراد سے بحث نہیں کر سکتا جو سب صحابیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔

شیعہ علماء کے سربراہ حسین بن علی علوی نے جواب میں فرمایا:مگر وہ کون ہیں جو سب صحابیوں کو کافر سمجھتے ہیں؟!

عباسی نے کہا:تم شیعہ، وہی لوگ ہو جو سب صحابیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔

سید علوی نے فرمایا:تم یہ جو بات کر رہے ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔کیا علی علیہ السلام ،عباس،سلمان،ابن عباس،مقداد،ابوذر اور بہت سے دوسرے حضرات صحابی نہیں تھے اور کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم شیعہ انہیں کافر سمجھتے ہیں؟!

عباسی نے کہا:تمام صحابہ سے میری مراد ابو بکر،عمر، عثمان اور ان کے پیروکار ہیں؟

علوی نے جواب میں فرمایا:تم نے خود کو خود ہی ردّ کر دیاکیا منطقیوں نے یہ بات ثابت نہیں کی کہ موجبہ جزئیہ کا نقیض سالبہ جزئیہ ہے؟

تم ایک بار کہتے ہو:شیعہ تمام ا صحاب کو کافر سمجھتے ہیں،اور دوسری مرتبہ دعویٰ کرتے ہو کہ شیعہ بعض صحابیوں کو کافر سمجھتے ہیں!

نظام الملک کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اس سے پہلے ہی علوی نے انہیں مہلت نہ دی اور فرمایا:اے وزیر محترم !جب تک ہم جواب دینے سے عاجز نہ ہو جائیں تب تک کسی کو گفتگو کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں ہماری بحث مخلوط ہو جائے گی اور بات اصل بحث سے خارج ہو جائے گی اوربے نتیجہ رہ جائے گی۔

پھر جناب علوی نے فرمایا!اے عباسی!پس یوں یہ واضح ہو گیا کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ شیعہ تمام اصحاب کو کافر سمجھتے ہیں،یہ  صرف جھوٹ ہے۔

عباسی اس کا جواب نہ دے سکا اور اس کا منہ شرمندگی سے سرخ ہو گیا اور پھر کہنے لگا :یہ بحث چھوڑو؛لیکن اتنا تو معلوم ہے تم شیعہ ابوبکر،عمر اور عثمان کو سبّ وشتم کرتے ہو۔

علوی نے فرمایا:کچھ شیعہ انہیں سبّ وشتم کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔

عباسی نے کہاتم کن میں سے ہو؟

علوی نے جواب میں فرمایا:میں ان میں سے ہوں جو سبّ وشتم نہیںکرتے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ جو انہیں سبّ وشتم کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں ا ن کے پاس دلیل بھی ہے اور حکم عقل سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شیعوں کے اس گروہ کا ان تین افراد کو سبّ وشتم کرناکفر کا باعث نہیں ہے اور نہ ہی یہ فسق کا سبب ہے حتی کہ یہ گناہان صغیرہ میں سے بھی نہیں ہے۔

عباسی نے کہا:اے بادشاہ!آپ دیکھ رہے ہیں یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟!

علوی نے فرمایا:اے عباسی!یہ جو تم بحث کا رخ بادشاہ کی طرف موڑ رہے ہو یہ مغالطہ کی ایک قسم ہے ؛بادشاہ نے ہمیںاس لئے بلایا ہے کہ ہم اپنے اپنے دلائل سے بات کریں تا کہ آخر میں حق کا پتہ چل سکے اور جو حق کو قبول نہ کرے اسے اسلحہ اور زور کے ذریعہ حق کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔

بادشاہ نے کہا:علوی کی بات ٹھیک ہے ؛اے عباسی!اس دعوی کی رد میں تمہارا کیا جواب ہے؟

عباسی نے کہا:یہ واضح ہے کہ جو بھی صحابہ پر لعنت کرے وہ کافر ہے۔

علوی نے کہا:ممکن ہے یہ بات تمہارے نزدیک واضح ہو لیکن میرے لئے واضح نہیں ہے۔

تمہاری نظر میں اگر کوئی اجتہاد اور دلیل سے کسی صحابی پر سبّ و شتم کرے تو وہ کافر کیوں ہے؟

اور دوسری طرف یہ کہ کیا تم یہ نہیں مانتے کہ اگر کوئی رسول اکرم (ص)کو برا بھلا کہے تو وہ نفرین کا حق دار ہے؟

عباسی نے کہا:کیوں نہیں ؛مجھے اس بات کایقین ہے اورمیں اس کا اعتراف کرتا ہوں۔

علوی نے فرمایا:رسول اکرم (ص)نے ابوبکر اور عمر پر لعنت کی ہے ۔

عباسی نے کہا:انہیں کب برا بھلا کہا ہے؟یہ رسول خدا(ص) پر بہتان ہے۔

علوی نے فرمایا:سنّی مورخین نے لکھا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے ایک لشکر کو اسامہ بن زید کی سربراہی میں  تیار کیا اور ابو بکر اور عمر کو بھی ان کے سپاہیوں میں قرار دیا اور فرمایا:

خدااس پر لعنت کرے  جو اسامہ کے لشکر سے بغاوت اور کوئی خلاف ورزی کرے۔

لیکن ابوبکر اور عمر نے اس لشکر کی خلاف ورزی کی لہذا یہ لوگ رسول خدا (ص) کی لعنت  میں  شامل ہیں اور جس پر رسول اکرم(ص) لعنت فرمائیں تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ بھی اس شخص پر لعنت کرے۔

ان باتوں کے بعد عباسی نے اپنا سر جھکا لیا اور کچھ نہ کہہ سکا۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف رخ کیا اور کہا:کیا علوی نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے؟!

وزیر نے کہا:مورخین ([1])نے یہی لکھا ہے۔

پھر علوی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:اگر صحابہ کوسبّ و شتم کرنا حرام اور کفر ہے تو پھر تم معاویہ بن ابی سفیان کو کیوں کافر نہیں سمجھتے اور کیوں اس کے فسق و فجور کا حکم نہیں کرتے حالانکہ اس نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام پر چالیس سال تک سبّ و شتم کیا اور یہ سلسلہ ستّر سال تک جاری رہا!

بادشاہ نے کہا:اب یہ بات چھوڑ دیجئے اور کسی دوسرے موضوع پر بات کریں۔

عباسی نے پوچھا؟ایک دوسری بدعت یہ ہے کہ تم شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔

علوی نے فرمایا:بلکہ تم سنیّوں کی ایک بدعت یہ ہے تم قرآن کو نہیں مانتے اور میرے اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ تم لوگ کہتے ہو :''قرآن کو عثمان نے جمع کیا''

کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ رسول اکرم (ص)عثمان کے برابر بھی نہیں سوچتے تھے کہ جو آپ(ص)نے قرآن کی جمع آوری کا اقدام نہیںکیایہاں تک کہ عثمان آیا اور قرآن کو جمع کیا؟

اور دوسری طرف یہ کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن پیغمبر اکرم  (ص)کی زندگی میں جمع نہ ہوا ہو حلانکہ آنحضرت(ص)اپنے رشتہ داروں اور باوفا اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ قرآن پڑھو اور اسے اول سے آخر تک تلاوت کرو اور آپ(ص)فرماتے:جو شخص بھی پورا قرآن پڑھے اس کا فلاں مقدار کے برابر اجر و ثواب ہے۔

کیا رسول  اکرم(ص)پورا قرآن پڑھنے کا حکم دے سکتے تھے جب کہ ابھی تک قرآن جمع ہی نہیں ہوا تھا؟

کیا سب مسلمان گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے یہاں تک کہ عثمان نے ان کی ہدایت کی؟!

بادشاہ نے اپنے وزیر کی طرف دیکھا اور کہا:علوی یہ جو کہہ رہے ہیں کہ سنّیوں کی نظر میں قرآن کو عثمان نے جمع کیا ،کیا یہ درست ہے؟

وزیر نے کہا:مفسرین اور مؤرخین نے ایسے ہی لکھا ہے؟

علوی نے فرمایا:بادشاہ!بہتر ہے آپ بھی یہ جان لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن رسول اکرم(ص) کے زمانے میں اسی شکل میں جمع ہوا تھا جس شکل میں آج موجود ہے،حتی اس کا کوئی ایک حرف بھی کم یا زیادہ نہیںہوا لیکن سنّی یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کمی بیشی ہوئی ہے اور اس کی آیات بھی اِدھر اُدھر ہوئی ہیں اور رسول اکرمۖ نے اسے جمع نہیں کیا بلکہ پہلی بار عثمان نے بادشاہ بننے کے بعد یہ کام کیا ۔

عباسی نے فرصت کو غنیمت سمجھا اور کہا:اے بادشاہ! کیا آپ نے نہیں سنا کہ اس شخص نے عثمان کو خلیفہ کے ذریعے خطاب نہیں کیابلکہ انہیں بادشاہ کہا ہے؟!

علوی نے فرمایا:جی ہاں!عثمان خلیفہ نہیں تھا۔

بادشاہ نے کہا:کیوں؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ شیعوں کااعتقاد ہے کہ ابوبکر ،عمر اور عثمان کی خلافت باطل تھی۔

بادشاہ نے تعجب سے پوچھا:کیوں؟!

علوی نے فرمایا:کیونکہ عثمان ایسے چھ افراد پر مشتمل شوریٰ کی بنیاد پر حاکم بنا جنہیں عمر نے معین کیا تھاحلانکہ شوریٰ کے تمام افراد نے عثمان کاخلیفہ کے عنوان سے انتخاب نہیں کیا تھا بلکہ تین یا دو افراد نے اسے منتخب کیا تھا۔ اس بناء پر خلافت عثمان کی مشروعیت صرف عمر کی مرہون منت ہے۔

دوسری طرف عمر کوبھی ابو بکر کی وصیت کی بنیاد پرحکومت ملی پس عمر کی حکومت کی مشروعیت بھی ابوبکر سے مرہون منت ہے۔

اسی طرح ابوبکر بھی ایک چھوٹے سے گروہ کے انتخاب کی بنیاد پر اور ننگی تلواروں کے زور پر خلافت تک پہنچا پس خلافت ابوبکر  کی مشروعیت زور اور تلواروں سے مرہون منت ہے۔

اسی لئے یہ سچ تھا کہ عمر نے ابوبکر کے بارے میں کہا تھا:''لوگوں کا ابوبکر کی بیعت کرنا ، جلدی میں کیا جانے والاغیر عاقلانہ اور جاہلانہ فیصلہ تھا:خدا اس کے شرّ کو مسلمانوں سے دور رکھے ،اس بناء پر جو کوئی بھی اس کے بعد ایسی بیعت طلب کرے اسے قتل کر دو''

ابوبکر نے خود بھی یہ کہا:

''مجھے ہٹا دو اور اپنی بیعت واپس لے لو؛چونکہ جب علی علیہ السلام تمہارے درمیان ہوں تو میں تمہارے لئے بہترین(خلیفہ) نہیں ہوں''

ان دلائل کی بناء پر شیعہ معتقد ہیں کہ ان تینوں کی خلافت کی بنیاد غلط اور باطل ہے۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:علوی نے ابوبکر اور عمر سے جن باتوں کی نسبت دی ہے ،کیا وہ صحیح ہے؟

وزیر نے کہا:مؤرخین نے یوں ہی کہا ہے۔

بادشاہ نے پوچھا:پس پھر ہم ان تینوں کااحترام کیوں کرتے ہیں؟

وزیر نے کہا:نیک و صالح آباء و واجدادکی پیروی کرتے ہوئے۔

علوی نے بادشاہ سے فرمایا:اے بادشاہ!وزیر سے یہ پوچھئے کہ کیا حق ضروری ہے یا  صالح آباء اجدادکی پیروی؟اگر پہلے والوں کی پیروی حق کے برخلاف ہو تو کیا یہ اس آیت میں شامل ہونے کا سبب نہیں ہے۔

"اِنّٰا وَجَدْنٰا آبٰائَنٰا عَلٰی اُمَّةٍ وَ اِنّٰا عَلٰی آثٰارِھِمْ مُقْتَدُوْنَ"([2])

ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم کی یروی کرنے والے ہیں۔

بادشاہ نے علوی سے خطاب کرتے ہوئے کہا:اگر یہ تینوں رسول اکرم(ص) کے خلیفہ نہیں ہیں تو پھر خلیفہ کون ہے؟

علوی نے جواب دیا:رسول اکرم  (ص)کے خلیفہ صرف حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

بادشاہ نے کہا:اس کی دلیل کیا ہے؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ رسول خدا(ص)نے آپ کو اپنے بعد خلیفہ اور جانشین کے عنوان سے معین فرمایا تھا اور بہت سے موارد میں آنحضرت کی خلافت کی تصریح فرمائی تھی؛ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب آنحضرت نے لوگوں کومکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام پر جمع کیاکہ جسے'' غدیر خم''کہتے ہیں۔وہاں آپ  (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کا دست مبارک بلند کرکے مسلمانوں سے فرمایا:

جس کا میں مولا ہوں یہ علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں۔

بارالٰہا!جو بھی انہیں دوست رکھے اور ان کی سرپرستی کو قبول کرے تو اسے دوست رکھ اور اس کی سر پرستی کر اور جو بھی ان سے دشمنی رکھے تو اسے دشمن رکھ، اور جو انہیں چھوڑ دے اور ان کی مدد نہ کرے تو بھی اس شخص کو چھوڑ دے۔([3])

پھر آپ(ص)منبر سے نیچے تشریف لائے اور وہاں موجود ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں سے فرمایا،صرف علی علیہ السلام کو امیر المومنین کے لقب سے پکار کر سلام کرو۔(یعنی کسی دوسرے کو امیر المومنین نہ کہو)

مسلمان یکے بعد دیگرے آتے اور علی علیہ السلام سے کہتے:''اے امیر المومنین آپ پر سلام ہو''

ابوبکر اور عمر بھی آئے اور انہوں نے علی علیہ السلام کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا۔عمرنے کہا:

''اے امیر المومنین آپ پر سلام ہو!اے ابوطالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو ! آج کے بعد آپ میرے مولا اور ہر مومن مرد اور عورت کے مولا ہیں''

اس رو سے رسول خدا(ص) کے تنہا شرعی و قانونی خلیفہ علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

بادشاہ نے اپنے وزیر کی طرف دیکھا اور کہا:کیا علوی کی یہ باتیں صحیح ہیں؟

وزیر نے کہا:جی ہاں!مؤرخین اور مفسرین نے ایسے ہی لکھاہے۔

بادشاہ نے کہا:اس بحث کو ختم کریں اور کسی دوسرے موضوع پر بحث کی جائے۔

عباسی نے کہا:شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں۔

علوی نے کہا:نہیں!بلکہ تم سنیوں کے ہاں یہ مشہور ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔

عباسی نے کہا:یہ ایک صاف اور واضح جھوٹ ہے۔

علوی نے فرمایا:کیا تم لوگوں نے اپنی کتابوں میں نہیں دیکھا کہ جن میں لکھا ہے کہ ''غرانیق'' رسول اکرم(ص) پر نازل ہوئیں اور پھر یہ آیات نسخ ہو گئیںاور پھر بالکل حذف ہو گئیں؟

بادشاہ نے وزیر سے کہا:کیا علوی کا یہ دعویٰ درست ہے؟

وزیر نے کہا:جی ہاں! مفسرین نے یوں ہی لکھا ہے۔

بادشاہ نے کہا:اگر ایسا ہے تو پھر کس طرح تحریف شدہ قرآن پر اعتماد کر سکتے ہیں؟

علوی نے فرمایا:اے بادشاہ!بہتر ہے آپ بھی یہ جان لیں کہ ہم شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل نہیں ہیںاور صرف سنّی ہی یہ بات کہتے ہیں۔لہذا ہمارے نزدیک قرآن مورد اعتماد ہے لیکن سنّیوں کے پاس یہ مورد اعتماد نہیں ہے۔

عباسی نے کہا:قرآن میں  تحریف کے بارے میں تمہاری کتابوں میں تمہارے عالموں سے حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔

علوی نے فرمایا:ایسی حدیثیں بھی بہت کم ہیںاور وہ سب گڑھی گئی ہیںجنہیں شیعوں کے دشمنوں نے مکرو فریب کے لئے گڑھا ہے تا کہ شیعوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے اور شیعوں کو بدنام کیا جائے۔

نیز ان روایات کے راوی اور ان کی سند درست نہیں ہے اور جو کچھ بعض علماء سے نقل ہوا ہے وہ قابل اعتماد اور مورد اطمینان نہیں ہے۔ہمارے بزرگ علماء جن کی گفتار ہمارے لئے مورد وثوق ہے ان میں سے کوئی بھی قرآن میں تحریف کا قائل نہیں ہے اور تم یہ جو کہہ رہے ہو ہم اسے قبول ہی نہیں کرتے۔تم یہ کہتے ہو:

خدا نے بتوں کی ستائش وتعریف میں کچھ آیات نازل فرمائی(البتہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا اس چیز سے منزہ ہے)اور کہا:''صرف یہ اعلی مقام رکھنے والے بتوں ہی سے شفاعت کی امید رکھو''

بادشاہ نے کہا:یہ بحث بھی ختم کرو اوراب کسی دوسرے موضوع پر بحث کی جائے۔

علوی نے فرمایا:سنّی خداکی طرف ایسی چیز کی نسبت دیتے ہیں جو خدا کی شان و منزلت کے برخلاف ہے۔

عباسی نے کہا:جیسے؟

علوی نے فرمایا:جیسے یہ کہ تم لوگ کہتے ہو:خدا کا جسم ہے،وہ انسانوں کی طرح ہنستا اور بولتا ہے۔اس کے ہاتھ،پاؤں،آنکھیں اور آلہ تناسل بھی ہے۔قیامت کے دن خدا اپنا پاؤں جہنم میں ڈالے گا  اوراوپر کے آسمان سے دنیا کے آسمان پر آئے گا،اور اپنے گدھے پر سوار ہو گا......۔

عباسی نے کہا:ان میں کیا اشکال ہے حلانکہ قرآن میں ان کے بارے میں صراحت ہے اور خدا فرماتا ہے:"وَ جٰآ  ءرَبُّکَ"([4])

'' تمہارا پروردگار آیا''۔

اسی طرح فرمایا گیا ہے:"یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سٰاقٍ"([5])

جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی۔

نیز خدا نے فرمایا ہے:"یَدُ االلّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْ"([6])

ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے۔

اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ کہتے ہیں :

قیامت کے دن خدا اپنا پاؤں جہنم کی آگ میں  ڈالے گا؟!

علوی نے فرمایا:یہ جو کچھ حدیث میں آیا ہے یہ ہماری نظر میں باطل،جھوٹ اور تہمت ہے؛کیونکہ ابوہریرہ اور اس کے مانند دوسروں نے رسول خدا(ص) کو جھوٹ سے نسبت دی ہے حتی کہ عمر نے بھی اسیحدیث نقل کرنے سے منع کیا اور اس کو سز ادی۔

بادشاہ نے اپنے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:کیا یہ صحیح ہے کہ عمر نے ابو ہریرہ کوحدیث نقل کرنے سے منع کیا تھا؟

وزیر نے کہا:جی ہاں!عمر نے انہیں منع کیا تھا جیسا کہ تاریخ میں آیا ہے۔

بادشاہ نے کہا:پھر ہم کس طرح ابوہریرہ کی حدیثوں پر اعتمادکر تے ہیں؟!

وزیر نے کہا:کیونکہ علماء نے ایسا کیا ہے۔

بادشاہ نے کہا:اس صورت میں علماء کا عمر سے زیادہ عقل مند اور دانا ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ عمر نے ابو ہریرہ کو رسول اکرم(ص)پرجھوٹ کی نسبت دینے کی وجہ سے حدیث نقل کرنے سے منع کیا لیکن ہمارے علماء پھر بھی جھوٹی حدیثوں کو اخذ کرتے ہیں۔

عباسی نے کہا:اے علوی!ٹھیک ہے ، جن حدیثوں میں خدا کی طرف اشارہ ہوا ہے اگر وہ باطل ہیں تو پھراس بارے میں قرآنی آیات کا کیا کیا جائے گا؟

علوی نے فرمایا:قرآن میں محکم آیات بھی ہیں اور اصل کتاب خداوند وہی آیات ہیں اور بقیہ کچھ آیات متشابہ ہیں ۔اسی طرح قرآن میں ظاہر و باطن بھی ہے اس بناء پر جو آیات محکم ہوں اور ظاہر بھی ہوں تو ان کے ظاہر پر عمل کیا جائے لیکن متشابہ آیات کی علم بلاغت کے ذریعہ جانچ پڑتال کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا ان میں مجاز کنایہ و اشارہ یاکوئی چیز پوشیدہ (جس کو ہم نہ سمجھ سکے ہوں)ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو آیت کا معنی نہ تو شرعی اعتبار سے صحیح ہو گا اور نہ ہی عقلی لحاظ سے درست ہو گا۔مثال کے طور پر:اگر اس آیہ"وَ جٰآء رَبُّکَ" کے ظاہر کی بنیاد پر معنی کیا جائے تو یہ معنی عقل اور شریعت سے تعارض رکھے گا۔کیونکہ عقل اور شریعت حکم کرتی ہیں خدا ہر جگہ موجود ہے اور اس سے کوئی جگہ بھی خالی نہیں ہے حالانکہ اس آیت کے ظاہر کی رو سے خدا جسم رکھتا ہے اور یہ واضح سی بات ہے کہ ہر جسم کے لئے جگہ اور مکان ضروری ہے۔اگر ہم اس آیت کے ظاہری معنی کواخذ کرتے ہیں  تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر خداوند آسمان میں ہوتو وہ زمین پر نہیں ہو گا اور اگر زمین پر ہو تو آسمان اس کے وجودسے خالی ہو گا اور یہ بات عقل اور شرع دونوں کی نظر میں درست نہیں  ہے۔

اب عباسی اس عقلی جواب کے سامنے اورٹھہر نہ کر سکا اور جواب دینے سے عاجز ہو گیا۔آخر کار اس نے کہا:میں یہ بات قبول نہیں کرتاکیونکہ قرآن کی ظاہری آیات پر عمل کرنا چاہئے۔

علوی نے فرمایا :پھر متشابہ آیات کا کیا کرو گے؟دوسری طرف تم قرآن کی تمام آیات کے ظاہری معنی کو بھی مدنظر نہیں رکھ سکتے؛کیونکہ اس صورت میں یہ لازم آئے گاکہ تمہاے ساتھ بیٹھا ہوا تمہارا یہ دوست شیخ احمد عثما ن  ([7])اہل جہنم میں سے ہو۔

عباسی نے کہا:وہ کیوں؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ خدانے فرمایا ہے:

"وَمَنْ کٰانَ فِیْ ھٰذِہِ أَعْمٰی فَھُوَ فِ الْآخِرَةِ أَعْمٰی وَ أَضَلُّ سَبِیْلاً"([8])

''اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا''

اب جب کہ شیخ احمد عثمان اس دنیا میں اندھا ہے تو اس آیت کے ظاہری معنی کی رو سے یہ آخرت میں اس سے بھی زیادہ اندھا اور گمراہ ہو گا۔اے شیخ احمد!کیا تم اسے قبول کرتے ہو اور اس پر راضی ہو؟

شیخ نے کہا: نہیں !ہر گز نہیں؛اس آیت میں ''اندھے''سے مراد راہ حق سے منحرف شخص ہے۔

علوی نے فرمایا:اس بناء پر یہ ثابت ہو گیا کہ انسان تمام آیات کے ظاہری معنی پر عمل نہیں کر سکتا۔

کانفرنس کے اس حصے میں آیات قرآن کے ظاہر کے بارے میں کچھ دیر تک بحث ہوتی رہی لیکن علوی اپنی محکم دلیلوں سے عباسی کو شکست دے دیتے یہاں تک کہ بادشاہ نے کہا: اب اس موضوع کو چھوڑو اور کسی دوسرے موضوع کے بارے میں بحث کرو۔

علوی نے فرمایا:تم سنیّوں کے منحرف اور باطل عقائد میں  سے ایک یہ ہے کہ تم خداوند کریم کے بارے میں کہتے ہو:خداوند اپنے بندوں کو گناہ اور حرام کاموں کو انجام دینے پر مجبور کرتا ہے اور پھر انہیں ان کے گناہوں اور حرام کاموں کی وجہ سے سزا وعذاب دیتا ہے۔

عباسی نے کہا:یہ درست ہے کیونکہ خدا نے فرمایا ہے:

"وَ مَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ"([9])

اور جسے بھی خدا گمراہ کرے''

نیز خدا نے فرمایا:

 "طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِم"([10])

''خدا نے تمہارے دلوں پر مہر لگا دی ہے''

علوی نے فرمایا:تم یہ تو کہہ رہے ہو کہ یہ قرآن میں آیا ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ قرآن میں کنایہ اور مجاز بھی استعمال ہوئے ہیں  جنہیں تلاش کرنا اور قبول کرنا چاہئے۔

یہاں''گمراہ کرنے''سے مراد یہ ہے کہ خدا وند شقی انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے تا کہ وہ گمراہ ہوتے جائیں۔یہ ایسے ہی کہ جیسے لوگ کہتے ہیں:حکومت نے لوگوں کو فاسد کر دیا۔اس کا یہ معنی ہے کہ حکومت نے لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑ دیا اور حکومت کو ان کے کاموں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

دوسری طرف سے یہ کہ کیا تم نے نہیں سنا کہ خدا وند کریم نے فرمایا:

"اِنَّ اللّٰہَ لاٰ یَأْمُرُ بِالْفَحْشٰآءِ"([11])

''بے شک خدا فحشاء اور برے کاموں کو انجام دینے کا حکم نہیں دے سکتا''

نیز خدا نے فرمایا:

"اِنّٰا ھَدَیْنٰاہُ السَّبِیْلَ اِمّٰاشٰاکِراً وَ اِمّٰا کَفُوْراً"([12])

''ہم نے انسان کو راہ راست دکھا دیا اب یہ اس پر ہے کہ وہ شکر ادا کرے یا ناشکری کرے''نیز خدا نے فرمایا:

"وھَدَیْنٰاہُ النَّجْدَیْنِ"([13])

'' اس کی دونوں راستوں کی طرف ہدایت کر دی''

دوسری طر ف سے عقل اس امکان کو قبول نہیں کرتی کہ خدا وند حکیم انسان کو گناہ انجام دینے کا حکم دے اور پھر اسی گناہ کی وجہ سے اسے سزا بھی دے۔یہ کام ایک عام انسان سے بھی بعید ہے تو یہ کام خدائے حکیم اور عادل کس طرح انجام دے سکتا ہے جو ہر نقص و عیب سے پاک  و منزہ ہے۔

بادشاہ نے چلا کر کہا:نہیں!نہیں! اس چیز کا امکان نہیں ہے کہ خدا انسان کو گناہ پر مجبور کرے اور پھر اسے گناہ انجام دینے کی وجہ سے سزا بھی دے۔یہ واضح ظلم و ستم ہے اور خدا ہر طرح کے ظلم و ستم سے پاک اور مبرا ہے۔

"وَاِنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلاٰمٍ لِلْعَبِیْدِ"([14])

''خداوند اپنے بندوں کے لئے ظالم اور ستم کار نہیں ہے''

پھر شاہ نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:کیا اہلسنت کا ایسا عقیدہ ہے؟

وزیر نے جواب دیا :جی ہاں!سنّیوں میں  یہی مشہور ہے!

بادشاہ نے کہا:وہ ایسی چیز کس طرح سے کہتے ہیں جسے عقل ہی تسلیم نہیں کرتی؟

وزیر نے جواب دیا:ان کے پاس اپنے عقائد کی تاویلات و دلائل موجود ہیں۔

بادشاہ نے کہا:یہ جتنی بھی تأویلیں کریں یا دلائل پیش کریں لیکن پھر بھی عقل انہیں قبول نہیں کرے گی اور میری نظر میں صرف وہی سید علوی کا نظریہ صحیح ہے کہ خداوند کریم کسی کو گناہ اور کفر پر مجبور نہیں کرتااور نہ ہی اس کی وجہ سے انہیں سزا دے گا۔

علوی نے فرمایا:اس کے علاوہ سنّیوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ رسول خدا  (ص)کو اپنی نبوت میں  شک تھا!

عباسی نے کہا:یہ صاف جھوٹ ہے۔

علوی نے فرمایا:کیا تم یہ روایت نہیں  کرتے اور کیا تمہاری کتابوں میں یہ نہیں آیا کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا:کبھی بھی جبرئیل مجھ پر نازل نہیں ہوئے مگر یہ کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ عمر بن خطاب پر نازل ہوئے ہیں!

تمہاری یہ روایت ایسی شرائط میں ہے کہ قرآن میں بہت سی آیات اس مطلب پر دلالت اور تصریح کرتی ہیں  کہ خدا نے اپنے پیغمبر محمد ۖ سے ان کی نبوت و رسالت کے لئے عہد و پیمان لیا!

بادشاہ نے وزیر سے پوچھا:کیا یہ صحیح ہے اور کیا سنّیوں کی کتابوں میں ایسی روایت آئی ہے؟

وزیر نے کہا:یہ سنّیوں  کی کچھ کتابوں میں  موجود ہے۔

بادشاہ نے کہا:یہ واضح کفر ہے۔

علوی نے فرمایا:اس کے علاوہ سنّی اپنی کتابوں میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص)عائشہ کو اپنے کندھوں پر بٹھاکر عورتوں کی محفل موسیقی میں لے جاتے تھے۔

کیا یہ رسول اکرم(ص) کے مقام و منزلت سے سازگار ہے؟!!

عباسی نے کہا:یہ رسول اکرم(ص)کے مقام کے لئے مضر نہیں ہے۔

علوی نے فرمایا:تم ایک عام آدمی ہو کیا تم ایسا کام انجام دیتے ہو؟

بادشاہ نے کہا جس میں بھی ذرّہ برابرحیا اور غیرت ہو وہ ایسا کام نہیں کر سکتاتو پھر رسول خدا ۖیہ کام کیسے انجام دے سکتے ہیں جو حیا و غیرت اور ایمان کا پیکر ہیں؟

 کیا یہ صحیح ہے کہ سنّیوں کی کتابوں میں ایسی بات ذکر ہوئی ہے؟

وزیر نے کہا:جی ہاں!بعض کتابوں میں یہ بات ذکر ہوئی ہے۔

بادشاہ نے کہا:پھر ایسے نبی کی نبوت پرکیسے ایمان لا سکتے ہیں جنہیں  خود اپنی نبوت میں شک ہو؟

عباسی نے کہا:ان روایتوں کی تأویل کرنی چاہئے۔

علوی نے فرمایا:کیا ان روایات کی تأویل کی جا سکتی ہے؟!

اے بادشاہ!آپ نے دیکھا کہ سنّی ایسی خرافات کے معتقد ہیں اور باطل،فالتواور فضول  اعتقادات پر یقین رکھتے ہیں؟!

عباسی نے کہا:تم کن باطل عقائد اور خرافات کے بارے میں کہہ رہے ہو؟

علوی نے فرمایا:یہی عقائد جو اب تک میں نے گن کر بتائے ہیں  کہ تم لوگ کہتے ہو:

١۔خدا وند انسان کی طرح ہے جس کے ہاتھ پاؤںہیں وہ ہلتا جُلتا اور آرام بھی کرتا ہے۔

٢۔قرآن میں تحریف اور کمی بیشی ہوئی ہے۔

٣۔رسول اکرم(ص)نے ایسے کام انجام دیئے جنہیں  ایک عام شخص بھی انجام نہیں دیتا اور آپ نے عائشہ کو اپنے کندھوں پر بٹھایا۔

٤۔رسول پاک(ص) کو اپنی نبوت میں شک تھا۔

٥۔جنہوں نے علی بن ابی طالب علیہ السلام سے پہلے حکومت حاصل کی انہوں نے یہ کام طاقت اور تلوار کے بل بوتے پر حکومت حاصل کی لہذا ان کی حکومت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

٦۔سنّی کتابوں میں ابوہریرہ اور دوسرے بہت سے جھوٹی روایت گڑھنے والوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔ نیز اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے باطل اور فاسد عقائد ہیں۔

بادشاہ نے کہا:اس موضوع کو چھوڑیں اور اب کسی اور موضوع کے بارے میں گفتگو کریں۔

علوی نے فرمایا:سنّی رسول خدا (ص)کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت دیتے ہیں کہ جو حتی کسی ایک معمولی  انسان کے بھی صحیح نہیں  ہیں۔

عباسی نے کہا:تمہارا کیا مطلب ہے؟

علوی نے فرمایا:جیسا کہ تم لوگ کہتے ہو:سورۂ "عَبَسَ وَ تَوَلّٰی"([15])  رسول اکرم(ص) کے بارے میں نازل ہوئی ہے!

عباسی نے کہا:اس میں کیا ممانعت ہے؟

علوی نے فرمایا: اس کی ممانعت یہ آیت ہے کہ جس میں فرمایا گیاہے:"وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ"([16])

''اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں '' 

اور یہ آیہ جس میں فرمایا گیا ہے:

 "وَمٰا أَرْسَلْنٰاکَ اِلاّٰ رَحْمَةً لِلْعٰالَمِیْنَ"([17])

''اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے ''۔

کیا عقل یہ قبول کرتی ہے کہ جس رسول کو خدا نے عظیم اور نیک اخلاق کا مالک بنایا ہواور جسے عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو ،وہ کسی نابینا شخص کے ساتھ ایسا غیر انسانی فعل کیسے انجام دے سکتاہے؟

بادشاہ نے کہا:یہ غیر معقول ہے کہ تمام علام بشریت کا رسول،پیغمبر رحمت ایسا کام انجام دے ؛اے علوی !اب آپ یہ بتائیں کہ یہ سورۂ کس کے بارے میں نازل ہوا ہے؟

علوی نے فرمایا:اہلبیت عترت علیھم السلام (جن کے گھر میں قرآن نازل ہوا)سے روایت ہونے والی احادیث میں بیان ہوا ہے:یہ سورہ عثمان بن عفان کے بارے میں اس وقت نازل ہواہے،جب ''عبداللہ بن ام مکتوم''اس کے پاس گئے مگر عثمان نے اس سے اپنا منہ پھیر لیا اور اس کی طرف پیٹھ کردی۔

یہاں سید جمال الدین(علماء شیعہ میں سے ایک عالم دین)کھڑے ہوئے جو کہ اسی کانفرنس میں موجود تھے اور انہوں نے فرمایا:میں اس سورہ کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں  گا ۔ مجھ سے ایک عیسائی عالم نے کہا تھا:ہمارے حضرت عیسی علیہ السلام تمہارے پیغمبر حضرت محمد(ص) سے افضل ہیں ۔

میں نے کہا:وہ کیسے؟

اس نے کہا:کیونکہ تمہارے پیغمبر بد اخلاق تھے جو نابینا افراد سے اپنا منہ موڑ لیتے تھے اور ان کی طرف اپنی پیٹھ کر دیتے تھے،حالانکہ ہمارے پیغمبر خوش اخلاق تھے اور وہ بیماروں کو شفا دیتے تھے۔

میںنے کہا:اے عیسائی!تمہارے لئے یہ جان لینا بہتر ہے کہ ہم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سورہ عثمان بن عفان کے بارے میں نازل ہوئی ہے نہ کہ پیغمبر خدا(ص) کے بارے میں؛ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ۖ بہت ہی خوش اخلاق اور تمام کمالات و صفات کے مالک ہیںجن کے بارے میںخدا نے فرمایا ہے:

"وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ"

''اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں ''

"وَمٰا أَرْسَلْنٰاکَ اِلاّٰ رَحْمَةً لِلْعٰالَمِیْنَ"

''اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے ''۔

عیسائی نے کہا:میں  نے جو کچھ کہاہے یہ میں نے بغداد کی ایک مسجد سے سنا تھا!

میں نے کہا:ہمارے نزدیک یہ مشہور ہے کہ بعض بدکردار اور جھوٹے راویوں نے اس واقعہ کی نسبت رسول اکرم(ص)سے دی ہے تا کہ وہ عثمان کے چہرے پر لگی ہوئی کالک کو صاف کر سکیں،وہ رسول پاک(  ص)  کی طرف جھوٹ کی نسبت دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے خلفاء کو بے گناہ ثابت کر سکیں۔

بادشاہ نے کہا:اس موضوع کو چھوڑکر اب کسی اور موضوع کے بارے میںبات کی جائے۔

عباسی نے کہا:شیعہ ،خلفاء ثلاثہ کے ایمان کا انکار کرتے ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے؛کیونکہ اگر وہ مومن نہیں تھے تو پھر رسول اکرم(ص) ان کے داماد کیوں بنے اور انہیں کیوں اپنا داماد بنا لیا؟

علوی نے فرمایا :شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ تینوں افراد باطنی اور دلی طور پر ایمان نہیں رکھتے تھے اگرچہ وہ زبان سے ظاہری طور پر اسلام کا ظہار کرتے تھے۔

نیز جو کوئی بھی زبان سے شہادتین کہتااگرچہ وہ حقیقت میں منافق ہی کیوں نہ ہوتا ،مگر پھر بھی رسول اکرم  (ص)اسے قبول کر لیتے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی طرح ہی سلوک کرتے۔

لہذا رسول خدا(ص) کا ان کا داماد بننا اور ان کا رسول اکرم(ص) کا داماد بننا اسی باب سے ہے۔

عباسی نے کہا:اس کی کیا دلیل ہے کہ ابوبکر ایمان نہیں رکھنے تھے؟

علوی نے فرمایا :اس بارے میں بہت سے قطعی دلائل موجود ہیں؛  جن میں سے ایک یہ ہے اس نے بہت بار رسول اکرم(ص) سے خیانت کی۔جیسا کہ وہ اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے باز رہے اور اس نے اس بارے میں رسول خدا(ص) کے حکم کی مخالفت کی۔حلانکہ واضح طور پر خدا نے  قرآن مجید میں فرمایا ہے:جو کوئی بھی رسول اکرم(ص) کی مخالفت کرے وہ باایمان نہیں  ہے۔

"فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما"([18])

''پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحبِ ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں ''

اس بناء پر ابوبکر نے رسول اکرم(ص) حکم عدولی کی اور ان کا حکم ماننے سے انکار کیا لہذا وہ ایسے افراد میں سے ہیں جو مذکورہ آیت میں شامل ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ رسول اکرم(ص)نے ہر اس شخص پر لعنت کی تھی جو اسامہ بن زیدکے لشکر میں جانے سے انکار کرے اور ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ابوبکر نے اسامہ بن زیدکے لشکر میں جانے سے انکار کر دیا۔

اور کیا رسول خدا(ص)کسی مومن پر لعنت کر سکتے ہیں؟!

یہ واضح ہے کہ رسول اکرم(ص)ایسا نہیں کر سکتے !

بادشاہ نے کہا:اس لحاظ سے علوی کی بات صحیح ہے کہ ابوبکر مومن نہیں تھے۔

وزیر نے کہا:اہلسنت ابوبکر کی مخالفت و بغاوت کی کچھ توجیہات پیش کرتے ہیں۔

بادشاہ نے کہا:کیا کوئی توجیہ حرام کام کو ختم کر سکتی ہے؟

اگر ہم توجیہ اور تأویل کا دروازہ کھول دیں تو ہر مجرم اپنے جرم کی کوئی نہ کوئی تأویل اور توجیہ کرے گا!چور کہے گا:میں نے غربت اور مفلسی سے تنگ آ کر چوری کی،شرابی کہے گا:میں نے بہت زیادہ غمگین ہونے کی وجہ سے شراب پی لی،زانی کہے گا:......یوں تو نظام زندگی درہم برہم ہو جائے گااور لوگوں میں  گناہ کرنے کی جرأت پیدا ہو جائے گی۔

نہیں!نہیں!تأویلات اور توجیہات کا ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

عباسی کا چہرا سرخ ہو گیا اور وہ دنگ رہ گیاکہ آخر کیا کہے اور آخر کار کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا:عمر کے ایمان نہ رکھنے کی کیا دلیل ہے؟

علوی نے فرمایا:اس بارے میں بھی بہت سے دلائل ہیں ،جن میں سے ایک اس کی اپنے بارے میں یہ تصریح کہ وہ ایمان نہیں رکھتا۔

عباسی نے کہا:وہ کہاں ؟

علوی نے فرمایا:جب اس نے یہ کہا:میں  نے اس طرح کبھی شک نہیں کیا جیسے میں صلح حدیبیہ کے دن محمد(ص) کی نبوت میں شک کیا۔

عمر کی یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ہمیشہ حضرت محمدۖ کی نبوت میں شک کرتا تھا، لیکن دوسرے دنوں کی بنسبت حدیبیہ کے دن اس کے شک میں مزید اضافہ ہو گیا ۔

اے عباسی!تمہیں تمہارے خدا کی قسم!مجھے یہ بتاؤ کہ جو محمد(ص) کی نبوت میں شک کرے کیا وہ مومن ہے؟

عباسی خاموش ہو گیا اور شرم کے مارے اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

بادشاہ نے اپنے وزیر کی طرف رخ کیا اور کہا:علوی نے عمر کے بارے میں جو کچھ کہا کیا وہ صحیح ہے؟

وزیر نے کہا:راویوں نے ایسے ہی روایت کی ہے۔

بادشاہ نے کہا:حیرت کی بات ہے!واقعاً بہت ہی حیرانگی کی بات ہے!میں شروع سے عمر کو مسلمان سمجھتا تھا اور اس کے ایمان کو دائمی ایمان سمجھتا تھا لیکن مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ اس کے ایمان میں  شک و تردیدتھی۔

عباسی نے کہا:اے بادشاہ آپ صبر کریں!آپ اپنے عقیدے پر قائم رہیں؛یہ جھوٹا علوی آپ کو دھوکا نہ دیدے۔

بادشاہ نے غصے کی حالت میں عباسی کی طرف دیکھا اور کہا:میرا وزیر ''نظام الملک''کہہ رہاہے کہ علوی سچا ہے اور عمر کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ کتابوں میں موجود ہے لیکن یہ جاہل اور نادان شخص(عباسی) کہہ رہاہے کہ علوی جھوٹا ہے؛اگر یہ تعصب اور دشمنی نہیں ہے تو کیاہے؟

 مجمع میں مکمل سکوت طاری ہو گیا۔بادشاہ غصہ میں آگئے اور انہیں  عباسی کی بات پر بہت افسوس ہوا۔عباسی اور دوسرے سنّی علماء اپنا سر جھکائے بیٹھے تھے.....وزیر بھی خاموش تھے.... علوی اپنا سر اٹھائے بادشاہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس کے نتیجہ کے منتظر تھے۔

یہ لمحات عباسی پر بہت سخت گزرے اور وہ یہ آرزو کر رہا تھا کہ کاش !زمین پھٹ جائے اور اسے نغل لے ،یا جلدی سے ملک الموت آ کر اس کی روح کو قبض کر لے ،وہ بہت شرمندہ ہو رہا تھااور بہت دشوار اور سخت ترین لمحات گزار رہا تھا ،کیونکہ اس کے مذہب کا باطل ہوناواضح ہو چکا تھا اور اس کے خرافات پر مبنی عقائد بادشاہ ،تمام وزراء  اور مملکت کے دوسرے علماء پر عیاں ہو چکے تھے! لیکن آخر وہ کیا کر سکتا تھا؟

بادشاہ نے اسے سوال و جواب کے لئے بلایا تھا تا کہ حق و باطل معلوم ہو سکے ،بالآخر عباسی نے خود کو تیار کیا اور اپنا سر اٹھایا اور پوچھا:

اے علوی !تم کیسے کہتے ہو کہ عثمان کا ایمان باطنی اور قلبی نہیں تھا حلانکہ رسول پاک(ص)نے اپنی بیٹی رقیہ اور اپنی دوسری بیٹی امّ کلثوم کا نکاح عثمان سے کیا ؟ ١

علوی نے فرمایا:اس کے بھی بہت سے دلائل ہیں کہ عثمان دل میں ایمان نہیں رکھتے تھے لیکن اتنا ہی کافی ہے کہ مسلمان (جن میں صحابہ بھی شامل تھے)اس بات پر متفق ہوئے کہ انہیں قتل کیا جائے اور پھر اسے قتل کر دیا گیا۔

تم لوگ خود پیغمبر اسلام(ص)سے روایت کرتے ہو کہ آپ نے فرمایا:''میری امت باطل پر متفق نہیں ہو سکتی''اب کیا مسلمان (جن میں صحابہ بھی شامل ہوں)کسی ایسے شخص کے بارے میں متفق ہو سکتے ہیںجو ایمان بھی رکھتا ہو؟

دوسری طرف سے عائشہ، عثمان کو یہودیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے قتل کرنے کا حکم صادر کرتی ہیں اور کہتی ہیں:اس نعثل(یہ ایک یہودی کا نام ہے)کو قتل کر دو۔کیونکہ وہ یقینا کافر ہوگیاہے ،نعثل کو قتل کر دو،خدا نعثل کو قتل کرے،نعثل نابود اور رحمت الٰہی سے دورہوجائے۔

اسی طرح عثمان نے پیغمبر اکرم(ص)کے جلیل القدر صحابی ''عبداللہ بن مسعود''کو مارا پیٹا اور سبّ و شتم کیاجس کی وجہ سے وہ فتق کی بیماری میں مبتلا ہو گئے اور اسی مار کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے!

اسی طر ح اس نے حضرت ابوذر غفاری جیسے رسول(ص)کے باوفا صحابی کو ملک بدر کرتے ہوئے ایک یا دو بار مدینہ سے نکال کر شام بھیج دیا اور دوسری بار انہیں ربذہ نامی صحرا ئ(یہ بیابان صحراء مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے جہاں پانی تک نہیں ہے )کی طرف نکال دیا جہاں ابوذر بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب عثمان مسلمانوں کے بیت المال پر قابض تھااور وہ بیت المال اپنے اموی اور مروانی رشتہ داروں پر لٹا رہا تھا،اور ابو ذر وہی ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم(ص)نے فرمایا ہے:

''ما اظلت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذ لھجة أصدق من ابی  ذر''۔([19])

آسمان نے کسی ایسے پر سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی ایسے کو اپنے اوپر جگہ نہیں دی کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

اسی گفتگو کے دوران بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کیا علوی کی باتیں صحیح ہیں؟

وزیر نے کہا :مؤرخین نے ایسے ہی بیان کیاہے۔

بادشاہ نے کہا:پھر کس طرح مسلمانوں نے اسے خلافت کے لئے قبول کر لیا؟

وزیر نے کہا:وہ شوریٰ کے حکم سے خلیفہ بنا تھا۔

علوی نے فرمایا:اے وزیر!اجازت چاہتا ہوں؛جو چیز صحیح نہیں ہے ،وہ نہ کہیں۔

بادشاہ نے کہا:کیا کہہ رہے ہو؟!

علوی نے فرمایا:وزیرکی یہ بات درست نہیں تھی؛عثمان صرف عمر کی وصیت کی بنا پر خلافت تک پہنچااور صرف اور صرف منافقین میں سے تین افراد نے اسے خلافت کے لئے منتخب کیایعنی طلحہ،سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف۔

کیا ان تین منافقوں کی نظر تمام مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے؟!

نیز تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ ان تینوں افراد نے جب عثمان کے طغیان  کو دیکھا کہ وہ  رسول(ص)کے اصحاب کی ہتک حرمت اور توہین کر رہا ہے،مسلمانوں کے امور کے سلسلہ میں کعب الاحبار یہودی سے مشورہ کرتا ہے ،مسلمانوں کا مال خاندان مروان میں تقسیم کر رہاہے تو ان تینوں افراد نے خود لوگوں کو عثمان کے قتل  کے لئے ورغلایااور ان کی حوصلہ افزائی کی!

 بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھا اور کہا:کیا علوی کی باتیںصحیح ہیں؟

وزیر نے کہا:جی ہاں!جیسا کہ مؤرخین نے بھی یہی لکھا ہے۔

بادشاہ نے کہا :پھر تم کس طرح یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ عثمان شوریٰ کی بنا پر خلافت تک پہنچا؟

وزیر نے کہا:شوریٰ سے میری مراد یہی تین افراد تھے۔

بادشاہ نے کہا:کیا ان تین افراد کا انتخاب شوریٰ کے زمرے میں آتا ہے؟

وزیر نے کہا:رسول اکرم(ص) نے ان تینوں افراد کے لئے جنت کی بشارت دی ہے۔

علوی نے فرمایا:اے وزیر!ٹھہریئے!غلط بات زبان پر نہ لائیں؛وہ حدیث جس میں دس افراد کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ،وہ جھوٹ ہے اور رسول خدا(ص) پر تہمت ہے۔

عباسی نے کہا:تم کس طرح اسے جھوٹ قرار دے رہے ہو حلانکہ اسے موثق راویوں نے روایت کیاہے؟!

علوی نے فرمایا:میرے پاس ایسے بہت سے دلائل ہیں جو اس روایت کے جھوٹ اور غلط ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔جن میں سے تین دلائل یہ ہیں:

١۔رسول اکرم(ص)کسی ایسے شخص کے بارے میں کس طرح جنت کی بشارت دے سکتے ہیں جس نے رسول(ص)کو اذیت دی ہو(میری مراد طلحہ ہے)کیونکہ بعض مفسرین اور مؤرخین نے لکھاہے کہ طلحہ نے کہا:اگر محمد مر جائے تومیں حتمی طور پر اس کی عورتوں سے ازدواج کر لوں۔ (یا یوں کہا:میں حتمی طور پرعائشہ سے شادی کر لوں)۔

اس بات سے اس نے   پیغمبر(ص)کو اذیت دی اور خدا نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔

"وَمٰا کٰانَ لَکُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰہِ وَلٰا أَنْ تَنْکِحُوا أَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ أَبَداً ِنَّ ذٰلِکُمْ کٰانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْماً"([20])

 اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے۔

٢۔طلحہ و زبیر نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے جنگ کی جن کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

اے علی!تمہارے ساتھ جنگ کرنامیرے ساتھ جنگ کرنا ہے اور تمہارا ساتھ دینا میرا ساتھ دینا ہے۔([21])

جو علی علیہ السلام کی اطاعت کرے یقیناً اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی  علیہ السلام کے سامنے سرکشی کی اس نے میرے سامنے سرکشی کی۔([22])

علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے؛یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے۔([23])

علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور حق علی علیہ السلام کے ساتھ ہے ،جہاں علی علیہ السلام ہوں گے وہاں ہی حق ہو گا۔([24])

اس رو سے کیا ایسا شخص جنت میں جا سکتا ہے جو رسول خدا(ص)سے جنگ کرے اور ان کے حکم کے سامنے سر کشی کرے ؟کیا حق اور قرآن کے ساتھ جنگ کرنے والا جنت میں جا سکتاہے؟!

٣۔طلحہ اور زبیر نے عثمان کو قتل کرنے کی بہت کوشش کی ۔کیا اس کے باوجودیہ ممکن ہے کہ عثمان،طلحہ،زبیر تینوں جنت میں جائیں حلانکہ ان میں سے بعض نے بعض کو قتل کیا ہے۔ حلانکہ رسول(ص) سے نقل ہوا ہے:قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا دونوں آگ میں ہیں؟!

بادشاہ نے حیرانگی سے پوچھا:کیاعلوی کی تمام باتیں صحیح ہیں؟

وزیر خاموش ہو گیا اور اس نے کچھ نہ کہا۔

عباسی اور اس کے ہم فکر بھی خاموش ہو گئے اور انہوں نے بھی کوئی بات نہ کی۔

کیا کہتے؟کیا وہ سچ کہتے؟کیا شیطان انہیں حق بات کہنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا برائی سے مربوط رہنے والا اتنی آسانی سے حقیقت و واقعیت کو قبول کر سکتاہے؟کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ حقیقت کا اعتراف کرنا اتنا آسان ہے؟

نہیں! ہرگز نہیں!.....یہ کام بہت مشکل ہے؛کیونکہ اس کا لازمہ جاہلانہ تعصب اور خواہشات نفس کی مخالفت ہے اور لوگ خواہشات نفس اور باطل کی پیروی کرتے ہیں۔مگر بہت کم لوگ کہ جو مومن ہوتے ہیں۔

سید علوی نے مہر سکوت کو توڑا اور فرمایا:

اے بادشاہ!وزیر،عباسی اور یہاں موجود تمام علماء اچھی طرح میری باتوں کوجانتے ہیں اور میری باتوں کی  حقیقت سے آگاہ ہیں؛اگر یہ انکار بھی کرنا چاہیں تو بغداد میں ایسے عالم بھی موجود ہیں جو میری باتوں کی صحت اورحقیقت کی گواہی دیں۔اسی طرح اس مدرسہ(نظامیہ) میں ایسی کتابیں  بھی موجود ہیں جو میری باتوں کی تائید کریں اور ایسے معتبر مدارک ومنابع موجود ہیں جوواضح طور پر میری باتوں کے صحیح ہونے اور میری باتوں کی حقیقت کی تائید کریں۔

......اگر یہ اعتراف کریں کہ میری باتیں درست ہیں تو مقصداور مطلوب حاصل ہو جائے گا، اور اگر قبول نہ کریں تو میں ان کے لئے ابھی یہاں کتابیں،مصادر،اور گواہ حاضر کر سکتا ہوں۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف رخ کیااور کہا:کیا علوی کی باتیں صحیح ہیں اور اس بارے میں مصادر و منابع موجود ہیں اور کیا اس کی باتوں کے صحیح ہونے پر احادیث موجود ہیں؟!

وزیر نے کہا:جی ہاں!

بادشاہ نے کہا:پھر تم پہلے خاموش کیوں ہو گئے؟!

وزیر نے کہا:کیونکہ مجھے یہ پسند نہیںاصحاب رسولۖکے بارے میں بد کلامی کروں؟

علوی نے فرمایا:شاید !تمہیں یہ کام پسند نہیں لیکن خدااور اس کے رسول اکرمۖ اس کو یہ کام پسند ہے۔خداوند کریم نے بعض صحابیوں کو منافق کہہ کر خطاب کیاہے اور رسول خداۖ کو حکم دیا ہے کہ جس طرح وہ کافروں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اسی طرح ان کے خلاف بھی جنگ کریں؛ رسول اکرمۖ نے خود اپنے کچھ اصحاب پر لعنت کی ہے۔

وزیر نے کہا:کیا آپ نے عالموں کا یہ قول نہیں سنا کہ وہ کہتے ہیں:رسول خدا ۖ کے سب اصحاب عادل ہیں۔

علوی نے فرمایا:میںنے سنا ہے۔لیکن میں یہ اعتراف اور دعویٰ کرتاہوں کہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ رسول(ص)کے سب اصحاب عادل ہوں حلانکہ ان میں سے بعض پر خدا نے خود لعنت فرمائی ہے اور خود رسول اکرمۖ نے بھی ان میں سے کچھ پر لعنت کی ہے۔

دوسری طرف ان اصحاب میں سے بعض نے خود بھی ایک دوسرے پر لعنت کی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ بھی کی ہے،ایک نے دوسرے کو گالی دی ہے یا دوسرے کے قتل کا اقدام کیاہے؟!

عباسی نے جب یہاں اپنے لئے دروازوں کو بند ہوتے دیکھا تو دوسرے دروازے سے داخل ہوا اور کہا:اے بادشاہ!اس علوی سے کہیںاگر یہ تینوں خلیفہ مومن نہیں تھے تو مسلمانوں نے انہیں اپنی بادشاہی کے لئے کیوں منتخب کیا اور ان کی اقتدا کیوں کی؟

علوی  نے فرمایا:پہلی بات تو یہ کہ تمام مسلمانوں نے انہیں خلافت کے لئے منتخب نہیں کیابلکہ صرف سنّیوں نے ہی ایسا کیاہے ۔دوسری بات یہ کہ ان کی خلافت پر اعتقاد رکھنے والے افراد دو طرح کے ہیں:یا وہ نادان ہیں یا انہوں نے حق کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ان کا دامن تھام لیاہے۔

جو نادان ہیں انہیں ان کی رسوائی اور ان کی حقیقت کی کوئی خبر نہیں ہے اور وہ انہیں پاک اور مومن افراد شمار کرتے ہیں،اور جو دشمن ہیں ان کے لئے کوئی دلیل و برہان سودمند نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تعصب کی عینک اتار دیں اور لج بازی سے باز رہیں۔

خداوند متعال فرماتا ہے:"وَاِن یَرَوْاْ کُلَّ آیَةٍ لاَّ یُؤْمِنُواْ بِہَا"([25])

 اور یہ کسی بھی نشانی کو دیکھ لیں ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

اسی طرح خدا نے فرمایا:

"سَوَاء  عَلَیْْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ"

ان کے لئے سب برابر ہےآپ  انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔

تیسرا یہ کہ جن افراد نے انہیں خلافت کے لے منتخب کیا،انہوں نے اپنے انتخاب میں غلطی کی،جس طرح بعض عیسائیوں نے بھی غلطی کی اور کہا:''مسیح ،خدا کا بیٹا ہے''

اور یہودی بھی غلط راہ پر گئے اور انہوں نے بھی کہا:''عزیز ،خدا کا بیٹا ہے''

اس بناء پر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے خدا اور اس کے رسول کی پیروی کرے اور حقیقت کو مانے نہ کہ لوگوں کے غلط کاموں کی پیروی کرے

خداوند کریم نے فرمایا:

"اَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ "([26])

ایمان والو اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو۔

بادشاہ نے کہا:اس بحث کو چھوڑواورکسی اور موضوع کے بارے میں بحث کرو۔

علوی نے فرمایا:سنّیوں کی غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کو چھوڑ کر دوسروں کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں!

عباسی نے کہا:کیوں؟

علوی نے فرمایا:چونکہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کورسول خدا(ص)  نے معین فرمایا ہے لیکن ان تینوں کو پیغمبر  (ص)نے معین نہیں فرمایا۔

علوی نے بادشاہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے بادشاہ!اگر آپ کسی کو اپنے بعد اپنی جانشینی اور بادشاہی کے لئے معین کریں تو کیا تمام وزراء اور حکومتی سربراہان کو بھی چاہئے کہ وہ اس کی پیروی کریں  اور اسے قبول کریں؟یا یہ کہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ آپ کے جانشین کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو جانشینی کے لئے منتخب کر لیں؟

بادشاہ نے کہا:یہ واضح سی بات ہے کہ میں جسے اپنی جانشینی کے لئے معین کروں اس کی پیروی کی جانی چاہئے اور اس کی اقتدا کی جانی چاہئے اور اسی کے حکم کی اطاعت کی جانی چاہئے۔

علوی نے فرمایا:شیعوں نے بھی ایسا ہی کیاہے ؛شیعہ بھی رسول(ص)  کے اسی جانشین کی پیروی کرتے ہیں جسے رسول خدا(ص)نے خدا کے حکم سے اپنے بعد اپنا جانشین مقرر فرمایا۔یعنی علی علیہ السلام ، شیعوں نے ان ہی کی پیروی کی  اور ان کے علاوہ باقی سب کو چھوڑ دیا۔

عباسی نے کہا:علی بن ابی طالب علیہ السلام خلافت نے مستحق نہیں تھے؛ کیونکہ ان کی عمر کم تھی اور ابو بکر ان سے بڑے تھے۔دوسری طرف علی بن ابی طالب علیہ السلام نے عرب کے بزرگوں کو قتل کیا تھا اور عرب کے بہادروں کو نیست و نابود کیا تھا اور عرب ابوبکر کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے ؛لیکن ابوبکر نے یہ کام نہیں  کئے تھے۔

علوی نے فرمایا:اے بادشاہ!آپ نے سناکہ عباسی نے کیا کہا ہے؟وہ کہہ رہاہے کہ  خلیفہ معین کرنے کے لئے لوگ خدا اور رسول(ص)  سے زیادہ صلاحیت و لیاقت رکھتے ہیں  اس لئے انہوں نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کو جانشین مقرر کئے جانے کے بارے میں  خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کو تسلیم نہیں کیا بلکہ کچھ لوگوں کی بات مان لی جنہوں نے ابوبکر کو خلافت کے لئےزیادہ لائق سمجھا۔

گویا یہ خدا کو دانا و حکیم نہیں سمجھتے ۔افضل کون ہے ؟ کچھ نادان لوگ آ کر کس طرح سے افضل کا انتخاب کر سکتے ہیں؟!

کیا خداوند متعال نے   یہ  نہیں فرمایاہے؟

"وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلٰا مُؤْمِنَةٍ ِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَنْ یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالٰاً مُّبِیْناً"([27])

اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھالی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا ۔

کیا خداوند کریم نے یہ نہیں فرمایا:"یٰا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَجِیْبُواْ لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ ِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحْیِیْکُمْ "([28])

اے ایمان والو اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے۔

ان باتوں کے بعد عباسی نے کہا:نہیں!میں نے یہ نہیں کہا کہ لوگ خدا اور اس کے رسول(ص)سے زیادہ جانتے ہیں۔

علوی نے فرمایا:پس پھر تمہاری باتوں کا کوئی معنی نہیں ہو گا؛کیونکہ اگر خدا اور اس کے رسول(ص) نے ایک شخص کو خلافت و امامت کے لئے معین کیا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اسی کی اقتدا اور پیروی کرو؛چاہے لوگ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔

عباسی نے کہا:لیکن علی بن ابی طالب علیہ السلام میں لیاقت و شائستگی بہت کم تھی۔

علوی نے فرمایا:تمہاری بات کا ایک معنی تو یہ ہے کہ خدا وند خبیر،علی بن ابی طالب علیہ السلام کو صحیح طرح سے نہیں پہچانتا تھااور خدا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان میں  صلاحیت و شائستگی بہت کم ہے،اس لئے انہیں خلیفہ قرار دیا ۔اگر تمہاری بات کا یہ مطلب ہے تو یہ واضح و آشکار کفر ہے۔

دوسرا یہ کہ خلافت و امامت کی شائستگی،لیاقت اور اس مقام کی تمام تر خوبیاں مکمل طور پر  علی بن ابی طالب علیہ السلام میں موجود تھی اور اس کی قابلیت  علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کسی اور میں نہیں تھی۔

عباسی نے کہا:مثال کے طور پر بتاؤ ان میں کون سی قابلیت و صلاحیت تھی؟

علوی نے فرمایا:ان کی بے شمار خوبیاں اور ان میں بہت زیادہ قابلیت ہے:

ان کی پہلی قابلیت یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول(ص)نے انہیں خلافت کے لئے منتخب کیا اور معین فرمایا۔

دوسری قابلیت یہ ہے کہ وہ مطلق طور پر تمام صحابیوں سے زیادہ عالم اور دانا ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم(ص)نے فرمایا ہے۔

اقضاکم علی۔([29])

تم میں سب سے زیادہ عادل اور سب سے بڑا قاضی علی علیہ السلام ہیں۔

"اقضانا علی"([30])

ہم میں سب سے بڑے قاضی  علی علیہ السلام ہیں۔

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

انا مدینة العلم و عل بابھا ،فمن اراد المدینة و الحکمة فلیات الباب۔([31])

میں علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام  اس کا دروازہ ہے۔جو شخص علم وحکمت کا طالب ہو اس پر لازم ہے کہ وہ دروازے سے آئے۔

آپ نے خود بھی فرمایا:

علمنی  رسول اللّٰہ الف باب من العلم یفتح ل من کلّ باب ألف باب۔([32])

رسول خدا(ص) نے مجھے علم کے ہزار باب سکھائے اور میں نے اپنے لئے ہر باب سے ہزار باب کھولے۔

یہ واضح سی بات ہے کہ عالم،جاہل اور نادان شخص پر فضیلت رکھتا ہے کیونکہ خداوند عالم کا فرمان ہے:

 " ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ"([33])

کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں۔

تیسری قابلیت یہ ہے کہ  علی بن ابی طالب علیہ السلام دوسروں سے بے نیاز تھے لیکن باقی سب ان کے محتاج اور نیاز مند تھے؛لیکن کیا ابوبکر نے نہیں کہا تھا؟

''مجھے چھوڑ دو !جب  علی بن ابی طالب علیہ السلام تمہارے درمیان ہیں تو میں تمہارا بہترین(خلیفہ) نہیں ہوں''([34])

کیا عمر نے ستر سے زیادہ موقعوں پر یہ نہیں کہا تھا:

اگر علی بن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوتے توبیشک عمر ہلاک ہو جاتا۔([35])

''خدایا ١مجھے کسی ایسی مشکل میں گرفتار نہ کرنا جس کو حل کرنے کے لئے ابا لحسن علیہ السلام میرے پاس نہ ہوں''([36])

''جب   علی  علیہ السلام مسجد میں موجود ہوں تو تم میں سے کوئی بھی فتویٰ نہ دے''

چوتھی قابلیت یہ ہے کہ  علی بن ابی طالب علیہ السلام نے کبھی بھی خدا کی معصیت نہیں کی اور کبھی بھی خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی ؛ اپنی پوری زندگی میں وہ کبھی بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے حلانکہ ان تینوں نے خدا کی معصیت کی،خدا کے علاوہ دوسروں کی پرستش کی اور بتوں کے سامنے سجدہ بھی کیا۔

خداوند متعال نے فرمایا:

" لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ"([37])

 یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا ۔

یہ واضح ہے کہ گناہگار ظالم ہے اور اسی لئے وہ عہد الٰہی(یعنی نبوت و خلافت) کے لائق نہیں ہے۔

پانچویں قابلیت یہ ہے کہ  علی بن ابی طالب علیہ السلام کی عقل بزرگ، سوچ سالم،فکر عمیق و دقیق،رائے ونظر صحیح اور اسلام کے عین مطابق تھی  حلانکہ ان تینوں افراد کی عقل ناقص،سوچ بیمار اور افکار شیطانی تھے۔

ابوبکر کہتا ہے:میرے پاس ایسا شیطان ہے جو مجھے فریب دیتاہے۔

عمر نے بہت سے موارد میں رسول خدا(ص)کی مخالفت کی۔

عثمان کی سوچ پست اور رائے و نظر کمزور تھی ۔اس پراس کے ساتھ رہنے والے بد کردار ساتھیوں کی سوچ بہت زیادہ اثر انداز ہوتی تھی۔اس کے ساتھیوں میں وزع بن وزع(رسول خدا نے  اس پر اور  اس کی نسل سے آنے والے بیٹوں پر لعنت کی ہے مگر مومنوں کے علاوہ جو بہت کم ہیں)مروان بن حکم اور کعب الاحبار یہودی وغیرہ شامل تھے۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:کیا یہ صحیح ہے کہ ابوبکر نے کہا تھا:میرے پاس ایسا شیطان ہے جو مجھے فریب دیتاہے؟

وزیر نے کہا:روایات کی کتابوں میں ایسا ہی ذکر ہواہے۔

بادشاہ نے کہا:کیا یہ بھی صحیح ہے کہ عمر نے رسول خدا(ص)کی مخالفت کی تھی؟!

وزیر نے کہا:یہ علوی سے پوچھا جائے کہ اس کی باتوںکا کیا مطلب ہے؟

علوی نے فرمایا:جی ہاں!سنّی علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں کہا ہے کہ عمر نے بہت سے موارد میں رسول خدا(ص) کے حکم اور باتوں کو رد کیا اور بہت سے مقامات پر آنحضرت کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ۔  ان میں سے کچھ یہ ہے:

١۔جب پیغمبر اکرم(ص) نے عبد اللہ بن ابیّ کے جنازے پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر نے بہت سختی،سنگدلی اور گستاخی کے ساتھ آپ کی مخالفت کی اور پیغمبر(ص) کو اذیت پہنچائی ؛یہ اس وقت ہوا جب خدا نے فرمایا:

"وَالَّذِیْنَ یُؤْذُونَ رَسُولَ اللّہِ لَہُمْ عَذَاب أَلِیْم"([38])

 اور جو لوگ رسول خدا کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے ۔

٢۔جب رسول خدا(ص)نے عمرۂ تمتع اور حج تمتع کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کا حکم صادر کیا اور عورت و مرد کو حج و عمرہ کے درمیان مجامعت کرنے کی اجازت فرمائی تو عمر نے پیغمبر(ص)پر اعتراض کیا اور یہ بری اور گستاخانہ بات کہی:

''کیایہ چاہتے ہوکہ احرام کی حالت میں ہمارے آلہ سے منی  ٹپکتی ہوئی نظر آئے''

پیغمبر(ص)نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا:

''حقیقت یہ ہے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے''۔

پیغمبر خدا(ص)نے یہ بات کہہ کر بتا دیا کہ عمر ،ان میں سے ہے جو اسلام کے کسی حصہ پر بھی  ایمان نہیں لایا۔

٣۔عمر نے متعة النساء کی بھی مخالفت کی اور خدا کے اس حکم پر ایمان نہیں لایا جب اسے بادشاہی ملی اور اس نے تخت خلافت کو غصب کر لیاتو کہا:رسول خداکے زمانے میں دو متعہ حلال تھے اور میں ان دونوں کو حرام قرار دیتا ہوں،جو بھی انہیں انجام دے گامیں اسے سزا دوں گا۔

حلانکہ خداوند کریم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ "([39])

جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے،ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے۔

مفسرین بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت متعہ کے جائز ہونے کے بارے میں نازل ہوئی ہے حتی کہ مسلمان عمر کے زمانے میں بھی اس حکم پر عمل کرتے تھے ؛جب عمر نے اسے حرام قرار دے دیا تو مسلمانوں میں زنا اور بدکاری میں اضافہ ہو گیا۔([40])

عمر نے اپنے اس کام سے حکم خدا اور سنت رسول (ص) کو ختم کیا اور زنا و بدکاری کو رواج دیا اوراس آیت میں شامل ہو گیا:

" وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ.... الظَّالِمُون َ.... الْفَاسِقُونَ"([41])

جودستور الہٰی کے مطابق حکم نہ کرے تو وہی لوگ کافر ہیں....ظالم و ستمکار ہیں.... فاسق ہیں۔

٤۔جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا کہ صلح حدیبیہ میں بھی عمر نے پیغمبر اسلام(ص)کی مخالفت کی اور آپ کو گستاخانہ اور سخت کلمات سے اذیت پہنچائی۔

بادشاہ نے کہا:حقیقت یہ ہے کہ میں بھی عورتوں سے متعہ کرنے کو پسند نہیں کرتا۔

علوی نے فرمایا:کیا آپ یہ قبول کرتے ہیں کہ یہ ایک دینی قانون ہے یا نہیں؟

بادشاہ نے کہا:میں اس کا اعتراف نہیں کرتا۔

علوی نے کہا:پھر اس آیت کا کیا معنی ہو گا:

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ "

جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے،ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے۔

اسی طرح عمر کی اس بات کا کیا معنی ہو گا کہ رسول خداکے زمانے میں دو متعہ حلال تھے اور میں ان دونوں کو حرام قرار دیتا ہوں؟

کیا عمر کا قول اس چیز پر دلالت نہیں کرتا کہ عورتوں اور کنیزوں سے متعہ رسول(ص)کے زمانے میں جائز تھا ،یہ ابو بکر کی بادشاہی کے دوران بھی جائز تھا اور عمر کی بادشاہی کے زمانے میں بھی کچھ مدت تک جائز رہا اور پھر اس نے اس سے منع کر دیا اور متعہ کرنے سے روک دیا؟

اس سے بھی بڑھ کر اس بارے میں اور بھی بہت سے دلائل موجود ہیں۔

اے بادشاہ !عمر نے خود عورتوں سے متعہ کیاہے ۔نیز عبداللہ بن زبیر متعہ اور ازدواج موقت کا ہی نتیجہ ہے!

بادشاہ نے کہا:اے نظام الملک!تمہاری کیا رائے ہے؟

وزیر نے کہا:علوی کا استدلال صحیح ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن چونکہ عمر نے اس کام سے منع کیا لہذا ہمیں بھی اس کی اطاعت کرنی چاہئے۔

علوی نے فرمایا:کیا خدا اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرنا زیادہ ضروری ہے یا عمر کی اطاعت کرنا؟!

 اے وزیر!کیا تم نے یہ آیتیں نہیں پڑھیں؟!

"وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ "([42])

'' اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو''

"وَ أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ"([43])

''رسول کی اطاعت کرو''

"لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَة حَسَنَة"([44])

تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے ۔

کیا یہ مشہور حدیث نہیں سنی؟!

حلال محمّد حلال الی یوم القیامة وحرام محمّد حرام الی یوم القیامة۔

جس چیز کو حضرت محمد(ص)نے  حلال قرار دیاہے وہ  قیامت تک حلال ہے اور جس چیز کو حضرت محمد(ص) نے حرام قرار دیاہے وہ قیامت تک حرام ہے۔

بادشاہ نے کہا:میں اسلام کے تمام قوانین پر ایمان رکھتا ہوں لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اسلام کے قانو ن متعہ کی کیا علت ہے۔کیا آپ میں سے کسی کا بھی یہ دل چاہے گا کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کو ایک گھنٹہ کے لئے کسی مردکے اختیار میں دے دے؟کیا یہ برا نہیں ہے؟

علوی نے فرمایا:اے بادشاہ!آپ اس بارے میں کیا کہیں گے کہ انسان اپنی بیٹی یا بہن کو عقد دائمی کے طور پر کسی مرد کے اختیار میں قرار دے اور وہ یہ بھی جانتاہو کہ یہ اس کے ساتھ مباشرت کرنے اور ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد اسے طلاق دے دے گا؟

بادشاہ نے کہا:مجھے یہ بھی پسند نہیں ہے۔

علوی نے فرمایا:حلانکہ سنّی کہتے ہیں اس طرح کا دائمی عقد صحیح ہے اور اس کے بعد طلاق بھی صحیح ہے۔

پس اب عقد دائمی اور عقد متعہ میں اس کے علاوہ اور کیا فرق باقی رہ جائے گیاکہ متعہ مقررہ مدت گزر جانے کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور دائمی عقد طلاق دینے سے ختم ہو جاتاہے۔

دوسرے لفطوں میں یوں کہہ سکتے ہیں:عقد متعہ اجارہ کی مانند ہے اور دائمی عقد ملکیت کی مانند ہے کہ اجارہ مدت تمام ہو جانے کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور ملکیت جنس کو فروخت کر دینے سے ختم ہو جاتی ہے۔

اس بناء پر متعہ کا قانون ایک صحیح و سالم قانون ہے۔کیونکہ یہ بدن کی ایک ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہے۔طلاق کے ذریعہ ختم ہونے والا دائمی عقد بھی صحیح ہے اور وہ بھی بدن کی فطری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے۔

اے بادشاہ! اب میں آپ سے یہ پوچھتا ہوںکہ آپ بیوہ عورتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جن کا شوہر نہیں ہے اور کوئی ان کی خواستگاری کے لئے بھی نہیں  جاتا؛کیا صرف عقد متعہ ہی فساد و تباہی سے بچاؤ کا واحد ذریعہ نہیں  ہے؟!

کیا متعہ کے ذریعہ انہیں کچھ مال حاصل نہیں ہو گا جس سے وہ اپنا اور اپنے یتیم بچوں کا خرچہ پورا کر سکتی ہے؟!

آپ ان جوانوں اور مردوں  کے بارے میں کیا کہیں گے جودائمی عقد کی استطاعت نہیں رکھتے ؛کیا متعہ ہی ان کی مشکلات کو حل کرنے ،جنسی شہوت سے نجات ،فسق و فجور اور بے راہ روی  سے محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے؟!

کیا متعہ کرنا،زنا(جو فحشا ہے)،ہم جنس پرستی  اور استمناء کرنے سے بہتر نہیں ہے؟

اے بادشاہ!میری نظر میں  لوگوں میں زنا ،لواط اور استمناء جیسا کوئی بھی جرم رونما ہو،اس کا اصلی سبب عمر ہے اور عمر  ان کے گناہ میں شریک ہے کیونکہ اس نے متعہ کرنے سے منع کیا اور لوگوں کو متعہ کرنے سے روکا ہے۔

متعد روایات میں آیاہے کہ لوگوں میں زنا اس وقت سے زیادہ ہو گیا جب سے عمر نے انہیں متعہ کرنے سے روکا ہے۔

اے بادشاہ!آپ نے یہ جو کہا کہ مجھے متعہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے....اس کے لئے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اسلام نے کسی کو اس کام پر مجبور نہیں کیا اور اسی طرح آپ کو مجبور نہیں کیاکہ آپعقد دائمی کے طور پر اپنی بیٹی کی کسی سے شادی کریں اور آپ کو معلوم ہو کہ وہ ایک گھنٹہ کے بعد اسے طلاق دے دے گا۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی چیز میں آپ کی یا لوگوں کی عدم دلچسپی اس کام کے حرام ہونے کی دلیل نہیں  ہے۔کیونکہ خدا کا حکم ثابت ہے جو لوگوں کی رائے اورہوا و ہوس سے تبدیل نہیں ہوتا!

بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھا اورکہا:جواز متعہ کے بارے میں  علوی کی دلیل قوی ہے۔

وزیر نے کہا:لیکن علماء، عمر کے نظرئے کی پیروی  کرتے ہیں۔

علوی نے فرمایا:پہلی بات یہ کہ صرف سنّی علماء نے عمر کے نظرئے کی پیروی کی ہے نہ کہ تمام علماء اسلام نے اس کی پیروی کی ہے۔

دوسرا یہ کہ کیا خدا کے حکم کی پیروی کرنا زیادہ ضروری ہے یا عمر کے نظرئے کی؟!

تیسرا یہ کہ آپ کے اپنے علماء نے بھی عمر کے اس قانون کو نقض کیاہے۔

وزیر نے پوچھا:وہ کیسے؟

علوی نے فرمایا:چونکہ عمر نے کہا:روسول خدا(ص)کے زمانے میں دو متعہ  حلال  تھے لیکن میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں :متعۂ حج اور متعۂ نساء۔

اگر عمر کا قول صحیح ہے تو پھر آپ کے علماء حج کے مورد میں اس کی رعایت کیوں نہیں کرتے؟انہوں نےعمر کے قول کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:متعة الحج صحیح ہے اگرچہ عمر نے اسے حرام قرار دیا ہے!

اگر عمر کا قول غلط اور باطل ہے تو پھر آپ کے علماء متعة النساء کی حرمت کے سلسلہ میں اس کی پیروی کیوں کرتے ہیں اور اس کی موافقت کیوں کرتے ہیں؟

وزیر خاموش گیاہو اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

بادشاہ نے جلسہ میں موجود افراد کی طرف رخ کیا اور کہا:تم لوگ کیوں علوی کا جواب نہیں دے رہے؟!

وہاں موجود شیعہ علماء میں سے ایک عالم دین شیخ  حسن قاسمی نے کہا:یہ عمر اور اس کی پیروی کرنے والوں پر اعتراض و اشکال ہے اسی لئے یہاں موجود کسی بھی شخص کے پاس ہمارے سید علوی کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

بادشاہ نے کہا:پس اس موضوع کو چھوڑ کر کسی اور موضوع کے بارے میں بحث کریں:

عباسی نے کہا:یہ شیعہ گمان کرتے ہیں کہ عمر میں  کوئی فضیلت نہیں تھی حلانکہ اس کے لئے یہ ہی فضیلت کافی ہے کہ اس نے اسلام کے لئے کشور کشائی کی۔

علوی نے کہا :ہمارے پاس اس بارے میں کچھ جوابات ہیں:

١۔تمام حاکم اور بادشاہ کشور کشائی کرتے ہیں تا کہ وہ اپنی سرزمین اور حکومت کو وسعت دے سکیں ؛کیا یہ کوئی فضیلت ہے؟

٢۔اگر ہم یہ قبول بھی کر لیں کہ کشور کشائی ایک فضیلت ہے تو کیا اس فضیلت سے پیغمبر(ص)کی خلافت کو غصب کرنے کی توجیہ کی جا سکتی ہے؟!!

٣۔حلانکہ پیغمبر اکرم(ص) نے اسے خلافت نہیں دی تھی بلکہ خلافت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد کی تھی۔

 اے بادشاہ!اگر آپ اپنی جانشینی کسی کے سپرد کریں اور کوئی آئے اور یہ مقام آپ کے جانشین سے غصب کرلے اور اس کے تخت پر بیٹھ جائے اور اس کے بعد کشور کشائی میں مصروف ہو جائے اورنیک کام انجام دے،تو کیا آپ اس کی کشور کشائی کو پسند کریں گے یا اس پر غضبناک ہوں گے کہ تم نے میرے معین کئے گئے جانشین کو معزول کرکے اس کی جگہ پر قبضہ کرلیا  اور تم اجازت کے بغیر تخت پر بیٹھے ہوئے ہو؟!

بادشاہ نے کہا:یہ معلوم ہے کہ میں اس پر غضبناک ہوں گا اور اس کی کشور کشائی اس کے گناہ کو صاف کرنے کا موجب نہیں بن سکتی۔

علوی نے فرمایا:عمر بھی ایسا ہی تھا۔جس نے جانشینی و خلافت کے مقام کو غصب کیا اور پیغمبر کہ جگہ پر قبضہ کر لیا اور اسے اس کام کے لئے پیغمبرۖ سے کوئی اجازت بھی نہیںملی تھی۔

٣۔عمر کی کشور کشائی غلط کام تھا جو اس کا بہت بڑا اشتباہ تھا جس کا منفی نتیجہ نکلا کیونکہ پیغمبر اسلام(ص)نے خود کسی بھی جنگ میں پہل نہیں کی بلکہ آپ کی تمام جنگیں دفاع کی خاطر تھیں اورجو دشمن کے حملہ کے بعد ہوتیں جس کی وجہ سے لوگ اسلام کے مشتاق و گرویدہ ہو گئے تھے اور جوق در جوق خدا کے دین کو اختیار کر رہے تھے کیونکہ لوگ یہ سمجھ چکے تھے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔

لیکن عمر مختلف سرزمینوں پر حملہ کرتااور لوگوں کو تلوار کے زور پر مسلمان ہونے پر مجبور کرتا جس کی وجہ سے لوگ اسلام سے بدظن ہو گئے اور اسلام جیسے بہترین دین کو امن و سلامتی کا دین سمجھنے کی بجائے طاقت اور تلوار کا دین سمجھنے لگے۔انہی چیزوں کی وجہ سے اسلام کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہوا۔اس بناء پر عمر کی کشور کشائی اسلام کی بدنامی کا باعث بنی جس کے بہت منفی نتائج برآمد ہوئے۔

اگر ابوبکر،عمر اور عثمان نے خلافت کے حقیقی وشرعی وارث حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے خلافت غصب نہ کی ہوتی اور خلافت کی زمام آپۖ کے ہاتھوں میںہوتی تو یقینا رسول خداۖ کی سیرت و روش پر عمل ہوتا اور جو لوگ آپ کی  پیروی کرتے وہ حقیقت میں پیغمبرۖ کی صحیح روش پر عمل کرتے اور یہ چیز سبب بنتی کہ لوگ گروہ  در گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے اور ہر جگہ اسلامی حکومت کا پرچم لہراتا جو پوری روئے زمین پر چھا جاتالیکن لاحول ولا قوة الاّٰ باللّٰہ العلی العظیم۔

اس مقام پر سید علوی نے لمبی سانس اور سرد آہ لی اور اپناایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مار کر رسول خدا(ص)کی رحلت کے بعد خلافت کو ان کے شرعی وارث  حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے غصب کرنے کے سبب اسلام کو پہنچنے والے نقصان پر اپنے غم کا اظہار کیا۔

بادشاہ  نے عباسی کی طرف دیکھ کر کہا:تمہارے پاس علوی کی باتوں کا کیا جواب ہے؟!

عباسی نے کہا:میں نے آج تک ایسی باتیں نہیں سنی۔

علوی نے فرمایا:اب تو تم نے سن لی ہیں اور تمہارے لئے حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے پس اب ان خلفاء کو چھوڑ کر رسول خدا(ص) کے حقیقی و شرعی خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام  کی اطاعت و پیروی کرو۔

علوی نے فوراً کہا:اے سنیو!تمہارے کرتوت بھی بہت عجیب ہیں تم لوگ اصل کو بھول چکے ہو اور فرع کے پیچھے بھاگ رہے ہو۔

عباسی نے کہا:وہ کیسے؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ تم لوگوں کو عمر کی کشور کشائی تو یاد ہے لیکن تم لوگ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی فتوحات کو بھول چکے ہو۔

عباسی نے کہا:علی  کی کون سی فتوحات تھیں؟

علوی نے فرمایا:رسول خدا(ص) کی اکثر و بیشتر فتوحات  حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام  کے دست مبارک سے انجام پائی ہیں جیسے بدر،خیبر،حنین،خندق اور.....اگر یہ فتوحات(جو اسلام کی بنیاد ہیں) نہ ہوتیں تو نہ عمر کا کوئی اتہ پتہ ہوتا اور نہ ہی اسلام و ایمان کا کوئی نام ہوتا۔اس بات کی دلیل رسول خدا(ص) کا وہ فرمان ہے جو آپ نے جنگ خندق میں اس وقت فرمایا جب   حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام  ،عمر وبن عبدود کے ساتھ جنگ کرنے جا رہے تھے:

آج کل ایمان ،کل کفر کے مقابلہ میں جا رہا ہے۔

بارالٰہا!اگر تو چاہتا ہے کہ عبادت و پرستش نہ ہو تو نہیں ہو گی(لیکن اگر تو چاہتا ہے کہ عبادت و پرستش ہو تو علی  کو کامیاب فرما)۔

اس کا یہ معنی ہے کہ اگر   حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام  قتل ہو گئے تو مشرکوں میں مجھے قتل کرنے کی جرأت پیدا ہو جائے گی اور تمام مسلمانوں کو بھی قتل کر دیں گے اور پھر اسلام و ایمان کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔

اسی طرح رسول  اکرم(ص) نے فرمایا:

ضربة عل یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین۔([45])

خندق کے دن  حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام  کی ضربت جنّ و انس کی عبادت سے افضل ہے۔لہذا ہمارا یہ کہنا صحیح ہے کہ اسلام کا وجود حضرت محمد مصطفی (ص)سے تھا لیکن اس کی بقاء اور دوام   حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام  سے ہے۔

عباسی نے کہا:اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ آپ کی بات صحیح ہے اور عمر غلط کاراور غاصب تھا جس نے دین کو بدل دیا ،لیکن تم لوگوں کو ابوبکر سے کیوں نفرت ہے؟

علوی نے فرمایا:چند وجوہات کی بناء پر ہمیںاس سے بھی نفرت ہے:

١۔اس کا شہزادی کونین دختر رسول خدا(ص)حضرت فاطمہ ٔ زہراء علیھا السلام سے ناروا سلوک کرنا۔

٢۔زانی اور ظالم(خالدد بن ولید)پر حد جاری نہ کرنا۔

بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا:کیا خالد بن ولید ظالم اور جنایت کار تھا؟

علوی نے کہا:جی ہاں!

بادشاہ نے کہا :اس کا جرم کیا تھا؟

علوی نے فرمایا:اس کا جرم یہ تھا کہ ابوبکر نے اسے پیغمبر خدا(ص) کے برجستہ صحابی ''مالک بن نویرہ''کے پاس بھیجا تھا جنہیں یغمبر اکرم(ص) نے جنت کی بشارت دی تھی ابوبکر نے خالد کو حکم دیا کہ وہ مالک اور اس کی قوم کو قتل کر دے۔

مالک مدینہ سے باہر تھے جب انہوں نے خالد کو سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے لئے آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اپنی قوم کو حکم دیا کے اسلحہ اٹھا لو اور انہوں نے خود بھی اسلحہ اٹھا لیا۔

جب خالد ان کے پاس پہنچے تو اس نے مکاری دکھائی اور ان سے جھوٹ بولا  اور خدا کی قسم کھائی کہ وہ ان کے پاس کسی برے ارادے سے نہیں آیا اور اس نے کہا:میں آپ نے ساتھ جنگ کے لئے نہیں آیا ہوں بلکہ میں آج رات آپ کا مہمان ہوں۔

مالک اس کی قسم سے مطمئن ہو گئے۔ انہوںنے اور ان کی قوم نے اسلحہ زمین پر رکھ دیا اس کے بعد نماز کا وقت ہوا تو مالک اور ان کی قوم نماز کے لئے کھڑے ہو گئے لیکن خالد اور اس کے سپاہیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور ان سب کو اسیر کرلیااور پھر سب کو قتل بھی کر دیا۔

اس کام کے بعد خالد نے مالک کی بیوی پرآنکھ جمالی ،وہ ایک خوبصورت عورت تھی ۔ جس رات خالد نے اس کے شوہر کو قتل کیا اسی رات اس سے زنا بھی کی اور پھر مالک اور اس کی قوم کے مردوں کے سروں کو دیگ میں رکھ کر پکایا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ مل کر کھایا۔

 جب خالدمدینہ واپس گیا تو عمر نے چاہاکہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں خالد سے قصاص لے اور مالک کی زوجہ سے زنا کرنے کے جرم میں اس  پرحد جاری کرے ؛لیکن ابوبکر (جو تمہارا مومن ہے)نے سختی سے اس کی مخالفت کی اور اس نے اپنے اس کام سے مسلمانوں کے خون کو ضائع کیا اورحدود الٰہی میں سے ایک کا خلاتمہ کر دیا۔

بادشاہ نے وزیر کی طر ف دیکھ کر کہا:علوی نے خالد اور ابوبکر کے بارے میں جو کچھ کہا ہے کیا وہ صحیح ہے؟

وزیر نے کہا:جی ہاں! مؤرخین نے ایسے ہی لکھا ہے۔

بادشاہ نے کہا:پھر کیوں بعض لوگ خالد کو ''مجاہدراہ خدا اور سیف اللہ ''کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

علوی نے فرمایا:وہ شیطان کی تلوار تھی کیونکہ وہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن تھا اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے گھر کے دروازے کو جلانے میں عمر کے ساتھ تھا لیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگ اسے ''مجاہدراہ خدا اور سیف اللہ '' کہتے ہیں!!!

بادشاہ نے کہا:کیا سنی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے دشمن ہیں؟

علوی نے فرمایا:اگر یہ ان کے دشمن نہیں ہیں تو پھر یہ اس کی تعریف ستائش کیوں کرتے ہیں ،جس نے ان کے حق کو غصب؟کیایہ ان کے دشمنوں کے ساتھ نہیں  ہیں  جو ان کے فضائل ومناقب کا انکار کرتے ہیں؟انہوں  نے  کینہ و دشمنی کو اس حد تک پہنچادیا کہ ان کا کہناہے: ابوطالب علیہ السلام  اس دنیا سے کفر کے ساتھ چلے گئے ،حالانکہ ابوطالب علیہ السلام  مئومن تھے جومشکل ترین حالت اور دشوار موقعوںپر اسلام کے لئے آگے بڑے اورجنہوں دفاع رسالت میں  کلیدی کردار اداکیا۔

بادشاہ نے کہا:لیکن کیا ابوطالب علیہ السلام  نے اسلام قبول نہیں کیا تھا؟

 علوی نے فرمایا:ابوطالب  علیہ السلام کافر نہیں تھے کہ جو وہ اسلام قبول کرتے۔ وہ مئومن تھے اور اپنے ایمان کو پنہان رکھتے تھے اور جب پیغمبرۖ مبعوث ہوئے تو آپ نے پیغمبر(ص)کے دست مبارک پر اپنے اسلام کا اظہار کیا۔اس بناء پر ابوطالب علیہ السلام  تیسرے مسلمان ہیں۔پہلے مسلمان حضرت علی علیہ السلام ، دوسرے مسلمان حضرت خدیجہ علیھا السلام (پیغمبر کی زوجہ)اور تیسرے مسلمان شخص حضرت ابوطالب علیہ السلام  تھے۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا: کیا حضرت ابوطالب علیہ السلام  کے بارے میں علوی کی باتیں درست ہیں ؟

وزیر نے کہا :جی ہاں!بعض مئورخین نے اسے ہی لکھاہے۔

 بادشاہ نے کہا:پھر سنیوں میں یہ مشہور کیوں ہے کہ ابوطالب علیہ السلام  اس دنیا سے کفر کے ساتھ چلے گئے؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ ابوطالب  علیہ السلام حضرت علی  علیہ السلام کے والد تھے حضرت علی علیہ السلام سے سنیوںکا کینہ سبب بنا کہ وہ ان کے والد کے بارے میں ایسی ناروابات کہیں ۔

 جس طرح سنیوں کا حضرت علی علیہ السلام سے کینہ سبب بنا کہ ان کے بیٹوںامام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام ( جو جوانان نے جنت کے سردار ہیں)کو شہید کردیا گیا یہاں تک صحرائے کربلا میں امام حسین  علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے آنے والے سنیوں نے امام حسین  علیہ السلام سے کہا :تمہارے باپ سے دشمنی کی وجہ سے اور تمہارے باپ نے ہمارے بزرگوں کے ساتھ جنگ بدر و حنین میں جو کچھ کیا ، اسی کی وجہ سے ہم تمہیں قتل کررہے ہیں ۔

بادشاہ نے اپنے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:کیا حضرت امام حسین علیہ السلام  کو قتل کرنے والوں نے ایسے ہی کہا تھا ؟

وزیر نے کہا :مئورخین نے لکھا ہے کہ انہوں نے امام حسین  علیہ السلام سے ایسا ہی کہا تھا ۔

 بادشاہ نے عباسی سے کہا:خالد کے بارے میں تمہارا کیا جواب ہے ؟

علوی نے کہا:سبحان اللہ !کس مصلحت کے تحت خالد نے بے گناہوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں سے زنا کی اور پھر کسی بھی قسم کی سزا اور حد جاری کئے بغیر اسے رہا کردیاگیا۔بلکہ اسے لشکر کا سر براہ اور سپہ سالار بنادیا گیااور اس کے بارے میں ابوبکر نے کہا: یہ ایسی تلوار ہے جسے  خدانے بھیجا ہے ۔

کیا خدا کی تلوار کافروں کو قتل کرتی ہے یا مسلمانوں کو ؟

کیا خدا کی شمشیر مسلمانوں کے ناموس کی حفاظت کرتی ہے یا مسلمانوں کی عورتوں سے زناکرتی ہے؟

عباسی نے کہا :ٹھیک ہے مگر اے علوی۔!ابوبکر نے غلطی کی لیکن عمر اس کے کاموں کا تدارک کررہاتھا ۔

علوی نے کہا! عمر نے خالد پر حد جاری کرنا چاہی اور اس کام کے لوازمات بھی فراہم  کئے گئے تاکہ اس پر حد زنا کی جاری کی جائے اور اسے مئومنوں کو قتل کرنے کے جرم میں قتل کیاجاتا لیکن اس نے بھی یہ کام انجام نہیں دیا ۔ لہذا عمر نے بھی ابوبکر کی طرح غلطی کیا ۔

 بادشاہ نے کہا: اے علوی !آپ نے اپنی گفتگوکے آغاز میں کہا تھا کہ ابوبکر نے رسول(ص)کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا  علیھا السلام کے ساتھ براسلوک کیا وہ برا اور نا رواسلوک کیا تھا؟

علوی نے فرمایا :جب ابوبکر نے لوگوںکو طاقت اور تلوار کے ذریعہ ڈرادھمکا کر اپنے لئے بیعت لے لی تو اس نے عمر،قنفذ،خالد بن ولید،ابا عبیدہ جراح اور منافقین کا ایک گروہ علی و فاطمہ علیھما السلام کے گھر روانہ کیا ۔عمر نے بھی حضرت فاطمۂ زہرا  علیھاا السلام کے گھر کے دروازے پر آگ اور لکڑیاں جمع  کر لیں۔

(یاد رہے)یہ وہی دروازہ ہے جہاں خدا کے رسول(ص)نے کئی بار کھڑے ہو کر فرمایا:

اے اہلبیت نبوت علیھم السلام !تم پر سلام ہو۔

رسول خدا(ص) اجازت لئے بغیر اس گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے لیکن عمر نے اسی گھر کے دروازے پرآگ لگائی اور اسے جلایا۔

اس کے بعد حضرت فاطمہ علیھا السلام دروازے کے پیچھے آئیں تا کہ عمر اپنا لشکر لے کر واپس چلا جائے مگر عمر نے دروازے کو دھکا مار کر حضرت فاطمہ علیھا السلام  پر گرا دیا۔اسلام کی یہ عظیمخاتون حضرت فاطمہ علیھا السلام ،عمر کی سنگدلی اور وہشیانہ فعل کی وجہ سے در و دیوار کے بیچ میں آ گئیں اور آپ  کا حمل ساقط ہو گیا اور دروازے کا کیل آپ کے سینہ میں پیوست ہو گیا اور آپ نے فریاد کی:اے بابا جان! اے رسول خدا(ص)!دیکھئے آپ کے بعد ہم خطاب اور ابی قحافہ کے بیٹوں سے کیسی کیسی مصیبتیں دیکھ رہے ہیں۔

عمر نے اپنے ساتھیوں سے کہا:فاطمہ کو مارو۔

اس ظالمانہ حکم پر رسول کی چہیتی بیٹی پر تازیانے برسنے لگے اور خاتون جنت کو اس قدر طمانچے مارے گئے کہ آپ کا بدن خون آلود ہو گیا۔

عمر کے اس ظالمانہ فعل(حضرت فاطمہ علیھا السلام پر دروازہ گرانا)،  طمانچوں اور تازیانوں کے نشان حضرت فاطمہ علیھا السلام کے بدن پر باقی رہے اور اس کے بعد ہمیشہ بیمار اور غمگین رہیں اور پھر اپنے بابا کی رحلت کے کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلی گئیں۔

اس بناء پر حضرت فاطمہ علیھا السلام خاندان نبوت علیھم السلام کی شہیدہ ہیں۔

حضرت فاطمہ علیھا السلام ،عمر بن خطاب کی وجہ سے قتل ہوئیں۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا :علوی نے جو کچھ کہا ہے ،کیا وہ صحیح ہے؟

وزیر نے کہا:جی ہاں! میں نے تاریخ میں علوی کی یہ باتیں دیکھی ہیں۔

علوی نے کہا :اسی وجہ سے شیعہ ابوبکر و عمر سے دشمنی اور نفرت کرتے ہیں۔

پھر انہوں نے مزید کہا:ایک اور چیز جس سے آپ کو یہ جاننے کے لئے مدد مل سکتی ہے کہ ابوبکر اور عمر نے یہ جرم انجام دیا ہے ،وہ یہ ہے کہ مؤرخین نے لکھا ہے :

جب حضرت فاطمہ علیھا السلام اس دنیا سے گئیں تو ابوبکر اور عمر بن خطاب سے ناراض اور ان پرغضبناک تھیں ۔

حلانکہ رسول خدا نے فرمایا ہے:

انّ اللّٰہ یرضی لغضب فاطمہ و یغضب لغضبھا۔ ([46])

بے شک خدا وند فاطمہ علیھا السلام کی رضائیت سے راضی ہوتاہے اور فاطمہ علیھا السلام کی ناراضگی و غضب سے غضبناک ہوتاہے۔

یہ بہت سی حدیثوں میں وارد ہوا ہے۔

اے بادشاہ!آپ اچھی طرح جانتے ہیں  کہ جس پر خدا غضبناک ہو اس کی عاقبت  کیسی ہو گی ؟

بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:کیا یہ حدیث صحیح ہے کہجب حضرت فاطمہ علیھا السلام اس دنیا سے گئیں تو ابوبکر اور عمر بن خطاب سے ناراض اور ان پرغضبناک تھیں؟

وزیر نے جواب دیا:جی ہاں!محدثین ومؤرخین نے یہ حدیث بیان کی ہے۔

علوی نے فرمایا:اسی طرح میری بات کی صحت کو جاننے کے لئے یہ مطلب بھی آپ کی رہنمائی کرے گا کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام  نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی تھی کہ ابوبکر،عمر اور جنہوں نے مجھ( حضرت فاطمہ علیھا السلام )پر ظلم و ستم کیا ہے وہ میرے جنازے میں نہ آنے پائیں ،وہ مجھ پر نماز نہ پڑھیں اور میرے جنازے کو نہ دیکھ پائیں۔

اسی طرح یہ وصیت بھی کی کہ اے علی علیہ السلام !میری قبر کو مخفی کر دیں تا کہ وہ لوگ میری قبر پر بھی حاضر نہ ہو سکیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس وصیت پر عمل کیا ۔

بادشاہ نے کہا:یہ بڑی عجیب و غریب چیز ہے،کیا حضرت علی و فاطمہ علیھما السلام نے ایسا کام کیا؟!

وزیر نے کہا:مؤرخین نے ایسے ہی لکھا ہے؟

علوی نے فرمایا:ابوبکر و عمر نے حضرت فاطمہ علیھا السلام پر اس کے علاہ بھی بہت سے مظالم ڈھائے۔

عباسی نے کہا:کون سے مظالمَ؟

اے علوی !وہ جو ان لوگوں نے حضرت فاطمہ علیھا السلام کی ملکیت(فدک) کو غصب کر لیا۔

عباسی نے کہا:تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ ان دونوں نے فدک کو غصب کیا؟

علوی نے فرمایا:تاریخ میں آیاہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک حضرت فاطمہ علیھا السلام کو عطا کیا تھا اور فدک حضرت فاطمہ علیھا السلام کی ملکیت تھا۔مگر رسول اکرم(ص) کی رحلت کے بعد ابوبکر اور عمر نے اپنے کارندوں کو بھیجا اور انہوں نے تلوار اور زور و زبردستی سے حضرت فاطمہ علیھا السلام کے باغ میں کام کرنے والوں کو فدک سے باہر نکال دیا۔ حضرت فاطمہ علیھا السلام نے ابوبکر اور عمر سے احتجاج کیا لیکن ان دونوں نے آپ کی باتوں کو نہ سنا بلکہ آپ کو خالی ہاتھ واپس کر دیا  لیکن آپ  کا حق نہ دیا۔

اسی وجہ سے  حضرت فاطمہ علیھا السلام نے ان دونوں سے بات نہیں کی اور ان سے ناراضگی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہوگئیں!

عباسی نے کہا:لیکن عمر بن عبدالعزیز نے اپنی بادشاہی کے زمانے میں فدک  حضرت فاطمہ  علیھا السلام کے فرزندوں کو واپس کر دیا تھا؟

علوی نے فرمایا:اس کا کیا فائدہ ہے؟!

اگر کوئی تمہارے گھر کو غصب کرے اور تمہارے مرنے کے بعد کوئی آئے اور تمہارا وہ گھر تمہارے بیٹوں کو دے دے تو کیا اس کا یہ کام غاصب کے گناہ کی بخشش کا باعث بن سکتا ہے؟

بادشاہ نے کہا:تم دونوں (عباسی اور علوی) کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ تمام مسلمانوں کی نظر میں ابوبکر اور عمر نے فدک کو غصب کیا تھا۔

عباسی نے کہا:جی ہاں! تاریخ میں ایسا آیا ہے۔

بادشاہ نے کہا:انہوں نے یہ کام کیوں کیا؟!

علوی نے فرمایا:کیونکہ وہ خلافت کو غصب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر فدک  حضرت فاطمہ علیھا السلام کی ملکیت میں باقی رہا تو وہ یقینا فدک  کی آمدنی (بعض کتب تاریخ کے مطابق فدک کی آمدنی یک لاکھ بیس ہزار دینار سے زیادہ تھی) لوگوں میں تقسیم کریں گی اور انہیں بخش دیں گی جس کی وجہ سے لوگ علی علیہ السلام کے ساتھ ہی رہیں گے اور یہ وہی چیز تھی ،جو عمر اور ابوبکر کو پسند نہیں تھی۔

بادشاہ نے کہا:اگر یہ باتیں صحیح ہیں  تو پھر ان افراد کی خلافت کا واقعہ بہت عجیب ہے! اور اگر ان تینوں افراد کی خلافت و بادشاہی باطل تھی تو پھر تمہاری نظر میں کون رسول خدا(ص) کا جانشین و خلیفہ تھا؟!

علوی نے فرمایا:حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے خود خدا کی طرف سے حکم کی بنیاد پر اپنے بعد اپنا جانشین و خلیفہ معین فرمایا ہے اور حدیث کی کتابوں میںموجود احادیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

میرے بعد بنی اسرائیل کے نقیبوں کی طرح میرے بارہ جانشین ہوں گے اور سب کے سب قریش سے ہوں گے۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا:کیا یہ صحیح ہے کہ رسول خدا(ص) نے ایسا فرمایا تھا؟

وزیر نے کہا:جی ہاں!

بادشاہ نے کہا:یہ بارہ افراد کون ہیں؟

عباسی نے کہا:ان میں سے چار افراد معروف ہیںیعنی ابوبکر ،عمر،عثمان اور علی۔

بادشاہ نے کہا:اور بقیہ کون ہیں؟

عباسی نے کہا:بقیہ افراد کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے؟

بادشاہ نے کہا:سب کے نام بتاؤ؟

عباسی خاموش ہو گیا۔

علوی نے فرمایا:اے بادشاہ!اب میں ان بارہ افراد کے نام حدیث کی روشنی میں بتاتا ہوں اور یہ حدیثیں سنّیوں کی کتابوں میں بھی موجودہیں:

علی،حسن،حسین،علی،محمد،جعفر،موسی،علی،محمد،علی،حسن،مہدی علیھم الصلاة والسلام۔

عباسی نے کہا:اے بادشاہ!آپ غور فرمائیں  کہ شیعوں کا کہنا ہے: مہدی زندہ ہیں اور ٢٥٥   ھ سے اس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ؛کیا یہ عقل کے ساتھ سازگار ہے؟!

اسی طرح یہ کہتے ہیں:مہدی جلد ہی آخر الزمان میں ظہور کریں گے اور وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔

بادشاہ نے علوی کی طرف دیکھ کر کہا:کیا یہ صحیح ہے کہ تم لوگوں کا ایسا عقیدہ ہے؟

علوی نے فرمایا:جی ہاں!ایسا ہی ہے۔کیونکہ یہ رسول خدا(ص)نے فرمایا ہے اور شیعہ و سنی راویوں نے بھی اسے روایت کیاہے۔

بادشاہ نے کہا:یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اتنے سالوں تک زندہ رہے؟

علوی نے فرمایا:اب تک حضرت مہدی علیہ السلام کی مدت حیات ایک ہزار سال بھی نہیں ہوئی حلانکہ خدا نے قرآن میں اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں  فرمایاہے :

"فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَةٍ ِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً "([47])

اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے۔

کیاخدا عاجز و ناتوان ہے کہ وہ کسی انسان کو اتنی لمبی زندگی عطا فرمائے؟!

کیا زندگی اور موت صرف خدا کے ہاتھ میں نہیںہے؟کیا خدا ہر کام پر قادر نہیںہے؟

یہ رسول خدا(ص) نے حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا تھا اور رسول خدا(ص)کی صداقت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا:کیا یہ صحیح ہے ،(جو کچھ علوی نے فرمایا)کہ رسول پاک(ص)نے حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں ایسے ارشاد فرمایا تھا؟

وزیر نے کہا:جی ہاں! ([48])

بادشاہ نے عباسی سے کہا:تم ہم تک پہنچنے والی حقیقت کا انکار کیوں کرتے ہو جو کہ ہم سنّیوں کے پاس بھی موجود ہے؟!

عباسی نے کہا:میں ڈرتا ہوں کہ کہیں عوام کا عقیدہ متزلزل نہ ہو جائے اور ان کے دل شیعوں کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔

علوی نے فرمایا:اے عباسی!اگر ایسا ہے تو تم اس آیہ کے مصداق ہو:

"اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولَئِکَ یَلعَنُہُمُ اللّہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُون"([49])

جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ۔

پس تم بھی خدا کی لعنت میں شامل ہو۔

پھرعلوی نے کچھ مزید کہا:اے بادشاہ!اس عباسی سے پوچھو کہ کیا عالم اور دانشور پر یہ واجب ہے کہ وہ خداکی کتاب اور رسول خداۖ کے فرامین کی حفاظت کرے یا وہ عوام کے عقائد اور ان کے یقین کی حفاظت کرے جو کہ قرآن و سنت سے منحرف ہو چکے ہوں؟!

عباسی نے کہا:میں عوام کے عقیدہ کی حفاظت کروں گا تا کہ ان کے دل شیعوں کی طرف مائل نہ ہوں؛کیونکہ شیعہ اہل بدعت ہیں۔

 

علوی نے کہا:حقیقت یہ ہے کہ معتبر کتابیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ جس نے سب سے پہلے دین اسلام میں بدعت داخل کی وہ تمہارارہبر و پیشوا عمرہے۔اس نے خود بھی اس بات کی تصریح کی ہے:

''یہ کام ایک اچھی بدعت ہے''

اس نے یہ باتنماز تراویح کے بارے میںکہی۔جب اس نے لوگوں کو نافلہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا،حالانکہ اسے یہ یقین تھا کہ خدا اور رسول(ص)نے ایسا کرنے کو حرام قرار دیاہے۔اس بناء پرعمر کی یہ بدعت اور دین میں نئی چیز لانا خدا اور رسول خدا(ص) کے حکم کی کھلم کھلا مخالفت ہے۔([50])

اسی طرح کیا عمر نے اذان میں بدعت وارد نہیں کی؟

 کیا اس نے اذان سے  ''حّی  علی خیر العمل '' کو نکال کر''الصلاة خیر من النوم ''کا اضافہ نہیں کیا؟!

مگر کیا عمر نے یہ بدعت رائج نہیں کی کہ اس نے حکم خدا و رسول(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے سہم مؤلفة القلوب کو زکاة سے خارج کر دیا؟!

کیا عمر نے یہ بدعت رائج نہیں کی کہ اس نے خدا  اور رسول(ص)کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے متعة الحج کو حرام قرار دیا؟!

کیا عمر نے اس بدعت کی بنیادنہیں رکھی کہ اس نے خدا اور اس کے رسول(ص)کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے متعة النساء کو حرام قرار دیا؟!

کیا عمر نے اس بدعت کی بنیاد نہیںرکھی کہ اس نے ایک زانی(خالد بن ولید) پرحد جاری نہیں کی اور زانی و قاتل پر حد جاری کرنے کے وجوب پر عمل نہیں کیا؟!

اے عمر کے پیرو کارو! تم سنیوں کی اور بھی بہت سی بدعتیں ہیں....۔

اب بتاؤ کہ تم اہل بدعت ہو یا شیعہ؟

بادشاہ نے وزیر سے کہا:علوی نے عمر کی جن بدعتوںکو بیان کیا ہے کیا وہ حقیقت ہیں؟!

وزیر نے کہا:جی ہاں!علماء کے ایک گروہ نے اپنی کتابوں میں ایسے ہی بیان کیاہے۔

بادشاہ نے کہا:اس بناء پر پھر ہم کسی ایسے شخص کی پیروی کیوں کریں جس نے بدعتوں کو رائج کیا ہو؟

علوی نے فرمایا:جس دلیل کی طرف آپ نے اشارہ کیا ،اسی کی بناء پر اس شخص کی پیروی کرنا حرام ہے؛کیونکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے:

''ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے''

لہذا جو کوئی بھی بدعتوں میں عمر کی پیروی کرے اور وہ ان بدعتوں سے آگاہ بھی ہو ،وہ یقینا اہل جہنم میں سے ہو گا۔

عباسی نے کہا:لیکن مذاہب اربعہ کے سربراہوں  نے عمر کے کاموں کی تائید کی ہے اور اسے درست شمار کیاہے؟

علوی نے کہا:اے بادشاہ!یہ بھی ایک بدعت ہے۔

بادشاہ نے پوچھا:وہ کیسے؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ ان مذاہب اربعہ کے رئیس یعنی ابو حنیفہ،مالک بن انس،شافعی اور احمد بن حنبل پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں نہیں تھے بلکہ پیغمبر(ص) سے تقریباً دو سو سال بعد دنیا میں آئے ہیں۔

اب کیارسول اکرم(ص) اور ان چار افراد کے زمانوں کے درمیان والے زمانے میںزندگی گزارنے والے مسلمان کسی باطل عقیدہ  کے مطابق عمل کر رہے تھے؟!

اس چیز کی کیا دلیل اور توجیہ ہے کہ مذہب صرف یہی چار مذاہب ہیں اور کسی دوسرے فقیہ کی پیروی جائز نہیں ہے؟!کیا رسول خدا(ص)  نے ایسی کوئی وصیت فرمائی تھی؟!

بادشاہ نے کہا:اے عباسی! تم کیا کہنا چاہو گے؟

عباسی نے کہا:یہ چاروں افراد دوسروں سے زیادہ عالم و دانا تھے۔

بادشاہ نے کہا:کیا تمام علماء کا علم ان سے کم تھا؟

عباسی نے کہا:جی ہاں!لیکن شیعہ جعفر صادق علیہ السلام کے مذہب کی پیرو ی کرتے ہیں؟

علوی نے فرمایا:ہم شیعہ، مذہب امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ ان کا مذہب رسول خدا(ص) کا مذہب ہے اور وہ اس خاندان سے ہیں جس کے بارے میں خدا نے فرمایاہے:

"اِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً "([51])

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھم السلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

البتہ ہم شیعہ تمام بارہ اماموں کی پیروی کرتے ہیں۔لیکن چونکہ امام صادق علیہ السلام کو زیادہ فرصت ملی کہ وہ علم ،تفسیر اور حدیث کو دیگر آئمہ اطہار علیھم السلام کی بنسبت زیادہ منتشر کریں ، کیونکہ اس زمانے میں آپ کوکسی حدتک عملی آزدی میسر ہوئی تھی ۔یہاں تک کہ آپ کے درس میں چار ہزار شاگرد حاضر ہوتے تھے ۔١

 اموی اور عباسیوں کے ہاتھوں دین اسلام کی بنیادوں کے کھوکھلا ہو جانے کے بعد  آپ نے انہیںدوبارہ محکم کیا۔یہی وجہ ہے کہ شیعوں کو ''جعفری''کا نام ملااور یوں وہ دین اسلام کو دوبارہ سے اجاگر کرنے اور دین کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والے امام ''حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ''سے منسوب ہوتے ہیں۔

بادشاہ نے کہا:اے عباسی!تمہارے پاس کیا جواب ہے؟

عباسی نے کہا:مذاہب اربع کے رؤسا کی تقلید کرنا ایک ایسی عادت ہے جس سے ہم سنّی ہمیشہ سے منسلک ہیں۔

علوی نے فرمایا:نہیں!بلکہ کچھ بادشاہوں نے تمہیں اس کام پر مجبور کیا ہے اور تم بھی کسی دلیل و برہان کے بغیر ان کی اندھی تقلید اور پیروی کر رہے ہو!عباسی خاموش ہو گیا۔

علوی نے مزید کہا:اے بادشاہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر عباسی اسی حالت میں مر گیا تو یہ اہل جہنم میں سے ہو گا۔

بادشاہ نے کہا:تم کیسے سمجھے کہ یہ جہنمی ہے؟

علوی نے فرمایا:کیونکہ رسول خدا(ص) کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:''جو کوئی بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جہالت کی موت مرا ہے''

اے بادشاہ!عباسی سے پوچھو کے اس کا امام زمانہ کون ہے؟

عباسی نے کہا:یہ حدیث رسول خدا(ص) سے روایت نہیں ہوئی ہے۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا:کیا یہ حدیث رسول خدا(ص) سے روایت ہوئی ہے؟

وزیر نے فرمایا:جی ہاں !یہ حدیث روایت ہوئی ہے۔([52])

بادشاہ  نے غصہ کی حالت میں کہا:اے عباسی!میں اب تک تمہیں مورد وثوق شخص سمجھتا تھا لیکن اب تمہارا جھوٹ مجھ پر کھل کر سامنے آ گیاہے۔

عباسی نے کہا:میں اپنے زمانے کے امام کو پہچانتا ہوں۔

علوی نے فرمایا:وہ کون ہے؟

عباسی نے کہا:بادشاہ۔

علوی نے فرمایا:اے بادشاہ!اچھی طرح جان لو کہ یہ جھوٹ بول رہاہے اور صرف چاپلوسی کے لئے ایسا کہہ رہاہے۔

بادشاہ نے کہا:ہاں !میں جانتا ہوں کہ یہ جھوٹ بول رہاہے؛اور میں اپنی حالت سے بھی بخوبی آگاہ ہوں کہ مجھ میںاس کی لیاقت و شائستگی نہیںہے کہ میں لوگوں کے زمانے کا امام بنوں۔ کیونکہ میں کچھ بھی نہیں جانتا اور میں اپنا زیادہ تر وقت شکار کرنے اور حکومتی امور کی انجام  دینے میں صرف کرتا ہوں۔

پھر بادشاہ نے کہا:تمہاری نظر میں امام زمانہ کون ہیں؟

علوی نے فرمایا:میری نظر میں امام زمانہ وہی ''حضرت امام مہدی

ارواحنا فداہ''ہیں جیسا کہ آپ کے بارے میں رسول خدا(ص)سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔

اس بناء پر جو بھی انہیں پہچان لے وہ دنیا سے مسلمان جائے گااور اہل جنت میں سے ہو گا اور جو بھی انہیں نہ پہچانے ،وہ جہالت کی موت مرے گا اور اہل جہنم میں سے ہو گا اور زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے ساتھ محشور ہو گا۔

یہاں ملک کے بادشاہ سلجوقی کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور ان کے چہرے سے خوشی و مسرت کے آثار واضح دکھائی دینے لگے ۔

انہوں نے وہاں موجود لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا:

اے لوگو!جان لو کہ تین دن تک جاری رہنے والی اس گفتگو سے مجھے اطمینان و وثوق حاصل ہو گیاہے اور مجھے یہ معرفت و یقین حاصل ہوا ہے کہ شیعہ اپنے تمام عقائد و گفتار میں حق پر ہیںاور سنّیوں کا مذہب باطل ہے اور ان کے عقائد منحرف ہیں۔

چونکہ میں ان افراد میں سے ہوں کہ جب میں حق کو دیکھ لوں  تو میں اس کا اقرار اور اعتراف کر لیتا ہوں ،میں ان میں سے نہیں ہوں جو دنیا میں اہل باطل میں سے ہوں  اور آخرت میں  اہل جہنم میں سے۔

لہذا آج میں آپ سب کے سامنے اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور جسے پسند ہو وہ بھی میرے ساتھ شیعہ ہو جائے اور خداکی رحمت و برکت تک پہنچ جائے اور خود کو باطل کی تاریکی سے نجات دے کرحقیقت کے نور کی طرف ہدایت کرے۔

وزیر نظام الملک نے بھی فرمایا:میں بھی یہ جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ شیعہ مذہب ہی حق ہے،بلکہ صرف یہی واحد شیعہ مذہب ہی صحیح مذہب ہے اور مجھے یہ یقین اپنی تحقیق سے حاصل ہوا ہے لہذا میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں بھی شیعہ ہوں۔

اسی طرح اس مجلس میں موجود اکثرعلماء،سپہ سالار اور حاضرین (جن کی تعداد ستر تک تھی)نے شیعہ مذہب اختیار کر لیا۔

بادشاہ سلجوقی،ان کے وزیر نطام الملک اور دوسرے وزراء اور سپہ سالاروں کے شیعہ ہونے کی خبر پوری اسلامی ریاست میں پھیل گئی اور بہت سے لوگ شیعہ ہو گئے نیز نظام الملک (جو میرے سسر بھی ہیں)  نے حکم دیا مدارس نظامیہ بغداد کے تمام استاد شیعہ مذہب کی تدریس کریں گے ۔

لیکن بعض سنّی علماء نے اپنے باطل مذہب اور غلط روش پر ہی اڑے رہے اور اس آیۂ شریفہ کے مصداق قرار پائے:

" فَہِیَ کَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً"([53])

پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت۔

یہ لوگ ملک کے بادشاہ اور نظام الملک کی ضد میں کھڑے ہو گئے اورانہوں نے اس واقعہ کی ذمہ داری نظام الملک کے کندھوں پر ڈال دی ۔کیونکہ ان کی عقل و فکر سے اسلامی مملکت کے مسائل ہوتے تھے۔سنّی دشمنوں کے پلید ہاتھ ان کی آستین سے نکلے اور انہوں نے ماہ رمضان ٤٨٥   ھ کی بارہویں تاریخ کو آپ کو شہید کر دیا اور نظام الملک کے بعد بادشاہ سلجوقی کو بھی شہید کر دیا گیا۔اِنّٰا لِلّٰہِ وَ اِنّٰا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ دونوں بزرگ خدا کی راہ میں حقیقت اور ایمان کی وجہ سے قتل ہوئے ہیں،ان دونوں بزرگوں اور اسی طرح راہ خدا میںایمان اور حقیقت کی وجہ سے جان دینے والے ہر شہید کو شہادت مبارک ہو۔

شیخ نظام الملک کی شہادت پر کچھ شعر لکھے گئے جن کا ایک حصہ یہ ہے:

وزیر نظام الملک ایک قیمتی گوہر تھا جسے خدا ئے رحمان نے شرافت کے لئے پیدا کیا تھا۔

وہ بہت اہم شخصیت تھے لیکن دنیا نے ان کی قدر نہ کی اور انہیں ان کے صدف کے ساتھ واپس کر دیا۔

انہوں نے بحث و گفتگو کے بعد مذہب حقہ کو قبول کیا ،وہ ایسی گفتگو تھی جس نے دلیل و برہان کے ساتھ حق کو واضح و آشکار کر دیا۔

مذہب تشیع حقیقت ہے اور میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور باقی سب مذہب سراب کی مانند ہیں(یعنی باطل اور خرافات ہیں)

لیکن ان کے ساتھ کینہ ان کے قتل کا سبب بنا اور وہ روشن چاند شب کی تاریکی میں غروب ہو گیا۔

اس جانثار پر ہزاروں سلام ہوں اور بہشت بریںمیں ان کی روح مزید نورانی ہو۔

یہاںایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں بھی اس کانفرنس میں موجود تھا اور اس کانفرنس میں جو کچھ بھی واقع ہوا، میں نے اسے قلمبند کیاالبتہ اس مختصر کتاب میں اضافی مطالب ذکر کئے ہیں اور اس پورے واقعہ کو مختصر طور پر بیان کیا ہے۔

حمد و ثنا صرف خدائے متعال سے مخصوص ہے اور خدا کا درود و سلام ہو محمد(ص)اور آپ کی اہلبیت اطہار علیھم السلام پر،اور اس درود میں آپ کے شائستہ محب بھی شامل ہوں۔میں  نے یہ مختصر کتاب بغداد میں مدرسیہ نظامیہ میں لکھی۔

 

مقاتل بن عطیّہ

 


[1] طبقات ابن سعد:قسم ٢ ج٢ ص٤١،تاریخ ابن عساکر:ج۲،ص۳۹۱،کنز العمّال:ج۵ص٣١٢،الکامل ابن اثیر:ج۲ص۱۲۹

[2] ۔سورۂ زخرف ،آیت:٢٣

[3] ۔بحار الانوار:ج٣٧ص١٢٣

[4] ۔ سورۂ فجر، آیت:٢٢    

[5] ۔ سورہ ٔ قلم،آیت:٤٢

[6] ۔ سورۂ فتح،آیت ١٠

[7] ۔ یہ ایک سنّی عالم دین تھے اور یہ نابینا بھی تھے۔

[8] ۔ سورہ ٔ  اسراء،آیت:٧٢

[9] ۔ سورۂ نساء، آیت :٨٨

[10] ۔ سورۂ  توبہ، آیت :٩٣    

[11] ۔سورۂ اعراف،آیت:٢٨

[12] ۔ سورۂ انسان،آیت٣    

[13] ۔ سورۂ بلد ،آیت:١٠

[14] ۔سورۂ حج ۔آیت ١٠

[15] ۔ سورۂ عبس،آیت ١

[16] ۔سورۂ قلم،آیت ٤

[17] ۔سورۂ انبیاء ،آیت ١٠٧

[18] ۔سورۂ نساء ،آیت ٦٥

[19] ۔الغدیر:ج٨،ص٢٩٤،٢٩٩،٣٠٥،٣٠٦

[20] ۔سورۂ احزاب،آیت ٥٣

[21] ۔احقاق الحق:ج٦،ص٤٤٠،ج٧ص٢٩٦

[22] ۔ احقاق الحق:ج٦ص٤١٩،اورج ١٦ص٦٢١

[23] ۔بحار الانوار:ج٣٨ص٦٢١       

[24] ۔احقاق الحق:ج٤ص٢٧

[25] ۔سورۂ اعراف ،آیت ١٤٦

[26] ۔سورۂ نساء ،آیت ٥٩

[27] ۔سورۂ احزاب ،آیت ٣٦

[28] ۔ سورۂ انفال،آیت ٢٤

[29] ۔ احقاق الحق:ج٤ص٣٢١ اورج ١٥ص٣٧٠

[30] ۔ صحیح بخاری ''ما ننسخ من آیة....''کی تفسیرملاحظہ کریں،طبقات ابن سعد:١٠٢٦،الاستیعاب:ج١ص٨ اور ج٢ص٤٦١۔ حلیة الاولیائ:ج١ص٦٥،احقاق الحق:ج٨ص٦١ اورص ٦٦

[31] ۔احقاق الحق:ج٤ص٣٧٦ اورج ٥ص٥٢

[32] ۔احقاق الحق:ج٤ص٣٤٢ اور ج٦ص٤٠

[33] ۔سورۂ زمر ،آیت ٩

[34] ۔ احقاق الحق:ج٨ص٢٤٠

[35] ۔ مستدرک حاکم کتاب صلاة :ج١ص٣٥٨،الاستیعاب ابن عبد ربّہ:ج٣ص٣٩،مناقب خوارزمی: ص٤٨،تذکرہ ابن جوزی:ص٨٧،تفسیر نیشاپوری سورۂ احزاف۔

[36] ۔ تذکرہ ٔ ابن جوزی:ص٨٧،مناقب خوارزمی:ص٦٠،فیض الغدیر:ج٤ص٣٥٧

[37] ۔سورۂ بقرہ،آیت ١٢٤

[38] ۔ سورۂ توبہ ،آیت ٦١

[39] ۔سورۂ نساء،آیت ٢٤

[40] ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:اگر عمر متعہ کو حرام نہ کرتا تو شقی و بدبخت افراد کے سوا کوئی زنا نہ کرتا۔

[41] ۔ سورۂ  مائدہ ،آیت ٤٤،٤٥،٤٧

[42] ۔سورۂ حشر،آیت ٧

[43] ۔سورۂ نساء،آیت ٥٩

[44] ۔ سورۂ احزاب،آیت ٢١

[45] ۔نہایة العقول فخر رازی:ص١٠٤،مستدرک حاکم:ج٣ص٣٢،تاریخ بغداد:ج٣ص١٩،تلخیص المستدرک ذھبی:ج٣ص٣٢، اوجة المطالب:٤٨١،احقاق الحق:ج٦ص٤ اورج ١٦ص٤٠٢

[46] ۔ ''انّ اللہ تبارک و تعالی لیغضب لغضب فاطمة و یرضی لرضاھا''بحار الانوار:ج٤٣ص٢٦

[47] ۔سورۂ عنکبوت،آیت١٤

[48] ۔اس کے بہت سے مدارک ہیں جیسے الملاحم ولفتن:باب١٩،عقد الدرر:ح٦٦،ینابیع المودة:  ص٤٩١،  تذکرة الخواص ابن جوزی:باب٦،ارجح المطالب:ص٣٧٨،حلیة الاولیائ،ذخائر العقبی شافعی اور ......

[49]۔سورہ ٔ بقرہ،آیت١٥٩

[50] ۔صحیح بخاری:باب نماز تراویح،الصواعق اب حجر مکی،عسقلانی کی کتاب ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری:ج٥ ص٤، میں عمر کے قول(نعمت البدعة ھذہ) کے ذیل میں لکھاہے:عمر نے اسے بدعت حسنہ کا نام دیا،چونکہ رسول اکرم(ص)کی ایسی کوئی  سنت نہیں تھی نیز ابوبکر کے زمانے میں بھی ایسا کوئی عمل نہیں تھا....۔

[51]۔سورۂ احزاب،آیت ٣٣

[52] ۔حافظ نیشاپوری نے اسے اپنی صحیح کی ج٨ ص١٠٧ میں لکھا ہے۔ینابیع المودة:ص١١٧،نفحات اللاھوت :٣،صحیح مسلم اور .......

[53]۔ سورۂ بقرہ،آیت ٧٤

 

 

    ملاحظہ کریں : 4765
    آج کے وزٹر : 11712
    کل کے وزٹر : 21751
    تمام وزٹر کی تعداد : 128930592
    تمام وزٹر کی تعداد : 89555282