حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
٣۔مسجد مقدس جمکران

٣۔مسجد مقدس جمکران

جمکران(قم) میں اس مسجد کو بنانے کا حکم حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الشریف نے دیا ہے اور وہ بھی بیداری کے عالم میں ۔

پرہیز گار و پارسا شخص جناب شیخ حسن بن مثلہ جمکرانی  کہتے ہیں:

سنہ ٣٩٣ہجری ماہ مبارک رمضان کی سترہویں تاریخ اور سہ شنبہ کی رات تھی کہ جب میں اپنے گھر میں سورہا تھا اور رات کا کچھ حصہ گزرچکا تھا کہ کچھ لوگ ہمارے گھر آئے اورمجھے بیدار کیااور کہنے لگے اٹھو ، چلو تمہیں حضرت صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ نے بلایا ہے  ان کی دعوت قبول کرو ۔

حسن بن مثلہ کا بیان ہے : میں تیزی سے اٹھ کر تیار ہوااور پھر میں نے کہا مجھے کپڑے تبدیل کرنے کی اجازت دیں ۔

اچانک دروازے کی طرف سے آواز آئی یہ تمہارا پیراہن نہیں ہے،چنانچہ اسے رکھ دیااور پاجامہ اٹھایا توپھرآواز آئی وہ بھی تمہارا نہیں ہے اپنا پاجامہ پہنو ،اسے پھینک دیا اور اپنا پاجامہ پہنا اور گھر کی چابی کی تلاش میں تھا کہ آواز آئی ،چابی کی ضرورت نہیں ہے دروازہ کھلا ہوا ہے۔

دروازہ پر پہنچادیکھا بزرگوں کی ایک جماعت میری منتظرہے، سلام و آداب بجا لایا ۔انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہا اور ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں اس وقت مسجد جمکران موجود ہے۔ اچھی طرح دیکھا تو نظر آیا فضا نورانی ہے ایک تخت لگا ہوا ہے اور اس پر خوبصورت قالین بچھا  ہے اور خوبصورت تکیہ بھی لگا ہوا ہے ایک جوان جس کی عمر تیس سال ہو گی،ا س تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا ہے ۔ ایک ضعیف شخص ایک ہاتھ میں کتاب لئے ہوئے اس کے لئے پڑھ رہا ہے اور ان کے اطراف میں ساٹھ سے زائد افرادموجود تھے جو اس جگہ نماز ادا کر رہے تھے جن میں سے بعض افراد نے سفید اوربعض نے سبز رنگ کا لباس پہناہواتھا،وہ ضعیف شخص حضرت خضر علیہ السلام تھے جنہوں نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا اور پھر حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الشریف نے  مجھے  میرے نام سے پکارا اور فرمایا :

 حسن مسلم کے پاس جاؤ اور اس سے کہوکہ تم کئی سال سے اس زمین پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہو اور اس پر زراعت کرتے ہو ہم اسے خراب کردیں گے ،پانچ سال سے تم اس پرزراعت کر رہے  ہو اور اس سال پھر زراعت کرنا چاہتے ہو اب تم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس زمین پر زراعت کرو اور ابھی تک اس زمین سے جو فائدہ اٹھایا ہے اسے واپس کر و تاکہ اس جگہ مسجد بنائی جاسکے ۔

نیز اس سے کہہ دو:یہ مقدس سرزمین ہے ،پروردگار عالم نے ساری زمینوں میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے منزلت بخشی ہے اور تم نے اس زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی زمینوں کے ساتھ ملا دیا ہے۔

 پروردگار عالم نے اس کی سزا کے طور پر تمہارے دو جوان بیٹوں کو تم سے لے لیا لیکن تم متوجہ نہ ہوئے اوراگر اب بھی تمہیں جو حکم دیا ہے اس پرعمل نہیں کرو گے تو تمہارے لئے ایسا عذاب الٰہی آئے گا کہ تم خود بھی سمجھ نہ پاؤ گے ۔

جناب حسن مثلہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :اے میرے سید و سردار! اس پیغام کوپہنچانے کے لئے میں کوئی نشانی یاعلامتچاہتا ہوں اس لئے کہ لوگ علامت اور دلیل کے بغیر میری بات نہیں سنیں گے اور نہ ہی قبول کریں گے ۔

آنحضرت نے فرمایا :

ہم اس جگہ ایک علامت چھوڑ جائیں گے، تم جائو اور ہمارا پیغام پہنچا دواور سید ابو الحسن[1]کے پاس بھی جاؤاور ان سے کہو:اٹھواور اس زمین کی حدود معین کرو اورگذشتہ سالوں کا منافع حسن بن مسلم سے لے کر مسجد تعمیر کرنے کے لئے لوگوں کو دے دو اور اگر پیسہ کم پڑے تو باقی پیسہ رہق اردھال کی طرف زمین کے غلّہ سے لے لینا اور مسجد مکمل کرو ہم نے (رہق)کی آدھی ملکیت کو مسجد کے لئے وقف کردیا ہے ہر سال اس کی درآمد کو وہاں سے لایا جائے اور اس مسجدکی عمارت پر صرف کیا جائے ۔

اور لوگوں سے کہو :اس جگہ شوق و اشتیاق کے ساتھ اکٹھے ہوں اور اس کی تعظیم کریں اور اس جگہ چار ررکعت نماز ادا کریں۔[2]

جناب حسن بن مثلہ کہتے ہیں :

 میں نے اپنے آپ سے کہا گویا یہ وہی جگہ ہے جسے آپ صاحب الزمان عجل اللہ تعالٰی الشریف کی مسجد سمجھتے ہیں اور اس جوان کی طرف اشارہ کیا جو ٹیک لگائے بیٹھا تھا،پس اس جوان نے میری طرف اشارہ کر کے جانے کو کہا۔[3]

روئے زمین پر مسجد مقدس جمکران بہت ہی اہم معنوی مقام ہے اوراس مقدس مسجد میں شرفیاب ہونے والوں کو اس کا پورا احترام کرنا چاہئے اور اس کی اہمیت اور معنوی مقام پر توجہ دینی چاہئے اور اس پر فیض مقام پر شرفیاب ہونے کے بعد اپنی روح و جان کو معنویت سے سر شار اور اپنے وجود کو نورانی کرنا چاہئے۔

اس جگہ ہم بعض ایسے نکات بیان کریں گے جو اس مقدس مقام پر شرفیاب ہونے والے افراد کے لئے جاننا ضروری ہیں ۔

١ ۔حضرت امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے بیداری کے عالم میں جناب حسن بن مثلہ جمکرانی کے توسط سے عظیم الشان امامزادہ سید ابو الحسن لرضاکو حکم دیا کہ وہ اس مقدس مسجد کی بنیاد رکھیں اور تمام منابع اور مصادر میں یہ واقعہ بیداری کے عالم میں نقل ہوا ہے نہ کہ خواب میں ۔

٢۔حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے مسجد جمکران کی تعمیر کے حکم سے سینکڑوں سال پہلے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اس واقعہ کی خبر دی تھی۔ ایک روایت جسے صاحب ’’انوار المشعشعین‘‘نے ذکر کیا ہے اس میں امیر کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام نے اپنی پیشنگوئی میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

 اس روایت میں آنحضرت نے مسجد مقدس جمکران کی عظمت کے متعلق وہ راز بیان کیا ہے جسے سب لوگ سننے کی قوت نہیں رکھتے ۔

٣۔امام عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت کوفہ کے بعد مسجد مقدس جمکران آنحضرت  کا دوسرا مرکز ہوگا اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس روایت میں فرمایا ہے:

ظہور کے وقت امام عصر عجل اللہ تعالٰی الشریف کے سپاہیوں کا پرچم کوہ سفید( یہ وہی کوہ خضر ہے جو مسجد جمکران کے نزدیک واقع ہے) پر لہرائے گا ۔

٤۔ایک بہت ہی اہم نکتہ کہ جس پر توجہ کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ مسجد مقدس جمکران نہ صرف امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت ان کی قوت کا مرکز اور روحانی و معنوی تبدیلی کا مقام نہیں ہے بلکہ آنحضرت  کی غیبت کے زمانہ میں بھی اس میں وہ خصوصیت موجود ہے۔

یہ نکتہ خودامام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے فرمودات سے استفادہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :

 جو بھی اس جگہ یہ نمازپڑھی گویااس نے خانۂ خدا میں نماز ادا کی اورخانۂ خدا نہ صرف زمین کے جاذبہ کامرکز ہے جو روحی اور جسمی اعتبار سے انسان کے اوپر اثر انداز ہے اور یہ بیت معمور ،آسمانی و فضائی معنوی مقام کے مقابل ہے ۔

اس بنا پر  اگر انسان خانۂ خدا میں ہو اور اس میں نماز ادا کرے تو اس کے لئے ارتباط کی راہ کھل جاتی ہے اور اپنے آپ کو زمین و آسمان کے روحی و جسمی جاذبہ کے درمیان قرار دے دیتا ہے اور نا مرئی امواج انسان کے جسم و جان میں مفید تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور مسجد مقدس جمکران کی اصل جگہ بھی اسی طرح کی خاصیت رکھتی ہے ۔

 امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا کلام بھی اس مطلب پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا:

اس مقام پر نماز پڑھنا خانۂ خدا میں نماز پرھنے کی طرح ہے۔

اسی طرح  مسجد مقدس جمکران کے اصل مقام میں بہت سے اسرار پوشیدہ ہیں جنہیں لوگ نہیں جانتے ۔اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

مامن علمٍ الاّٰ وأنا افتحہ وما من سرٍّ الاّٰ و القائم یختمہ.[4]

کوئی بھی ایسا علم نہیں ہے مگر یہ کہ میں نے اسے برملا نہ کیا ہو اورکوئی بھی ایسا راز نہیں ہے مگر یہ کہ قائم اسے اختتام تک پہنچائیںگے۔

مسجد مقدس جمکران کی تعمیر اس کی عظمت اور راز کے متعلق پہلے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے خبر دی تھی اوراس کے تمام اسرار حضرت حجت عجل اللہ تعالٰی الشریف کے ظہور کے وقت لوگوں پر عیاں ہوں گے۔ انشاء اللہ ۔

ہم اس پرعظمت زمانہ کی یاد پھر سے تازہ کرتے ہیں اور پروردگارعالم سے دعا کرتے ہیں جتنی جلدی ممکن ہو اس نورانی دور کو پہنچا دے تاکہ عالم وجود کے اسرار فاش ہوجائیں اور تمام عالم لامحدود دانش اور عدل و انصاف سے بھرجائے ۔

٥۔جو افراد اس مقدس مقام پر مشرف ہوتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ وہ بہت ہی  مقدس مقام پر قدم رکھ رہے ہیںجس مقام پر  امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الشریف کی توجہ ہے اورآپ آنحضرتکی نگاہوں کے سامنے ہیں اس طرح کہ جیسے آنحضرت کے گھر میں داخل ہوئے ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

لہذا یہاں دیگر مقامات سے زیادہ حضور کے شرائط کی رعایت کریںاور یہجان لیںکہ آپ  امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الشریف کے سامنے ہیں اور وہ نہ صرف ہمارے اعمال ،افکار،تصورات اور خیالات سے آگاہ ہیں بلکہ ہمارے نفس و ضمیر سے بھی باخبر ہیں ۔

اس لئے ہمیں ہر جگہ اپنی رفتار، گفتار اور افکار پر توجہ رکھنی چاہئے بالخصوص مسجد جمکران میں حضرت کے مہمان ہیں اور ادب اور حضور کا زیادہ خیال رکھیں ۔

٦۔اس مقدس مقام کے ادب کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان مسجد مقدس جمکران میں شرفیاب ہونے کے اپنے مقصد کو مشخص کرے اور اپنے لئے بہترین ،عالی ترین اور اہم ترین ہدف کا انتخاب کرے اور خود کو چھوٹے مقاصد، مادی مسائل اور ذاتی فائدہ کا پابند نہ کرے اور یہ توجہ رکھے کہ اس زمانہ کا سب سے اہم مسئلہ حضرت امام عصر عجل اللہ تعالٰی الشریف  کے ظہور میں تعجیل ہے ۔

کیونکہ آنحضرت کے ظہور کے زمانے میں ہی تمام انسانوں کی مادی و معنوی مشکلات دور ہوں گی اور رنج و غم کا قلع قمع ہوگا۔لہذااس سے بہتر اورکیا ہوگا کہ اس مقدس مقام پر تمام انسانوں کی مشکلات اور مصائب سے نجات کے لئے دعا کریں اور مسجد مقدس جمکران جانے کا اپنا اصلی ہدف  امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الشریف کے لئے استغاثہ و دعا اور آنحضرت کے ظہور میں تعجیل قرار دیں۔

 


[1]۔ قابل ذکر ہے مسجد جمکران کاواقعہ بیداری کے عالم میں حسن بن مثلہ کے لئے پیش آیا یہ جناب سید ابو الحسن الرضا کی شان و منزلت کو بیان کرتا ہے اس لئے کہ آپ کے زمانہ میںائمہ اطہار علیہم السلام کی اولاد میں سے بہت سے سادات قم میںساکن تھے لہٰذا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طرف سے آپ کا انتخاب اس بزرگوار کے مقام و منزلت کو ظاہر کرتا ہے ۔

ان کا مرقد خیابان آذر قم میں ہے اس جگہ محبین اہل بیت علیہم السلام زیارت کی غرض سے مشرف ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو مسجد جمکران مشرف ہوتے ہیں ان کے لئے شائستہ ہے اس بزرگوار کی زیارت کوبھی جائیں اور ان کی بارگاہ کے مجاوروں اور پڑوسیوں پر لازم ہے کہ اس مقدس مقام کا احترام کریں اور ان کی زیارت کا اہتمام کریں ۔

[2]۔ مسجد مقدس جمکران کی نماز کا طریقہ اسی کتاب کے ص ١٣١ پر نقل کریں گے۔

[3] ۔ بحار الأنوار:ج ۵۳ ، ص ۲۳۰،نجم الثاقب:٣٨٣،اس واقعہ میں ذکر ہونے والی تاریخ صحیح نہیں ہے کیونکہ اسے مرحوم شیخ صدوق نے نقل کیا ہے اور ان کی وفات اس تاریخ سے پہلے ہوئی ہے۔

[4] ۔ بحار الأنوار : ج ۷۷ ، ص۲۶۹

    ملاحظہ کریں : 196
    آج کے وزٹر : 43903
    کل کے وزٹر : 92721
    تمام وزٹر کی تعداد : 131558518
    تمام وزٹر کی تعداد : 91230026