حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۳ ـ حضرت امام حسین صلوات اللہ علیہ کی نماز

۳ ـ  حضرت  امام حسین صلوات اللہ علیہ کی نماز

سید بن طاووس کہتے ہیں : امام حسین علیہ السلام کی نماز چار رکعت ہے ؛ جس کی ہر رکعت میں پچاس مرتبہ سورۂ حمد اور  سورۂ توحید پڑھیں  ، جس کی ہر رکعت کے رکوع میں دس دس مرتبہ سورۂ حمد اور سورۂ توحید پڑھیں  اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہر سجدہ میں اور دو سجدوں کے درمیان رکوع کی طرح عمل کریں ؛ یعنی دس دس مرتبہ سورۂ حمد اور سورۂ توحید پڑھیں ۔ اور سلام کے بعد یہ دعا پڑھیں :

أَللَّهُمَّ أَنْتَ الَّذِي اسْتَجَبْتَ لِآدَمَ وَحَوَّاءَ إذْ «قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ ‏تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ»[1] ، وَنَادَاكَ نُوحٌ فَاسْتَجَبْتَ لَهُ،وَنَجَّيْتَهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الكَرْبِ العَظِيمِ، وَأَطْفَأْتَ نَارَ نَمْرُودَ عَنْ خَلِيلِكَ ‏إِبْرَاهِيمَ، فَجَعَلْتَهَا بَرْداً وَسَلاَماً.وَأَنْتَ الَّذِي اسْتَجَبْتَ لِاَيُّوبَ «إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ‏ الرَّاحِمِينَ» [2] ، فَكَشَفْتَ مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ، وَأَتَيْتَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ، رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَذِكْرَى لِاُولِي الْأَلْبَابِ.

وَأَنْتَ الَّذِي اسْتَجَبْتَ لِذِي النُّونِ حِينَ نَادَاكَ «فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ» [3] ، فَنَجَّيْتَهُ مِنَ الْغَمِّ، وَأَنْتَ الَّذِي ‏اسْتَجَبْتَ لِمُوسَى وَهَارُونَ دَعْوَتَهُمَا حِينَ قُلْتَ «قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا» [4] ، وَأَغْرَقْتَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ، وَغَفَرْتَ لِدَاوُدَ ذَنْبَهُ، وَتُبْتَ عَلَيْهِ‏ رَحْمَةً مِنْكَ وَذِكْرَى، وَفَدَيْتَ إِسْمَاعِيلَ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ، «وَتَلَّهُ ‏لِلْجَبِينِ»[5] ، فَنَادَيْتَهُ بِالْفَرَجِ وَالرَّوْحِ.وَأَنْتَ الَّذي نَادَاكَ زَكَرِيَّا نِدَاءً خَفِيّاً فَ«قَالَ ربِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي‏ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً»[6]، وَقُلْتَ «يَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَهَباً وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ»[7].وَأَنْتَ الَّذِي اسْتَجَبْتَ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ، لِتَزِيدَهُمْ مِنْ ‏فَضْلِكَ، فَلاَتَجْعَلْنِي مِنْ أَهْوَنِ الدَّاعِينَ لَكَ، وَالرَّاغِبِينَ إِلَيْكَ، وَاسْتَجِبْ‏لِي كَمَا اسْتَجَبْتَ لَهُمْ بِحَقِّهِمْ عَلَيْكَ، فَطَهِّرْنِي بِتَطْهِيرِكَ، وَتَقَبَّلْ صَلاَتِي ‏وَدُعَائِي بِقَبُولٍ حَسَنٍ، وَطَيِّبْ بَقِيَّةَ حَيَاتِي، وَطَيِّبْ وَفَاتِي، وَاخْلُفْنِي ‏فِيمَنْ أَخْلُفُ، وَاحْفَظْنِي يَا رَبِّ بِدُعَائِي، وَاجْعَلْ ذُرِّيَّتِي ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً، تَحُوطُهَا بِحِيَاطَتِكَ بِكُلِّ مَا حُطْتَ بِهِ ذُرِّيَّةَ أَحَدٍ مِنْ أَوْلِيَائِكَ وَأَهْلِ‏طَاعَتِكَ، بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.

يَا مَنْ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ رَقِيبٌ، وَلِكُلِّ دَاعٍ مِنْ خَلْقِكَ مُجِيبٌ، وَمِنْ كُلّ‏ سَائِلٍ قَرِيبٌ، أَسْئَلُكَ يَا لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ، اَلْأَحَدُ الصَّمَدُ، اَلَّذِي لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ، وَبِكُلِّ اسْمٍ رَفَعْتَ بِهِ ‏سَمَائَكَ، وَفَرَشْتَ بِهِ أَرْضَكَ، وَأَرْسَيْتَ بِهِ الْجِبَالَ، وَأَجْرَيْتَ بِهِ الْمَاءَ، وَسَخَّرْتَ بِهِ السَّحَابَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ وَاللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَخَلَقْتَ الخَلاَئِقَ كُلَّهَا.أَسْئَلُكَ بِعَظَمَةِ وَجْهِكَ العَظِيمِ، اَلَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ، فَأَضَائَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ، إِلاَّ صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَكَفَيْتَنِي أَمْرَ مَعَاشِي وَمَعَادِي، وَأَصْلَحْتَ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، وَلَمْ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلَحْتَ أَمْرِي وَأَمْرَ عِيَالِي، وَكَفَيْتَنِي هَمَّهُمْ، وَأَغْنَيْتَنِي وَإِيَّاهُمْ‏ مِنْ كَنْزِكَ وَخَزَائِنِكَ، وَسَعَةِ فَضْلِكَ، اَلَّذِي لاَيَنْفَدُ أَبَداً.وَأَثْبِتْ فِي قَلْبِي يَنَابِيعَ الحِكْمَةِ، اَلَّتِي تَنْفَعُنِي بِهَا وَتَنْفَعُ بِهَا مَنِ‏ ارْتَضَيْتَ مِنْ عِبَادِكَ، وَاجْعَلْ لِي مِنَ المُتَّقِينَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ إِمَاماً، كَمَا جَعَلْتَ إِبْرَاهِيمَ الخَلِيلَ إِمَاماً، فَإِنَّ بِتَوْفِيقِكَ يَفُوزُ الفَائِزُونَ، وَيَتُوبُ‏ التَّائِبُونَ، وَيَعْبُدُكَ الْعَابِدُونَ، وَبِتَسْدِيدِكَ يَصْلُحُ الصَّالِحُونَ الْمُحْسِنُونَ‏ المُخْبِتُونَ الْعَابِدُونَ لَكَ، اَلْخَائِفُونَ مِنْكَ، وَبِإِرْشَادِكَ نَجَا النَّاجُونَ مِنْ‏نَارِكَ، وَأَشْفَقَ مِنْها المُشْفِقُونَ مِنْ خَلْقِكَ، وَبِخِذْلاَنِكَ خَسِرَ المُبْطِلُونَ، وَهَلَكَ الظَّالِمُونَ، وَغَفَلَ الْغَافِلُونَ.أَللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، فَأَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا، وَأَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَللَّهُمَّ بَيِّنْ لَهَا هُدَاهَا، وَأَلْهِمْهَا تَقْوَاهَا، وَبَشِّرْهَا بِرَحْمَتِكَ حِينَ تَتَوَفَّاهَا، وَنَزِّلْهَا مِنَ الْجِنَانِ عُلْيَاهَا، وَطَيِّبْ وَفَاتَهَا وَمَحْيَاهَا، وَأَكْرِمْ مُنْقَلَبَهَا وَمَثْوَاهَا، وَمُسْتَقَرَّهَا وَمَأْوَاهَا، فَأَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا[8].

پروردگارا ! تو وہ ذات ہے کہ جس نے آدم و حوا کی دعا کو مستجاب کیا ، جب : «ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ، اب اگر تو معاف نہ کرے گا اور رحم نہ کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے »۔ اور نوح نے تجھے پکارا تو؛ تو نے ان کی دعا کو پورا کیا اور ان کے اہل کو مشکلات اور بڑی پریشانیوں سے نجات دی ۔ اور اپنے خلیل ابراہیم کے لئے آتش نمرود کو بجھا کر ٹھنڈا کر دیا اور انہیں صحیح و سالم رکھا ۔اور تو وہ ذات ہے  کہ جس نے ایوب کی دعا کو مستجاب کیا «اور جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے بیماری نےچھو لیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے »، پس (تو نے )ان کی مشکل اور مصیبت کو برطرف کیا ۔اور تو وہ ذات ہے جس نے ذو النون یعنی یونس بن متّی کی دعا کو مستجاب کیا  کہ جب انہوں نے تجھے تاریکی میں پکارا (اور کہا ) : «تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، تو پاک و منزہ ہے اور بیشک میں ظالموں میں سے ہوں » پس تو نے انہیں غم سے نجات دی ۔ تو وہ ذات ہے جس نے موسی و ہارون کی دعا کو مستجاب کیا اور جب تو نے فرمایا : «تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے تو اب اپنے راستے پر قائم رہنا »  اور تو نے فرعون و هامان اور ان کی قوم کو غرق کر دیا اور داؤد کے گناہ کو بخش دیا اور  متذکر ہونے کے لئے ان کی توبہ کو اپنے باب رحمت سے قبول کیا اور اسماعیل  کے تسلیم ہونے کے بعد ان کی طرف سے ذبح عظیم (یعنی عظیم قربانی ) کو فدیہ قرار دیا  ، « اور پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور  باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا »پس تونے انہیں گشائس اور راحت سے ندا دی ۔

اور تو ہی وہ ذات ہے کہ جسے زکریا نے پکارا  اور آہستہ سے مخفی نداء دی ، «پس انہوں نے کہا کہ پروردگارا  بیشک میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی آگ سے بھڑک اٹھا ہے اور میں تجھے پکارنے سے کبھی محروم نہیں رہا ہوں »،  اور تو نے فرمایا : «اور رغبت اور خوف کے پر عالم میں ہم ہی کو پکارنے والے تھے اور بارگاہ میں گڑ گڑا کر التجا کرنے والے بندے تھے ».اور تو وہ ذات ہے جس نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں کی دعاؤں کو مستجاب کیا ، تا کہ اپنے فضل و کرم سے ان میں اضافہ کرے ، پس مجھے کم ترین دعا کرنے والوں  اور تیری رغبت نہ رکھنے والوں میں سے قرار نہ دے ، میری دعا کو مستجاب فرما  کہ جس طرح تونے ان کی دعا کو مستجاب کیا ۔ پس اپنی تطہیر سے مجھے پاک کر دے اور میری نماز اور دعا کو بہتر طریقہ سے قبول فرما ، اور میری باقی ماندہ حیات  اور میری وفات کو پاک کر دے  اور ان امور میں میری جانشینی کر کہ جنہیں میں باقی چھوڑتا ہوں ، اور پروردگارا ! میری دعا سے میری حفاظت فرما ، اور میری ذرّیت کو پاک ذریت قرار دے ، اور اپنے احاطہ سے ان کا احاطہ فرما ، اور  ان کی اس طرح نگہداری فرما کہ جس طرح تو اپنے اولیاء اور اہل اطاعت میں سے کسی ایک کا احاطہ کرتا ہے اور ان کی نگہداری کرتا ہے ، اپنی رحمت کے وسیلہ سے ، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔ اے وہ (ذات) جو ہر چیز کا نگہبان ہے ، اور اپنی مخلوق میں سے ہر دعا کرنے کو جواب دیتا ہے اور ان کی دعا مستجاب کرتا ہے ، اور ہر سائل کے نزدیک ہے ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ، اے معبود کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، تو زندہ  اور قیوم ہے ، تو یکتا و یگانہ اور بے نیاز ہے ، جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ، اور نہ ہی اس کا کوئی کفو اور ہمسر  ہے ، اور ہر وہ اسم کہ جس کے وسیلہ سے تو نے اپنے آسمان کو بلند کیا اور اپنی زمین کا فرش بچھایا ، اور  پہاڑوں کو ثابت اور استوار کیا ، اور پانی کو جاری کیا  اور بادلوں ، سورج ، چاند ،ستاروں اور رات دن کو مسخر کیا  اور تو نے تمام مخلوقات کو خلق کیا۔میں تجھ سے تیری عظیم عظمت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ  جس سے آسمان و زمین  منور ہوئے ، اور جس سے تاریکی روشن ہو گئی ، کہ تو محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میرے امرِ معاش و معاد میں میری کفایت کر اور میرے تمام امور کی اصلاح کر ، اور مجھے  پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے حال پر مت چھوڑ ، میرے اور  میرے اہل و عیال کے امور کی اصلاح فرما اور ان میں سے مہم کی کفایت کر ، اور مجھے اور انہیں اپنے ذخیروں اور خزانوں  اور اپنے وسیع فضل سے بے نیاز فرما کہ جو کبھی بھی اختتام پذیر نہیں ہو سکتے ۔اور میرے دل میں حکمت کے چشموں کو پائیدار کر؛ جن سے تو مجھے فائدہ بخشے اور ان سے اپنے منتخب کردہ بندوں کو  فائدہ بخشے ، اور آخری زمانے میں میرے لئے متقین میں سے امام و پیشواء قرار دے ؛ جس طرح تو نے ابراہیم خلیل کو امام و پیشواء قرار دیا ، بیشک تیری توفیق سے فلاح پانے والے فلاح پاتے ہیں ، اورتوبہ کرنے والے توبہ کرتے ہیں ، اور عبادت کرنے والے عبادت کرتے ہیں ، اور  تیرے استوار کرنے سے صالحین و محسنین و مخبتین (اہل خضوع) اور عابدین  صالح بنتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں  ، اور تیری  رہنمائی سے نجات پانے والے تیری آتش (جہنم) سے نجات پاتے ہیں  ، اور  تیری مخلوق میں ڈرنے والے، اس سے ڈرتے ہیں ، اور تجھے چھوڑ دینے سے اہل باطل نقصان اور خسارہ اٹھاتے ہیں ، اور  ظالم و ستمگر ہلاک ہوتے ہیں ، اور غفلت کرنے والے غافل ہوتے ہیں ۔پروردگارا ! میرے نفس کو تقویٰ عنایت فرما ، تو اس کا ولی و سرپرست ہے ، اور تو (ہی ) اسے پاک کرنے کے لئے بہترین ہے ، پروردگارا ! اس کے لئے اپنی ہدایت کے طریقے بیان کر  ، اور اس پر اپنے تقویٰ کا الہام فرما ، اور جب اسے دریافت کرے تو اپنی رحمت سے اسے بشارت دے ، اور اپنی اسے جنت کے بالائی حصہ پر نازل کر ، اور اس کی حیات و ممات کو پاکیزہ کر ، اور اس کی بازگشت  اور اس کے محلِ استقرار اور منزل گاہ کو محترم رکھ ، اور تو اس کا ولی و سرپرست ہے ۔

علّامه مجلسی فرماتے ہیں : امام حسین علیہ السلام کی نماز میں ظاہراً دو سجدوں کے بعد قرائت نہیں ہے ۔ کتاب ’’مختصر مصباح ‘‘ میں اس کی تصریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : چار رکعت نماز کو آٹھ سو مرتبہ حمد اور سورۂ توحید (قل هو الله احد) کے ساتھ پڑھیں اور پھر اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ لیکن سید بن طاؤوس نے کتاب اقبال میں یہ نماز نیمۂ شعبان کی رات کے اعمال میں ذکر کی ہے اور کہا ہے :

شیخ ابوالحسن محمّد بن هارون کے خط سے نقل کیا ہے کہ جس کی سند حذف ہو گئی ہے  اور کہا ہے:

سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے پاس نیمۂ شعبان کی رات پڑھی جانے والوں نمازوں میں سے ایک چار رکعت نماز ہے  کہ جس کی ہر رکعت میں پچاس مرتبہ سورۂ فاتحہ اور پچاس مرتبہ سورۂ توحید (قل هو الله احد ) پڑھی جائے ۔ دو نوں سجدوں اور دونوں سجدوں کے درمیان اسی طرح عمل کریں کہ جس طرح نماز تسبیح (حضرت جعفر طیّار علیہ  السلام ) میں انجام دیتے ہیں ۔پھر تسبیح اور اس کے بعد دعا کو ذکر کیا ۔ اس نماز کو نماز تسبیح (نماز جعفر طیار علیہ السلام ) سے تشبیہ دینے کی یہ وجہ ہے کہ اس میں دو نوں سجدوں کے بعد بھی قرائت موجود ہے ۔

لہذا اگر یہ نماز ؛نماز تسبیح (نماز جعفر طیار علیہ السلام ) کی طرح ہو تو اس میں سورۂ حمد اور سورۂ توحید کو آٹھ سو  اسّی (۸۸۰)مرتبہ پڑھیں ، کیونکہ ہر رکعت میں دو سجدوں کے بعد  دس مرتبہ سورۂ حمد اور دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھنی چاہئے ، چاررکعت میں اس کی مجموعی تعداد اسّی بنتی ہے  اوریوں  ان آٹھ سو کے ساتھ مل کر اس کی مجموعی تعداد آٹھ سو اسّی ہو جائے گی ۔

سید بزرگوار کتاب ’’اقبال ‘‘ میں فرماتے ہیں : یہ نماز نیمۂ شعبان کی رات پڑھیں ، لیکن آپ نے اپنی دوسری کتاب ’’جمال الاسبوع ‘‘ میں اسے اس رات سے مخصوص قرار نہیں دیا  اور اسے نماز تسبیح (نماز جعفر طیار علیہ السلام ) سے تشبیہ نہیں دی ۔ پس چار رکعت نماز میں  آٹھ سو مرتبہ سورۂ حمد اور سورۂ توحید (قل ھو اللہ احد ) پڑھی جائے ۔



[1] سورۀ اعراف، آیت :23.

[2] سورۀ انبیاء، آیت :83.

[3] سورۀ انبیاء، آیت : 87.

[4] سورۀ یونس،  آیت :89.

[5] سورۀ صافات، آیت:103.

[6] سورۀ مریم، آيت:4.

[7] ۔ سورۂ انبیاء ، آیت : ۹۰.

[8] ۔ جمال الأسبوع : 176 ، ربیع الاسابیع : 173 ، بحارالأنوار : ۹۱/۱۸۶ .

 

    ملاحظہ کریں : 1336
    آج کے وزٹر : 52616
    کل کے وزٹر : 103882
    تمام وزٹر کی تعداد : 132948879
    تمام وزٹر کی تعداد : 92082612